۲۵ نومبر جمعۃ المبارک کو جماعتِ اسلامی، تنظیمِ اسلامی، متحدہ علماء کونسل، پاکستان شریعت کونسل، تحریکِ انسدادِ سود اور دیگر جماعتوں کی اپیل پر ملک بھر میں ’’یومِ انسدادِ سود‘‘ منایا جا رہا ہے، اس سلسلہ میں ۱۷ نومبر کو مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی علماء کرام کی نشست میں کی جانے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ سود کے کاروبار کو اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے اور واضح حکم دیا ہے کہ سودی کاروبار چھوڑ دو۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی نظام ختم کیا تھا اور خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، خلافت عباسیہ اور خلافت عثمانیہ کے ادوار میں ہماری معیشت میں سود کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔ سود کا نظام مغرب نے شروع کیا اور چلتے چلتے جب ہم پر غیر مسلم حکومتیں آئیں تو ہمارا نظام بھی سودی ہوتا چلا گیا، صرف بینکاری میں نہیں بلکہ قومی معیشت کے تمام شعبوں تجارت وغیرہ میں سود آیا۔
جب ملک آزاد ہوا اور پاکستان بنا تو پاکستان کے بنیادی مقاصد میں اہم ترین مقصد غیر شرعی قوانین سے نجات اور شرعی قوانین کے نظام کا نفاذ تھا۔ چنانچہ مختلف شعبوں میں سے معیشت کے باب میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے جب اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا تو انہوں نے دوٹوک بات کہی تھی جو ریکارڈ پر ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر معیشت دیکھنا چاہتا ہوں اور مجھے اپنے ماہرین سے توقع اور انتظار ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر معیشت کا نظام استوار کریں گے۔ ان کا انتقال ہو گیا اور اب تک یہ بات پوری نہیں ہو سکی۔ قیام پاکستان کے مقاصد میں سے یہ بات تھی لیکن یہ بات نہیں مانی گئی اور سود کا نظام چل رہا ہے۔
ایک اس کا شرعی پہلو ہے، دوسرا یہ قیامِ پاکستان کے مقاصد میں سے ہے، اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ معیشت کے حوالے سے اس وقت جتنی بدحالی ہے کہ ہم قرضوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، بیرونی اداروں اور باہر کے ملکوں کی ہدایات کے پابند ہیں، اس کی بنیادی وجہ سود ہے۔ سود سے نجات کے بغیر ہم بیرونی قرضوں کے جکڑ بندی سے نہیں نکل سکتے۔ یہ نظریاتی اور اعتقادی مسئلہ تو ہے ہی، لیکن عملی بھی ہے اور ماہرین معیشت اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری معاشی بدحالی کی بڑی وجہ سود ہے۔ سود کے نظام سے نجات کے بغیر ہم اس معاشی بحران سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔
اس حوالے سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے دو محاذوں پر جدوجہد ضروری ہے:
ایک تو حکومت سے مطالبہ کہ یہ نظام ختم کرو۔ یہ مطالبہ مسلسل چل رہا ہے اور حکومتیں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک وعدے کرتی چلی آ رہی ہیں کہ ہم عملدرآمد کریں گے۔ ۱۹۵۶ء میں پہلا دستور آیا، اس میں سود کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں دوسرا آئین آیا، اس میں بھی سود کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت جو دستور ہے وہ ۱۹۷۳ء کا دستور ہے، اس دستور میں صرف وعدہ نہیں ہے بلکہ حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ کم سے کم عرصہ میں ملک سے سودی نظام ختم کر کے اپنی معیشت کو غیر سودی بنیادوں پر استوار کرے۔ یہ دستور ۱۹۷۳ء میں نافذ ہوا تھا اور اب ۲۰۲۲ء ہے۔ اسے پچاس سال ہوگئے ہیں، مسلسل مطالبے اور وعدے چلتے آ رہے ہیں۔
ہماری جدوجہد کا دوسرا میدان عدالتی ہے۔ حکومت عمل بھی نہیں کر رہی اور انکار بھی نہیں کر رہی بلکہ وعدے اور ٹال مٹول کر رہی ہے۔ صدر ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی شرعی عدالت بنی جو کہ باقاعدہ ریاستی ادارہ ہے۔ وفاقی شرعی عدالت علماء اور ججوں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ حکومت اس سے پوچھے کہ فلاں قانون کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے، یا وہ خود محسوس کرے کہ فلاں قانون شریعت کے خلاف ہے، یا عوام میں سے کوئی درخواست دے، تو اس کا کام اس قانون کا جائزہ لینا ہے کہ یہ شریعت کے خلاف ہے یا نہیں۔ وفاقی شرعی عدالت فیصلہ دیتی ہے کہ فلاں قانون جس کے بارے میں ہمارے نوٹس میں بات لائی گئی ہے، وہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہدایت ہوتی ہے کہ اس کو اتنے عرصے میں ختم کرو۔ آگے عمل کرنا یا نہ کرنا حکومت کا کام ہے۔ جب وفاقی شرعی عدالت بنی تو اس وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ دس سال معیشت کو نہیں چھیڑیں گے، جب دس سال گزر گئے اور عام شہریوں کو یہ حق حاصل ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت میں جا کر کہیں کہ جناب! جتنے بھی سودی قوانین ہیں ان کو ختم کیا جائے، تو پھر بہت سی جماعتوں نے وفاقی شرعی عدالت میں جا کر اپیل دائر کی، ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ جماعتیں گئی تھی لیکن عدالت میں مسلسل کیس لڑنا مشکل ہوتا ہے اس لیے چلتے چلتے دونوں پارٹیاں رہ گئیں جنہوں نے آخر وقت تک کیس لڑا، ایک جماعت اسلامی اور دوسری محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی تنظیم اسلامی۔
پہلے تو اسلامی نظریاتی کونسل نے جائزہ لیا کہ فلاں فلاں قانون سودی اور شریعت کے خلاف ہے اس کی جگہ فلاں فلاں قانون آ سکتے ہیں، اس کا متبادل نظام اور ایک جامع رپورٹ دی۔ اس کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۰ء کے لگ بھگ فیصلہ دیتے ہوئے متعلقہ قوانین کو غیر شرعی قرار دیا،متبادل قوانین اور سسٹم دیا اور حکومت کو وقت دیا کہ اتنے عرصے میں اس کو نافذ کرو۔
اس وقت کی حکومت نے عمل کی بجائے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ سے سپریم کورٹ میں رٹ کروا دی۔ فیصلے پر رٹ ہو جائے تو عملدرآمد میں تعطل ہو جاتا ہے۔ وہ سٹے چلتا رہا۔ چنانچہ پہلے وفاقی شرعی عدالت نے نظرثانی کے بعد کہا کہ فیصلہ ٹھیک ہے، عمل کرو ۔لیکن پھر سپریم کورٹ میں یہ رٹ ہو گئی۔ ہمارے ہاں کام کو لٹکانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں رٹ کر دو۔ اس وقت سپریم کورٹ میں مولانا جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی، ڈاکٹر محمود احمد غازی اور دیگر حضرات تھے، انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ٹھیک ہے، عمل کرو، عمل کا آرڈر ہو گیا۔ لیکن قانونی پیچیدگی کیا ہوتی ہے اور ہماری بیوروکریسی کا طریقہ واردات کیا ہے؟ ایک ہے شریعت بینچ کے خلاف عدالت میں نظرثانی کی درخواست کرنا کہ ایک دفعہ پھر چیک کر لو کہ کوئی گڑبڑ نہ ہو گئی ہو۔ نظرثانی کی اپیل کے بارے میں ہماری روایت یہ چلی آ رہی ہے کہ جج صاحبان کے جس بینچ نے فیصلہ کیا ہوتا ہے نظرثانی بھی وہی کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں جو علماء کرام ہوتے ہیں وہ مستقل نہیں ہوتے بلکہ دو سال کے کنٹریکٹ پر ہوتے ہیں۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی فیصلہ کرنے والوں میں تھے تو نظر ثانی کی اپیل کی سماعت بھی انہوں نے ہی کرنی تھی، ان کی مدت ختم ہوئی تو دوبارہ ان سے کنٹریکٹ نہیں کیا گیا اور دوسرے حضرات سے کنٹریکٹ کر لیا گیا۔ اب نئے بینچ نے نظر ثانی کی اپیل کی سماعت کی، جس پر انہوں نے فیصلہ دیا کہ کسی جگہ تکنیکی غلطی ہوئی ہے اس لیے پورے کیس کی دوبارہ سماعت کی جائے۔ اس وقت پہلی سماعت کو اٹھارہ سال ہو چکے تھے۔ میں نے اس پر لکھا تھا کہ ہمیں لڈو کا سانپ ڈس گیا ہے کہ ۹۸ پر جا کر سانپ ڈس لے تو زیرو پر چلے جاتے ہیں۔ ہم اب پھر اٹھارہ سال پہلے کی پوزیشن پر چلے گئے۔ بہرحال ہم زیروپوائنٹ پر چلے گئے کہ اس کی ایک بار پھر سماعت ہوئی۔ اب اس سماعت کو بھی اکیس سال ہو گئے ہیں اور مجموعی طور پر بتیس سال ہو چکے ہیں، یہ کولہو کا بیل گھوم رہا ہے۔
ایک بات اور ہوئی کہ جن مسائل پر پہلے بحث ہو چکی تھی کہ سود کیا ہے، فلاں معاملہ سود ہے یا نہیں۔ جب وفاقی شرعی عدالت نے دوبارہ کیس کی سماعت شروع کیا تو وہ سوالنامہ جس پر پہلے اٹھارہ سال بحث ہو چکی تھی دوبارہ جاری کر دیا اور ملک کے مختلف مکاتب فکر کے سینکڑوں علماء کو بھیجا۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ سب کو بھیجا۔ اب آپ سوچیں کہ سوالات کی فہرست مختلف مکاتب فکر کے علماء کو بھیجی جائے اور ان سے جواب مانگا جائے تو کیا جواب ایک ہوگا؟ اس وقت ہم کچھ لوگ اکٹھے ہوئے ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ، مفتی محمد خان قادری، مولانا عبد الغفار روپڑی، ڈاکٹر محمد امین، ہم دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ اکٹھے ہوئے اور فیصلہ کیا کہ ہمارا ایک مشترکہ جواب جانا چاہیے تاکہ کوئی بہانہ نہ بنا سکیں کہ جواب مختلف آتے ہیں اور یہ نہ کہہ سکیں کہ تمہارا اپنا اتفاق نہیں ہم کیا فیصلہ کریں؟ اس لیے ہم ایک جواب پر سب کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو الحمد للہ ہم نے اس وقت ملی مجلس شرعی کے تحت ایک مشترکہ جواب لکھ کر دیا۔ اس وقت مولانا مفتی محمد خان قادریؒ ملی مجلس شرعی کے صدر تھے، ان کی وفات کے بعد اب میں اس کا صدر ہوں۔ جب بھی کوئی الجھن کی بات آتی ہے تو ہم اکٹھے بیٹھتے ہیں، معاملہ پر غور کرتے ہیں، جواب تیار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمارا موقف ایک ہے۔ اس جواب پر جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ المنتظر، جامعہ مدنیہ، جامعہ اہل حدیث اور دیگر ذمہ دار اداروں کے دستخطوں کے علاوہ لاہور کے اکابر مفتیان کرام کے دستخط تھے۔ وہ اپیل چلتی رہی اور بالآخر گزشتہ رمضان المبارک میں وفاقی شرعی عدالت نے طویل سماعت کے بعد فیصلہ دیا جو حتمی فیصلہ ہے، جس کے تحت پانچ سال کے اندر اندر صرف بینکاری میں نہیں بلکہ ملک کے تمام شعبوں میں غیر سودی شرعی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ تمام شعبوں میں سودی قوانین ختم کر کے ملک کے پورے نظام معیشت کو غیر سودی بنیادوں پر استوار کرنے کے حکم کے ساتھ اس کا طریقہ اور متبادل بھی بتا دیا۔
متبادل نظام کی بات بار بار چھیڑی جاتی ہے حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ میں متبادل موجود ہے، وفاقی شرعی عدالت کے پہلے فیصلے میں متبادل نظام موجود ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی متبادل نظام موجود ہے، اور حالیہ فیصلے میں بھی مکمل سسٹم وفاقی شرعی عدالت نے دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت کریں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس محمد نور مرحوم و مغفور کو جو بلوچستان کے تھے، وہ ریٹائر ہونے کے بعد کسی علاقائی تنازعے میں شہید ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون، لیکن فیصلہ ٹھیک ٹھاک کر گئے اور اپنی عاقبت سنوار گئے۔ اب ان کی جگہ چیف جسٹس سید محمد انور ہیں جنہوں نے سارا نظام پیش کیا کہ یہ متبادل ہے۔ اس کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت نے یہ بھی لکھا کہ اگر عملدرآمد میں کوئی الجھن ہو تو اسے حل کرنے کے لیے ہم حاضر ہیں۔ ستائیس رمضان کو فیصلہ صادر کیا۔
اس حوالے سے ہمارے تین الگ الگ فورم ہیں، متحدہ علماء کونسل، ملی مجلس شرعی اور تحریک انسداد سود پاکستان۔ سب نے اپنے اپنے اجتماعات میں حکومت کے مالیاتی اداروں سے کہا کہ مہربانی کرو، اب اپیل کی طرف نہیں جانا۔ لیکن سرکاری اور غیرسرکاری بینک اپیل میں چلے گئے اور اس وقت سپریم کورٹ میں ستائیس اپیلیں پڑی ہیں کہ نظرثانی کی جائے۔ پچھلی نظرثانی میں اکیس سال لگے تھے۔ اس مرحلہ میں حکومتی سطح پر مولانا فضل الرحمٰن، عدالت میں جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی، اور عوامی سطح پر مختلف جماعتوں نے کردار ادا کیا۔ اس دباؤ کے نتیجے میں گزشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ حکومتی سطح پر ہم نے جو اپیلیں دائر کی تھیں وہ ہم واپس لے رہے ہیں اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر کمیٹی اور ٹاسک فورس بنا رہے ہیں۔ یہ حکومتی اعلان کہ ہم سودی نظام کے خاتمے کے لیے تیار ہیں میں نے زندگی میں پہلی بار سنا ہے، ہونا نہ ہونا تو بعد کی بات ہے۔ اسحاق ڈار صاحب نے قرآن کریم کی آیت پڑھ کر کہا کہ سود کو قرآن مجید حرام کہتا ہے اس لیے ہم اسے ختم کریں گے۔ انہوں نے اس پر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق عملدرآمد کا اعلان کر دیا ہے۔ ہم نے کہا جہاں پہلے بتیس سال گزر گئے ہیں پانچ سال اور گزر جائیں، اگرچہ ہمارے لحاظ سے وقت دینا ٹھیک نہیں تھا، لیکن جہاں اتنا عرصہ پہلے گزار لیا تو پانچ سال اور دیکھ لیتے ہیں۔
ایک الجھن اس وقت یہ ہے کہ قانونی طور پر اگر فیصلے کے خلاف ایک اپیل بھی سپریم کورٹ میں پڑی ہو تو سٹے قائم رہتا ہے اور عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔ آج صبح متحدہ علماء کونسل کے زیراہتمام آسٹریلیا مسجد میں تمام مکاتب فکر کے مشترکہ اجلاس میں ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے بریفنگ دی کہ سپریم کورٹ میں ستائیس اپیلیں پڑی ہیں، ان میں سے تیرہ اپیلیں سرکاری ہیں وہ واپس لیں گے تو چودہ اپیلیں باقی رہ جائیں گی، لیکن اگر ایک اپیل بھی پڑی ہو تو عمل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اب ہم اس مرحلے میں ہیں کہ باقی بینکوں کو بھی اپیل واپس لینے پر آمادہ کیا جائے۔ اس حوالے سے ہم گوجرانوالہ اور دیگر جگہوں پر اجلاس کر چکے ہیں جس میں ہم نے کہا کہ جن بینکوں نے اپیلیں واپس لی ہیں، ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور جنہوں نے واپس نہیں لیں، ان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اپنی اپیلیں واپس لو۔
اس سلسلہ میں جسٹس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے ۳۰ نومبر کو کراچی میں قومی سطح کا کنونشن طلب کر لیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے ساتھ میں بھی مشورے میں شریک تھا کہ ہمیں ایک قومی اجتماع کر کے دوٹوک پالیسی دینی چاہیے۔ بنیادی حکمت عملی ہم ۳۰ نومبر کو طے کریں گے لیکن اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے کہ سپریم کورٹ میں جن بینکوں کی اپیلیں پڑی ہوئی ہیں ان سے مطالبہ کیا جائے۔ اس مطالبے میں ہمیں قوم کے تمام طبقات کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ تاجروں ، اساتذہ، طلباء سب کی حمایت کی ضرورت ہے کہ وہ اس مہم میں شامل ہوں کہ ساری اپیلیں واپس لی جائیں ورنہ سٹے اور تعطل قائم رہے گا۔ اس مہم کو ہم منظم کر رہے ہیں اور اسی سلسلہ میں جمعہ ۲۵ نومبر کو یومِ انسدادِ سود کے طور پر منایا جائے گا۔ جمعہ کے موقع پر ہم اپیل واپس لینے والوں کا شکریہ ادا کریں گے اور اپیلیں واپس نہ لینے والوں سے مطالبہ کریں گے، تاکہ اس سود کی لعنت سے ہماری جان چھوٹ جائے کیونکہ سود بے برکتی اور لعنت کا نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر جاری رکھو گے تو میرے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ اللہ اور رسول کے ساتھ جنگ سے بڑی نحوست کیا ہو سکتی ہے؟
اس حوالے سے علماء کرام کو توجہ دلانے کے لیے ہم نے یہ نشست رکھی ہے کہ خود بھی متوجہ ہوں اور اپنے ساتھ اپنے علاقے کے تاجر حضرات، وکلاء، دانشور اور صحافی حضرات جو بھی آپ کی پہنچ میں ہیں ان کو ساتھ ملائیں تاکہ وہ ہمارا ساتھ دیں، کیونکہ قومی جدوجہد کے لیے تمام طبقات کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے میری علماء کرام سے دو درخواستیں ہیں۔ ایک یہ کہ جمعہ کے خطابات میں اس مسئلے پر روشنی ڈالیں، توجہ دلائیں اور مطالبہ کریں۔ حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ عملدرآمد کا آغاز کرے اور بینکوں سے مطالبہ کریں کہ وہ اپیلیں واپس لیں۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ جس طبقے کے بھی موثر آدمی آپ کو میسر ہوں ان کو ساتھ ملائیں اور آمادہ کریں کہ وہ ہماری حمایت کریں۔ ہمیں صحافی حضرات، وکلاء اور تاجر حضرات کی حمایت کی ضرورت ہے۔ سود کا مسئلہ عملی طور پر سب سے زیادہ تاجر حضرات کو درپیش ہے تو آپ انہیں اور دیگر طبقات کو آمادہ کریں تاکہ جب ہم ۳۰ نومبر کو کوئی فیصلہ کریں تو پہلے ماحول بنا ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رخ پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔