تعارف و تبصرہ

   
دسمبر ۱۹۹۱ء

’’تحریکِ کشمیر سے تحریکِ ختمِ نبوت تک‘‘

چودھری غلام نبی عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے سرکردہ حضرات میں شمار ہوتے ہیں۔ پرانے احراری ہیں۔ احرار راہنماؤں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا داؤد غزنویؒ، چودھری افضل حقؒ، مولانا مظہر علی اظہرؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، آغا شورش کاشمیریؒ، شیخ حسام الدینؒ، صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ اور ماسٹر تاج الدین انصاریؒ جیسے مجاہدینِ آزادی کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کے ساتھ مختلف تحریکات میں کام کیا ہے۔ احرار کے حوالہ سے برصغیر کی تحریکِ آزادی میں جو بے لوث، جری، ایثار پیشہ اور پرجوش سیاسی کارکن متعارف ہوئے اور جن کی ہیبت ایک عرصہ تک سیاسی حلقوں پر چھائی رہی، ان کی جرأت و جسارت کی آج کے دور میں ایک علامت ہیں۔

انہوں نے مختلف تحریکات کے حوالہ سے اپنی یادداشتوں کو زیر نظر کتاب کی صورت میں مرتب کرایا ہے۔ لیڈر اپنی یادداشتیں مرتب کرتے ہیں تو ذہنی تحفظات کی گہری دھند میں سے قارئین کو حقائق و واقعات کا اصل رخ تلاش کرنا پڑتا ہے، لیکن کارکن شاید ذہنی تحفظات کے سامنے ابھی اس قدر بے بس نہیں ہوئے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ چودھری غلام نبی نے اپنی یادداشتوں کے حوالہ سے واقعات کی جو تصویریں پیش کی ہیں وہ نسبتاً زیادہ واضح اور صاف ہوں گی۔

ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب مکتبہ حقائق گوجرانوالہ نے معیاری کتابت و طباعت، سفید کاغذ، خوبصورت سرورق اور مضبوط جلد کے ساتھ شائع کی ہے اور اس کی قیمت ایک سو روپیہ ہے۔

’’شاہ حسن عسکری شہیدؒ اور تحریکِ آزادی کے عوامل و عواقب‘‘

۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی کے بعد جن سرکردہ حضرات کو فرنگی استعمار کی بے پناہ انتقامی کاروائی کا نشانہ بننا پڑا ان میں شاہ حسن عسکری شہیدؒ بھی شامل ہیں۔ انہیں فرنگی عدالت نے اس جرم میں موت کی سزا سنائی کہ انہوں نے بہادر شاہ ظفرؒ کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے اسے جنگِ آزادی میں شرکت پر اکسایا، جنگِ آزادی کے جرنیل جنرل بخت خانؒ کو کامیابی کے لیے دعا دی، اور ایک امیر کو فوج مہیا کرنے کے لیے خط لکھا، اور پھر اس عظیم مجاہدِ آزادی کو ۱۵ شوال ۱۲۷۲ھ کو توپ کے منہ پر باندھ کر گولے سے اڑا دیا گیا۔

جناب سید اشتیاق اظہر نے حضرت شاہ حسن عسکری شہیدؒ کے حالاتِ زندگی، جہادِ آزادی میں ان کے کردار، اور ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے اسباب و نتائج پر قلم اٹھایا ہے اور اس دور کی پوری تاریخ کو اس کتاب میں جمع کر دیا ہے۔ تین سو کے لگ بھگ صفحات کی یہ کتاب ’’میزانِ ادب، بی ۷۲ کے، خالد آباد، گلبہار کالونی، کراچی نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت چالیس روپے ہے۔

’’مولانا فخر الحسن محدث گنگوہیؒ کی سوانح اور خدمات‘‘

دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہو کر سند پانے والے پہلے پانچ علماء کے گروپ میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، مولانا محمد عبد الحقؒ ساکن پور قاضی، مولانا محمد عبد اللہ جلال آبادیؒ، اور فتح محمد تھانویؒ کے ساتھ مولانا فخر الحسن گنگوہیؒ بھی تھے جو بعد میں محدث گنگوہی کے لقب سے متعارف ہوئے۔ ان کا شمار اپنے دور کے بڑے علماء میں ہوتا تھا اور انہوں نے تدریس و تعلیم کے ذریعہ ایک مدت تک دینی خدمات سرانجام دیں۔ ابو داؤد شریف پر ان کے حاشیہ سے آج بھی اہلِ علم استفادہ کر رہے ہیں۔

محدث گنگوہیؒ کے نواسے جناب سید اشتیاق اظہر نے اپنے عظیم ناناؒ کے حالاتِ زندگی اور علمی و دینی خدمات کو اس کتاب میں مرتب کیا ہے۔ اور اس کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی دور کے بعض حالات اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی خدمات و حالات کا ایک بڑا حصہ بھی اس میں شامل کر دیا ہے۔ کتابت بہت باریک ہے۔ طباعت بھی گوارا ہے۔ معلومات کے اتنے اہم ذخیرہ کو معیاری کتابت و طباعت کے ساتھ پیش کیا جاتا تو افادیت کئی گنا زیادہ ہوتی۔ دو سو صفحات کی یہ کتاب پینتیس روپے میں میزانِ ادب کے مذکورہ بالا پتہ سے طلب کی جا سکتی ہے۔

ماہنامہ ’’الاشرف‘‘ کراچی (صولتیہ نمبر)

کراچی سے مولانا محمد اسعد تھانوی کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہوار جریدہ ’’الاشرف‘‘ نے مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کی تاریخ اور حالات پر ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کا ہے۔ جس میں مدرسہ صولتیہ کے بانی اور تحریکِ آزادی کے نامور راہنما حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے حالات و خدمات، جہادِ آزادی میں ان کی شمولیت، عیسائی پادریوں کے تعاقب میں ان کی خدمات، اور پھر ہجرت، اور اس کے بعد میں مدرسہ صولتیہ کے قیام کے حالات پر معلوماتی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل اس خصوصی نمبر کی قیمت الگ درج نہیں ہے۔ البتہ ’’الاشرف‘‘ کا سالانہ زرخریداری ستر روپے اور فی شمارہ سات روپے ہے اور الاحمد مینشن ۱۳ بی گلشن اقبال کراچی سے شائع ہوتا ہے۔

ماہنامہ ’’نوائے قانون‘‘ (سود نمبر)

اسلامی قوانین اور ان سے متعلقہ مسائل و امور پر اسلام آباد سے ’’نوائے قانون‘‘ کے نام سے ایک ماہوار جریدہ گزشتہ دو سال سے شائع ہو رہا ہے جس کی ادارت کی ذمہ داریاں جناب ڈاکٹر عبد المالک عرفانی کے سپرد ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کی قانون اور اس کے اسلامی تقاضوں پر گہری نظر ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل میں قوانینِ اسلامی کی ترتیب و تدوین کے سلسلہ میں ان کی خدمات وقیع ہیں۔

زیرنظر شمارہ میں انہوں نے بڑی کاوش کے ساتھ سود اور اس سے متعلقہ امور پر ممتاز اصحابِ قلم کی نگارشات اور اسلامی نظریاتی کونسل کی بعض اہم رپورٹیں یکجا شائع کر دی ہیں، جن سے اس شمارہ کو ایک اہم دستاویز کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ شمارہ ایک سو چالیس صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت تیس روپے ہے۔ جبکہ نوائے قانون کا سالانہ زرخریداری ڈیڑھ سو روپے ہے اور اسے دفتر ماہنامہ نوائے قانون، کمرہ ۶، پہلی منزل، ہاشم پلازا، ایف ۸ مرکز، اسلام آباد سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

’’الخلافۃ الاسلامیۃ ام الدیما قراطیۃ الغربیۃ؟‘‘

سابق وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا سید وصی مظہر ندوی نے زیر نظر رسالہ میں مغربی جمہوریت اور خلافِ اسلامیہ کا تقابل کرتے ہوئے اس امر کی دلائل کے ساتھ وضاحت کی ہے کہ مسلم ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربی جمہوریت کے تسلط سے نجات حاصل کر کے خلافتِ اسلامیہ کے احیاء و نفاذ کی جدوجہد کریں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے احیاء خلافت کی جدوجہد کے ضروری تقاضوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ عربی زبان میں تحریر کردہ یہ رسالہ مکتبہ فروغ، شارع فاطمہ جناح، حیدر آباد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter