امریکا میں اسلامی ادارے اور سرگرمیاں

   
۲۹ ستمبر ۲۰۰۷ء

امریکا میں حاضری کے دوران مختلف دینی اداروں میں جانے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تمام تر مشکلات اور خدشات کے باوجود دینی مراکز اور اداروں کا کام جاری ہے۔ جس روز نیویارک پہنچا، کوئینز میں دارالعلوم نیویارک کے سالانہ امتحانات جاری تھے، دو تین روز وہیں قیام رہا اور مختلف درجات کے طلبہ کا امتحان بھی لیا، طلبہ کی استعداد اطمینان بخش تھی۔ عام طور پر مغربی ممالک کے دینی مدارس میں استعداد اور محنت کے لحاظ سے طلبہ کمزور ہوتے ہیں، مگر جہاں کوئی باذوق استاذ ہو تو وہ اپنی محنت اور صلاحیت کے ساتھ طلبہ کی اس کمزوری کا مداوا کر لیتا ہے، بحمد اللہ تعالیٰ دارالعلوم نیویارک میں یہ ماحول دکھائی دیا۔ علم الصیغہ علم الصرف کی مشکل کتاب ہے، جس کا یہاں عربی ترجمہ پڑھایا جاتا ہے۔ میرا یہ دلچسپی کا فن ہے، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اشتقاق اور تعلیلات کے قواعد سے یہاں کے طلبہ کو کوئی زیادہ مناسبت ہو گی، مگر بعض طلبہ کے جوابات میرے لیے مسرت کا باعث بنے۔ تقریری امتحان تھا اور یہ طلبہ پورے اعتماد کے ساتھ جواب دے رہے تھے۔

اس مدرسہ کے بارے میں کسی موقع پر قارئین کو بتا چکا ہوں کہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے بعض دوستوں نے، جن میں بھائی برکت اللہ سرفہرست ہیں ، یہ مدرسہ کرائے کی عمارت میں قائم کر رکھا ہے، جس میں حفظ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ درس نظامی کی تعلیم ہوتی ہے۔ ہمارے گوجرانوالہ کے پرانے ساتھی مولانا حافظ اعجاز احمد بھی اسی مدرسہ میں پڑھاتے ہیں۔ بھائی برکت اللہ کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ میں جب بھی نیویارک آؤں میرا قیام دارالعلوم میں رہے۔ یہ دوست دارالعلوم کے لیے مستقل جگہ کی تلاش میں ہیں اور اپنی جگہ خرید کر اسے باقاعدہ دارالعلوم کی صورت میں تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ کوئینز اور بروک لین کے درمیان میں ایک وسیع جگہ ان دنوں زیر نظر ہے جو میں نے بھی دیکھی ہے۔ اس کے مالکان کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، اللہ کرے کہ یہ جگہ ان حضرات کو مل جائے اور یہ اپنے ذوق اور عزائم کے مطابق دارالعلوم نیویارک قائم کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔

تبلیغی مرکز کے شبِ جمعہ کے اجتماع میں شرکت کا بھی موقع ملا۔ تبلیغی جماعت اپنے انداز کے ساتھ اور اپنے دائرہ کار میں کام جاری رکھے ہوئے ہے اور کل ہی ایک دوست کہہ رہے تھے کہ نائن الیون کے بعد جب تمام جماعتوں کا کام وقتی طور پر معطل ہو کر رہ گیا تھا، تبلیغی جماعت نے اپنا کام جاری رکھا تھا اور ان کی سرگرمیوں میں کبھی تعطل واقع نہیں ہوا۔ بعد میں سپرنگ فیلڈ ورجینیا کے تبلیغی مرکز میں بھی حاضری دی اور وہاں کے ذمہ دار حضرات کی فرمائش پر میں نے کچھ گزارشات بھی پیش کیں۔

۲۴ اگست کا جمعہ میں نے دارالعلوم میں پڑھایا اور اس کے بعد بروک لین کی مکی مسجد میں جانا ہوا، جہاں مسجد کی تعمیرِنو کے کام کے آغاز کے حوالے سے تقریب تھی۔ یہ مسجد اس علاقہ کی قدیمی مسجد ہے اور دینی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے حافظ محمد صابر مسجد کے خطیب ہیں، جبکہ بنگلہ دیش کے قاری رشید احمد امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ حافظ محمد صابر بہت متحرک دینی رہنما ہیں اور نیویارک میں مسلم کمیونٹی کے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اب مکی مسجد کو گرا کر اور اردگرد کے مکانات شامل کر کے وسیع بنیادوں پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ حافظ محمد صابر کو میری آمد کا پتہ چلا تو فون پر کہا کہ آپ اس تقریب میں ضرور شریک ہوں۔

ہم جب وہاں پہنچے تو امام سراج وہاج خطاب کر رہے تھے، یہ سیاہ فام لیڈر ہیں جو پہلے عیسائی تھے، پھر نبوت کے دعویدار کا خود ساختہ اسلام قبول کیا، بعد میں حقیقت حال معلوم ہونے پر اصل اسلام اختیار کر لیا اور اب پورے اعتماد اور جرأت کے ساتھ مسلم کمیونٹی کی رہنمائی اور قیادت کر رہے ہیں۔ بروک لین میں ان کا مرکز اور مسجد ہے جہاں وہ خطبہ و درس دیتے ہیں، میں چند سال پہلے وہاں حاضری دے چکا ہوں۔ ان کے خطاب کے بعد گجرات پاکستان سے تعلق رکھنے والے مولانا شہباز اختر چشتی نے خطاب کیا، جس کے بعد مجھے کہا گیا کہ میں دعا کے ساتھ ساتھ مسجد کی تعمیرِ نو کے کام کا افتتاح کروں، چنانچہ ہم سب نے مل کر دعا کی اور مکی مسجد کی تعمیرِ نو کے لیے کھدائی کا کام شروع کر دیا گیا، مغرب کی نماز کے بعد میں نے مکی مسجد میں درس دیا۔

نیویارک سے سپرنگ فیلڈ (ورجینیا) دارالہدیٰ میں پہنچا۔ حضرت مولانا حافظ غلام حسین نقشبندی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز مولانا عبد الحمید اصغر اس کے بانی و منتظم ہیں، دارالہدیٰ کی مسجد میں جمعہ کے روز مسلمانوں کا اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ جگہ کی قلت کے باعث جمعہ کی نماز تین بار ادا کرنا پڑتی ہے، ایک جمعہ مسجد میں ہوتا ہے، جبکہ دو بار دارالہدیٰ کے ایک بڑے ہال میں جمعہ ادا کیا جاتا ہے اور سال بھر یہی کیفیت رہتی ہے۔ میں یہاں ہوتا ہوں تو مسجد والا جمعہ میرے ذمہ ہوتا ہے، روزانہ مغرب کے بعد کسی نہ کسی موضوع پر بیان ہوتا ہے اور نمازِ فجر پڑھا کر اس کے بعد مختصراً ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ کسی ایک موضوع پر مسلسل درسِ حدیث کو یہاں کے احباب بہت پسند کرتے ہیں، ایک سال میں نے مسلم شریف کی کتاب الفتن کا درس دیا، ایک سال بخاری شریف کی ثلاثیات کا درس ہوا، ایک سال ابن ماجہ کی کتاب السنۃ کے درس کا اہتمام کیا گیا، اور اس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع پر مسلسل پانچ روز تک نمازِ مغرب کے بعد تفصیلی بیان ہوا۔ اس سال کے پانچوں بیانات میرے چھوٹے بیٹے عامر خان نے، جو یہیں دارالہدیٰ میں کام کرتا ہے، قلمبند کر لیے ہیں اور اب میں ان پر نظر ثانی اور اصلاح و ترمیم کا کام کر رہا ہوں، تاکہ انہیں شائع کیا جا سکے۔

دارالہدیٰ کی تعلیمی سرگرمیوں میں بچوں کے لیے ابتدائی اسکول ہے، جبکہ طالبات کے لیے ہائی اسکول ہے جہاں انہیں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ ضروری دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ جامعہ عائشہؓ کے نام سے لڑکیوں کا دینی مدرسہ ہے، جہاں چھ سال کا ”عالمہ کورس“ پڑھایا جاتا ہے، اس کورس کا بنیادی ڈھانچہ درس نظامی سے لیا گیا ہے اور اس میں مقامی ضروریات کے مطابق دیگر مضامین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایک تعلیمی کورس ویک اینڈ اسکول کے طور پر جاری ہے، جسے ”القلم اسکول“ کا نام دیا گیا ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ کے معمولات کا بھی ایک دائرہ ہے اور جمعرات کی شب کو اس کا ہفتہ وار پروگرام ہوتا ہے۔ الغرض دعوت و الارشاد، تعلیم و تدریس اور سلوک و اصلاح کے حوالوں سے بھرپور سرگرمیوں کا ایک نیٹ ورک ہے، جو سال بھر اور شب و روز کام کر رہا ہے۔

امریکا کی ایک ریاست ”روڈ آئی لینڈ“ ہے جو سب سے چھوٹی امریکی ریاست کہلاتی ہے، وہاں کچھ دوستوں نے ”الاسلام“ کے نام سے ایک خوبصورت مسجد اور اس کے ساتھ دینی مرکز قائم کر رکھا ہے، ڈاکٹر محمد عارف اس کے سربراہ ہیں اور اس کے معاملات میں زیادہ تر حصہ انہی کا ہوتا ہے۔ ہمارے ایک فاضل عزیز مفتی اکرام الحق جوہری خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں اور فتویٰ کے معاملات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ انہوں نے دارالعلوم کراچی میں افتاء کا کورس کیا ہے، ان کا تعلق جوہر آباد سے ہے اور وہ ہمارے پرانے جماعتی بزرگ حکیم علی احمد خان کے پوتے ہیں، یہاں مولانا عبد الحمید اصغر نقشبندی کا حلقہ ادارت ہے اور وہ وقتاً فوقتاً یہاں آتے رہے ہیں۔ ستمبر کے پہلے ویک اینڈ میں ان کے ساتھ میں نے بھی مسجد ”الاسلام“ میں دو روز قیام کیا اور یہاں دو تین بیانات کے علاوہ قریبی ریاست میس چیوسٹس میں بھی بعض مراکز میں حاضری دی۔

مشہور امریکی شہر یوسٹن اسی ریاست میں ہے، جسے برطانوی استعمار کے خلاف امریکا کی جنگِ آزادی کا نقطہ آغاز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ امریکا برطانوی استعمار کی نوآبادی تھا جس کے خلاف امریکا کی جنگ آزادی یوں شروع ہوئی کہ یوسٹن کی بندرگاہ چائے کے کاروبار کا مرکز تھا ، برطانوی حکمرانوں نے چائے کے کاروبار پر ٹیکس عائد کیا جو لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔ اس کے خلاف احتجاج ہوا، جسے تشدد کے ساتھ دبانے کی کوشش کی گئی تو احتجاج میں شدت پیدا ہوتی گئی، جو بالآخر تحریک آزادی کی شکل اختیار کر گئی۔ یہ جدوجہد ”یوسٹن ٹی پارٹی“ کے عنوان سے شروع ہوئی۔ ہمارے ہاں ”ٹی پارٹی“ کا تصور کچھ اور ہے، لیکن امریکا میں ”یوسٹن ٹی پارٹی“ تحریکِ آزادی کے آغاز کی علامت ہے۔

یوسٹن اور اس کے اردگرد کے علاقے کو ”سٹی آف ایجوکیشن“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس لیے کہ یہاں ڈگری سطح کے تین سو کے لگ بھگ کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، جو مختلف علوم و فنون میں مجموعی طور پر لاکھوں طلبہ اور طالبات کو تعلیم دینے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ امریکا کی شہرہ آفاق ”ہارورڈ یونیورسٹی“ یہیں ہے اور ٹیکنالوجی کی تحقیق اور تعلیم کا سب سے بڑا ادارہ ”ایم آئی ٹی“ (میس چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی) بھی اسی علاقے میں ہے۔ ان دنوں تعطیلات چل رہی تھیں، ورنہ میرا ارادہ تھا کہ اس کے کچھ شعبوں کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کروں گا اور کچھ حضرات سے ملاقات کی کوشش بھی کروں گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ البتہ ہارورڈ یونیورسٹی کے پڑوس میں ایک مسجد میں حاضری ہوئی، جو کچھ دوستوں نے ایک مکان خرید کر قائم کر رکھی ہے اور وہاں عبادات اور تعلیم قرآن کریم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مسجد میں نمازِ مغرب کے بعد بیان بھی ہوا اور مختلف احباب سے ملاقاتیں ہوئیں۔

یوسٹن میں ایک بڑی مسجد تعمیر ہوئی ہے جس کا مجموعی رقبہ دو ایکڑ پر محیط ہے۔ مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ ایک اسکول کی تعمیر کا پروگرام ہے۔ یہ مسجد ایک مین سڑک پر بڑے چوک کے ساتھ ہے، سڑک امریکا کے نومسلم شہید رہنما مالکم شہباز کے نام سے موسوم ہے اور اپنے خوبصورت گنبد کے ساتھ یہ مسجد اس علاقہ کی سب سے نمایاں عمارت نظر آتی ہے۔ مسجد کی تعمیر مکمل کرنے والے انجینئر بھائی مجیب الدین نے، جو حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتے ہیں، بتایا کہ مسجد کی عمارت سے اوپر بیس فٹ دو میناروں کی تعمیر کی اجازت بھی مل گئی ہے، جس کے بعد یہ اس علاقہ کی سب سے بلند عمارت ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس پر اب تک سولہ ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ ہو چکی ہے اور اس سال رمضان المبارک میں یہ مسجد نمازیوں کے لیے کھولی جا رہی ہے۔

میس چیوسٹس ریاست میں ایک اور اسلامک سنٹر بھی دیکھا، جو ”ووسٹر اسلامک سنٹر“ کے نام سے ہے اور وورسٹر (Worcester) کے مقام پر ہے۔ بھائی مجیب الدین ہمیں وہاں لیے گئے، بڑی مسجد ہے اور اس کے ساتھ کمیونٹی سنٹر ہے اور تعلیمی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں، عربوں کے زیرِ انتظام ہے اور قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی تعلیم کا بھی اہتمام ہے۔ وہاں سے نکلتے ہوئے گیٹ پر ایک کارڈ میرے ہاتھ لگا جس میں ”کلاسیکل عرب کورس“ کے نام سے ایک تعلیمی پروگرام کا تعارف کرایا گیا ہے اور لوگوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ عربی زبان کی تعلیم حاصل کریں۔ کارڈ پر امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد گرامی کو عنوان بنایا گیا ہے کہ ”عربی زبان سیکھو، کیونکہ یہ تمہارے دین کا حصہ ہے۔“

اس کے بعد اگلے ویک اینڈ پر مجھے ہیوسٹن جانے کا موقع ملا، جہاں پہلی بار میرا جانا ہوا۔ وہاں بھی مسلمانوں کی سرگرمیوں کا خاصا وسیع دائرہ ہے، مختلف مساجد میں حاضری دی اور خلائی تحقیق کا سب سے بڑا امریکی ادارہ ”ناسا“ بھی دیکھا۔

   
2016ء سے
Flag Counter