بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دیوبندی مکتب فکر کا تذکرہ کیا جائے تو تین شخصیتوں کا نام سب سے پہلے سامنے آتا ہے۔ اور تاریخ انہی تین بزرگوں کو دیوبندیت کا نقطہ آغاز بتاتی ہے۔ امام الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو دیوبندیت کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے دیوبندیت کے علمی، فکری اور مسلکی تشخص کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور یہ تین شخصیات دیوبندی مکتب فکر کی اساس اور بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔
حضرت نانوتویؒ دیوبندیوں کے سب سے بڑے متکلم اور حضرت گنگوہیؒ فقیہ اعظم تھے۔ جبکہ ان کے قائم کردہ علمی، فقہی، فکری، روحانی اور سیاسی ڈھانچے میں رنگ بھرنے کا کام شیخ الہندؒ ، حضرت مولانا محمود حسنؒ ، مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، اور مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ جیسے اکابر نے سر انجام دیا ہے۔ اور ان گلہائے رنگا رنگ کے حسین گلدستے کو دنیا ’’دیوبندیت‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مگر ہماری نئی نسل کا المیہ یہ ہے کہ ان سب بزرگوں کا نام عقیدت و احترام کے دائرہ میں تو سرفہرست ہے، لیکن ان کے تعارف اور افکار و تعلیمات سے با خبر ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ بلکہ ہم اپنے ماحول میں خود اپنے قائم کردہ فکری خولوں میں ان شخصیتوں کو بند کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں جس سے نہ صرف یہ کہ دیوبندیت کا صحیح تعارف آج کی دنیا کے سامنے پیش نہیں ہوتا بلکہ بہت سے معاملات میں ہم خود بھی کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دیوبندیت آج کی علمی و فکری دنیا کا ایک اہم موضوع ہے، مغرب کی بہت سی یونیورسٹیوں میں دیوبندیت کے علمی و فکری خدوخال اور انسانی معاشرے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات میں انہیں زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ مگر خود ہمارے ہاں اس محنت بلکہ سوچ تک کا فقدان ہے اور اگر کہیں اس سلسلہ میں کوئی مجلس یا فورم ہوتا بھی ہے تو روایتی اور جذباتی طرز پر عقیدت و محبت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور ہم اپنے بزرگوں کے فضائل اور مناقب بیان کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بزرگوں کے نام یاد ہیں اور ان سے محبت و عقیدت کا اظہار ہمارے معمولات میں شامل ہے۔ خاص طور پر دینی مدارس کے اساتذہ کی بڑی تعداد اور طلبہ کی غالب اکثریت میں اس بات کا شعور اور احساس موجود نہیں ہے کہ جن بزرگوں کو ہم اپنے تعارف کا ذریعہ بناتے ہیں اور جن کے نام پر عزت حاصل کرتے ہیں، ان کی علمی و فکری جدوجہد کا دائرہ کیا تھا، طریق کار کیا تھا، معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہیں، اور آج کے معروضی حالات میں ان سے استفادہ کی صحیح صورتیں کیا ہیں؟
اس پس منظر میں کچھ عرصہ قبل شیخ الہندؒ اکیڈمی کے نام سے کچھ نوجوانوں نے اس خلا کو پر کرنے کی ضرورت کا احساس کیا اور شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے حوالہ سے ملک بھر میں سیمینارز اور مقالات کا اہتمام کیا تو ہمیں خوشی ہوئی۔ اور بعض مجالس میں شرکت کے علاوہ ہم نے اپنے مضامین اور کالموں میں اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اور پھر دیوبند اور دہلی میں حضرت شیخ الہندؒ کے موضوع پر بین الاقوامی اجتماعات میں حاضری کا موقع ملا تو اس خوشی اور اطمینان کا لطف دوبالا ہوگیا۔ ہمارے فاضل دوست حافظ نصیر احمد احرار اور ان کے رفقاء نے اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الہند اکیڈمی کی طرف سے قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا ہے جو ۱۹ اکتوبر کو صبح دس بجے ایوان اقبالؒ لاہور میں منعقد ہو رہا ہے۔ اور اس میں ہماری معلومات کے مطابق مولانا فضل الرحمن، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عبد المجید لدھیانوی، قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر اصغر علی چشتی اور دیگر زعماء شرکت و خطاب کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔
پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ہمارے روحانی پیشوا ہیں جبکہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ فکری قائد اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فقہی امام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے آج کی دنیا میں فقہی حوالوں سے جو چیلنجز درپیش ہیں اور جن مشکلات و مسائل کا سامنا ہے ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے حضرت گنگوہیؒ کی فقہی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ان کے اجتہادی منہج اور طریق کار سے استفادہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ سیمینار اس اہم ضرورت کو پورا کرنے میں مثبت پیش رفت کا ذریعہ ثابت ہو، آمین یا رب العالمین۔