یومِ نسواں اور فری سوسائٹی کا منطقی انجام

   
۱۰ مارچ ۲۰۰۷ء

آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے خصوصی ڈراموں کا اہتمام کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ۸ مارچ ۱۸۵۷ء کو نیویارک کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین نے اپنی کم تنخواہوں پر احتجاج کیا تھا اور اس کے بعد ایک لیبر یونین بنا لی تھی، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ عورتوں کی پہلی لیبر یونین تھی۔ اس مناسبت سے اس تاریخ کو دنیا بھر میں خواتین کا دن منایا جاتا ہے اور مختلف پروگراموں کی صورت میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی معاشرتی ناانصافیوں پر احتجاج کرتے ہوئے ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن منایا گیا اور اخبارات کے خصوصی ایڈیشنوں کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر پروگرام نشر کیے گئے اور مذاکروں اور سیمیناروں کا اہتمام کیا گیا۔

اتفاق سے اس سے دو تین روز قبل ایک امریکی صحافی مسٹر ڈیوڈ گوجرانوالہ آئے اور ان سے اسی مسئلہ پر کچھ دیر گفتگو ہوئی۔ موصوف کا تعلق امریکی جریدہ ”کرسچین مانیٹر“ سے ہے اور وہ پاکستان میں اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی گوجرانوالہ آمد صوبائی وزیر محترمہ ظل ہما کے قتل کے بارے میں عوامی تاثرات معلوم کرنے کے لیے تھی، اسی مقصد کے لیے مذہبی حلقوں کے خیالات و تاثرات معلوم کرنے کی غرض سے ہمارے پاس ”الشریعہ اکادمی“ بھی آئے اور ان سے خواتین کی معاشرتی مظلومیت اور ان کے حقوق کے بارے میں بات چیت ہوئی، جس میں اکادمی کے دیگر اساتذہ مولانا حافظ محمد یوسف اور پروفیسر محمد اکرم ورک بھی شریک ہوئے۔

ہم نے ان سے گزارش کی کہ ہم یعنی مسلمانوں کے مذہبی حلقے اس حوالے سے دو طرفہ انتہا پسندی کا سامنا کر رہے ہیں:

  • ایک طرف عورتوں پر وہ معاشرتی جبر ہے جو علاقائی ثقافتوں، قبائلی روایات، خاندانی رسوم اور خاص طور پر جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے نہ صرف موجود، بلکہ پوری طرح مستحکم ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی ظالمانہ روایات ہیں جو ہماری معاشرت کا حصہ بن چکی ہیں، جبکہ نہ اسلام ان کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے مذہبی حلقے ان کی حمایت کرتے ہیں۔
  • جبکہ دوسری طرف آزادی کا وہ مغربی تصور ہے جس نے مرد اور عورت کے فطری ربط و تعلق کا وہ توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے جس کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے۔ اس سے نہ صرف مذہبی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے، بلکہ خاندانی نظام بھی اپنے وجود اور مقصدیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے لیے اس آزادی کی حمایت ممکن ہی نہیں ہے۔

ہم عورتوں کے خلاف معاشرتی اور علاقائی روایات کے جبر کی حمایت نہیں کرتے، بلکہ اس کے خلاف ہر اس تحریک اور جدوجہد کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں جو آسمانی تعلیمات کی بالادستی پر یقین رکھتی ہو اور عورتوں اور مردوں کے حقوق و فرائض کا دائرہ کار قرآن و سنت کی روشنی میں طے کرتی ہو، لیکن عورتوں کے حقوق یا آزادی کی کسی ایسی مہم کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو اس آزادی کی طرف لے جاتی ہو جو مغربی معاشرہ میں اس وقت اپنے تلخ نتائج و ثمرات کے ساتھ سامنے دکھائی دے رہی ہے۔

اسی کالم میں چند روز قبل ہم ذکر کر چکے ہیں کہ جہاں تک عورتوں کے حقیقی مسائل کا تعلق ہے، ان کے لیے پاکستان کے دینی حلقے ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ جیسا کہ عورتوں کو وراثت میں ان کا حصہ دلانے کے لیے سب سے پہلے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ۱۹۲۳ء میں مہم چلائی تھی اور ۱۹۳۵ء میں جمعیت علماء ہند نے صوبہ سرحد کی قانون ساز اسمبلی میں پیش کیے جانے والے ”شریعت بل“ کی حمایت کر کے اس مہم کو آگے بڑھایا تھا۔

اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے نام پر کام کرنے والی سینکڑوں این جی اوز میں سے کسی این جی او کا ایسا مطالبہ آج تک میری نظر سے نہیں گزرا جس میں عورتوں کو وراثت میں ان کا حصہ دلانے کی بات کی گئی ہو اور نہ ہی میں نے انسانی حقوق یا خواتین کے حقوق کا پرچار کرنے والی کسی این جی او کے بارے میں یہ سنا ہے کہ اس نے کسی عدالت میں کسی پاکستانی خاتون کو وراثت میں حصہ دلانے کے لیے اس کا مقدمہ لڑا ہو۔ میں ایک عرصہ سے اس کی تلاش میں ہوں کہ کوئی این جی او وراثت کے حوالے سے عورتوں کی مظلومیت کے خلاف آواز اٹھانے والی نظر آئے، لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ میں نے بہت سے حضرات سے اس کے بارے میں بات بھی کی، لیکن چند ماہ قبل ایک دانشور دوست نے یہ کہہ کر میری یہ امید ختم کر دی کہ بیرونی سرمایہ سے چلنے والی کوئی این جی او پاکستانی معاشرہ میں عورتوں کی وراثت کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو گی، اس لیے کہ وراثت کی بات جس فورم پر بھی ہو گی اس کے لیے قرآن کریم کا حوالہ سامنے آئے گا اور وراثت کے حصوں کے تعین کے لیے قرآن کریم کا حوالہ دینا پڑے گا، جو غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کے بنیادی اہداف سے متصادم ہے، کیونکہ وہ تو معاشرہ کا دینی تعلیمات سے تعلق منقطع کرنے کے اہداف پر کام کر رہی ہیں، وہ قرآن کریم کے حوالے سے کسی حق کی بات کیسے کر سکتی ہیں؟

بہرحال اس پس منظر میں آٹھ مارچ کو پاکستان میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا ہے اور مختلف طبقات نے اپنے اپنے انداز میں عورتوں کے حقوق کے لیے بات کی ہے، لیکن اپنے ذاتی تاثرات کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح مجھے اس بات میں مایوسی ہوئی ہے کہ انسانی حقوق یا عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف این جی اوز میں سے کوئی عورتوں کو وراثت میں حصہ دلانے کی مہم کو اپنے مقاصد میں شامل کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی، وہاں مایوسی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورتوں پر قبائلی روایات، علاقائی رسوم اور جاگیردارانہ نظام کی طرف سے ہونے والے جبر کے خلاف دینی حلقوں کا بھی کوئی قابلِ ذکر کام دکھائی نہیں دے رہا اور ہم نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ اب سے پون صدی قبل اس سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ اور دوسرے بزرگ جو کچھ کر گئے ہیں وہی ہماری پانچ سات پشتوں کے لیے کافی ہے اور ہمیں اس کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ادھر مغرب نے ”عورت کی آزادی“ کے عنوان سے جس سمت سفر شروع کر رکھا ہے، اس میں مزید پیشرفت کی ایک اہم خبر آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سامنے آئی ہے اور یوں لگتا ہے کہ مغرب اس آزادی کی آخری حدوں کو چھونے بلکہ پار کرنے کے لیے بہت بے تاب ہے۔ معاصر ”نوائے وقت لاہور“ نے آٹھ مارچ کو بی بی سی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ جرمنی میں دو حقیقی بہن بھائیوں تیس سالہ پیٹرک اور بائیس سالہ سوسن نے باہم شادی کر رکھی ہے، میاں بیوی کے طور پر اکٹھے رہتے ہوئے ان کے چار بچے ہو چکے ہیں اور اب انہوں نے جرمن عدالت سے رجوع کیا ہے کہ ان کی شادی کو قانونی طور پر تسلیم کرتے ہوئے ۱۸۷۱ء سے چلے آنے والے اس جرمن قانون کو ختم کیا جائے جس کے تحت بہن بھائی کی شادی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس جوڑے کا کہنا ہے کہ لوگ ان کے اس عمل کو جرم قرار دیتے ہیں، جبکہ ان کا خیال ہے کہ یہ کوئی جرم نہیں ہے، کیونکہ وہ بھی باقی لوگوں کی طرح آپس میں محبت کرتے ہیں اور میاں بیوی کے طور پر ایک خاندان کی صورت میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت میں اس جوڑے کا کیس لڑنے والے وکلاء کا موقف یہ ہے کہ اس سے قبل فرانس میں ایسا ہو چکا ہے، اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جرمنی میں بھی وہ اس مقدمہ میں کامیاب ہو جائیں گے اور چند ماہ تک اس کیس کا فیصلہ ان کے حق میں ہو جائے گا۔

ہمارے نزدیک یہ اس سال خواتین کے حقوق کے عالمی دن کی خصوصی خبر ہے، جو یہ ظاہر کر رہی ہے کہ مرد اور عورت کے ربط و تعلق کا فطری دائرہ توڑ کر اور خاندانی نظام کو آسمانی تعلیمات کی حدود و قیود سے لاتعلق کر کے جس مادر پدر آزاد معاشرہ کی بنیاد رکھی تھی، وہ آخر اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ بطور خاص ان مسلم دانشوروں اور حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو ہمارے معاشرتی اور خاندانی نظام کو مذہبی روایات اور حدود کے دائرہ سے نکالنے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔

یہ ”اباحت مطلقہ“ انسانی معاشرے کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے، تاریخ میں اس سے قبل بھی ایسے کئی مراحل کا تذکرہ ملتا ہے جب انسانی خواہشات نے اپنے راستہ میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کو برداشت نہ کرتے ہوئے آزادی کے نام پر تمام مذہبی اور اخلاقی اقدار کو پاؤں تلے روند ڈالا تھا اور ماں، بہن اور بیٹی تک کے رشتوں کے تقدس کو پامال کر کے شہوت پرستی کی انتہا کر دی تھی، لیکن حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے اباحیت مطلقہ اور ”فری سوسائٹی“ کے اس مکروہ تصور کو مسترد کرتے ہوئے آسمانی تعلیمات اور خدائی ہدایات کی طرف انسانی معاشرے کی واپسی کی راہ ہموار کی۔ آج بھی وہی صورتحال ہے، البتہ اتنا فرق ہے کہ اب اس اباحیت مطلقہ کا سامنا حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی بجائے ان کے پیروکاروں کو ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی پیروی کا دعویٰ رکھنے والی اقوام میں سے بھی صرف مسلمان اس مورچے پر پورے شعور اور عزم کے ساتھ کھڑے ہیں، جبکہ باقی آسمانی مذاہب اباحیت مطلقہ اور فری سوسائٹی کے اس فلسفہ و نظام کی بالادستی ذہناً قبول کر کے اس کے سامنے سپرانداز ہو چکے ہیں۔ ویسے بھی یہ جنگ مسلمانوں نے ہی لڑنی ہے کہ اس وقت روئے زمین پر آسمانی تعلیمات اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ارشادات و ہدایات کے حقیقی نمائندہ وہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ جنگ صحیح طور پر لڑنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

آج ایک بات ذاتی حوالہ سے بھی کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ میں نے ۱۹۶۴ء میں مضمون نویسی کا آغاز ”ہفت روزہ ترجمان اسلام“ لاہور سے کیا تھا اور تب سے بحمد اللہ تعالیٰ ہفت روزہ ترجمان اسلام، ہفت روزہ خدام الدین، ماہنامہ تبصرہ، روزنامہ وفاق، روزنامہ اوصاف، روزنامہ پاکستان، روزنامہ اسلام، ماہنامہ نصرۃ العلوم اور دیگر جرائد میں مسلسل لکھتا آ رہا ہوں۔ گزشتہ سال الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے احباب نے ان مضامین و مقالات کو جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اب تک وہ ایک ہزار کے لگ بھگ مضامین کو جمع کر چکے ہیں، جنہیں مختلف عنوانات کے حوالے سے کتابی شکل دی جا رہی ہے اور پہلے مرحلہ میں دو کتابیں اس وقت اشاعت کے آخری مراحل میں ہیں۔

  1. جاوید احمد غامدی صاحب کے حلقہ کے ساتھ چند اہم مسائل پر علمی و فکری مکالمہ اور
  2. حدود آرڈیننس اور تحفظ حقوق نسواں ایکٹ

اس کے علاوہ برادرم مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر ”خطباتِ راشدی“ کے عنوان سے میرے خطبات و تقاریر کی جمع و ترتیب کا کام کر رہے ہیں، جس کی پہلی جلد مرتب ہو کر طباعت کے مرحلہ میں ہے۔ ملک بھر کے احباب سے گزارش ہے کہ اس کارِخیر کی تکمیل میں الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، کنگنی والا گوجرانوالہ کے ساتھ تعاون فرمائیں اور جس دوست کے پاس میرا کوئی مضمون، تقریر یا بیان جس شکل میں بھی ہو، اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف کو مہیا فرمائیں، اس کے اخراجات اکادمی ادا کرے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter