امریکی وزیر خارجہ مسز میڈیلین البرائٹ نے گزشتہ دنوں پھر دھمکی دی ہے کہ عرب مجاہد اسامہ بن لادن بچ نہیں سکیں گے اور بالآخر امریکی ادارے ان تک پہنچنے اور انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اسامہ بن لادن کی زندگی باقی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس مردِ مجاہد کو گزند نہیں پہنچا سکتی، اور اگر ان کی شہادت امریکیوں کے ہاتھوں مقدر ہے تو وہ یہ رتبہ یقیناً پا لیں گے۔ اور یہ بھی ان کے لیے اعزاز ہو گا کہ اپنے وقت کی سب سے بڑی عسکری قوت اور سپر پاور سمجھا جانے والا ملک انہیں اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے اور انہیں راستہ سے ہٹانے کے لیے اپنے پورے وسائل بروئے کار لائے ہوئے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسامہ بن لادن کی گرفتاری یا شہادت سے امریکہ کا مقصد حل ہو جائے گا؟ اور کیا اس کے لیے خطرات میں کمی واقع ہو جائے گی؟ اس لیے کہ اسامہ بن لادن اب ایک شخص کا نام نہیں رہا، بلکہ کروڑوں مسلمانوں اور لاکھوں مجاہدین کی دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے۔ اور اس نے مسلم دنیا بالخصوص عرب نوجوانوں کے ذہنوں میں امریکہ کی اسلام دشمنی اور مسلم کشی کے جس تصور کو اجاگر کرنا تھا وہ ہو چکا ہے، اور وہ ان کے دلوں میں امریکی عزائم کے خلاف جو جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے وہ اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ اس لیے اب ایک اسامہ کو ختم کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ ہزاروں اسامہ امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ بننے کے لیے تیار ہیں، اور اس کا اندازہ اس عمومی رجحان سے لگایا جا سکتا ہے جو عرب و عجم میں اپنے بچوں اور اداروں کے نام اسامہ کے نام سے منسوب کرنے کے بارے میں دن بدن اضافہ پذیر ہے۔
ویسے اسامہ کے نام میں ہی برکت ہے۔ یہ نام ایک ایسے نوجوان کا تھا جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب نوجوان ہونے کا خطاب حاصل ہے اور جسے جناب حضورؐ نے اپنے وصال سے چند روز قبل صرف بیس یا اکیس برس کی عمر میں ایک بڑے لشکر کی کمان سونپی تھی، جو اس وقت کی ایک بڑی طاقت اور استعماری قوت رومن ایمپائر کے خلاف محاذ آرائی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ یہ اسامہ بن زیدؓ تھے جنہوں نے اس وقت کے امریکہ یعنی رومن ایمپائر کے خلاف مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کی قیادت کی اور اسے میدانِ جنگ میں شکست سے دوچار کیا۔
مگر تاریخ ہمیں ایک اور اسامہ کے نام اور کارناموں سے بھی متعارف کراتی ہے جس کا تعلق چھٹی صدی ہجری سے ہے اور جس نے بیت المقدس پر صلیبیوں کے تسلط کے خلاف مسلسل جنگ لڑی اور بالآخر اپنی زندگی میں بیت المقدس کو آزاد ہوتے دیکھ لیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے دائرہ معارف اسلامی میں اس کا تعارف ’’اسامہ بن مرشد‘‘ کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔
اسامہ بن مرشد شام کے شہر حلب کے قریب شیزر نامی بستی کے سردار مجد الدین ابو سلامہ مرشد کے ہاں ۴۸۸ھ میں پیدا ہوئے۔ مشہور عرب خاندان بنو کنانہ سے تعلق تھا، علم و ادب اور عسکری قیادت میں نام پیدا کیا۔ ان کی ولادت سے چار سال قبل بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ ہو چکا تھا، اور انہوں نے پندرہ برس کی عمر میں شیزر پر حملہ کرنے والے مسیحی کمانڈر ٹینکرڈ کی فوجوں کا مقابلہ کیا اور اس کے بعد موصل میں سلطان تابک زنگی کی فوج میں نو سال رہ کر جہادی خدمات سرانجام دیں۔ ۵۳۱ھ میں باپ کی وفات کے بعد چچا عضد الدولہ نے شیزر کی حکمرانی سنبھالی تو بھتیجے نے اپنی حربی شہرت اور مہارت سے چچا کو خوفزدہ پا کر شیزر چھوڑ دیا اور دمشق میں ٹھکانہ بنا لیا۔ اور پھر اس کے بعد قاہرہ منتقل ہو گیا جہاں دس سال تک مسلسل صلیبی فوجوں کے خلاف مجاہدین کے لشکر کی کمان کی۔ اب دمشق پر سلطان نور الدین زنگی کی حکمرانی تھی اور اسامہ بن مرشد ان کے قابلِ اعتماد رفیق اور کمانڈر کے طور پر فرنگیوں کے خلاف صف آرا تھے۔
درمیان میں کچھ دیر کے لیے کنارہ کش بھی رہے اور فرنگیوں کے ساتھ کچھ عرصہ ان کی مصالحت کی روایات بھی ملتی ہیں، مگر سلطان نور الدین زنگیؒ کے بعد ان کے جانشین سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کی آزادی کے لیے ازسرنو معرکہ آرائی کا محاذ گرم کیا تو اسامہ بن مرشد پھر کنارہ کشی چھوڑ کر دمشق آ گئے اور سلطان ایوبی کے رفقاء میں شامل ہو گئے۔ اور بالآخر ان مسلسل معرکہ آرائیوں کے بعد اسامہ بن مرشد نے اپنی وفات ۵۸۴ء سے ایک سال قبل بیت المقدس کو صلیبیوں کے تسلط سے آزاد ہوتے دیکھ لیا، مگر اس وقت وہ خود بوڑھے ہو چکے تھے اور ان کے فرزند عضد الدولہ مرہف بن اسامہ کو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے انیس و ندیم کا مقام حاصل تھا۔
اسامہ بن مرشد صرف ایک جنگجو اور کمانڈر ہی نہیں بلکہ علم دوست اور ادیب بھی تھے۔ ان کی متعدد تصانیف کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے جن کا تعلق ادب و شعر اور عرب روایات سے ہے۔ ان میں کتاب ’’الاعتبار‘‘ خاص طور پر مشہور ہے جس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ جبکہ ایک تصنیف ’’کتاب العصاء‘‘ کے نام سے ہے جس میں تاریخ میں شہرت پانے والے عصاؤں کا ذکر کیا گیا ہے، حتیٰ کہ دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے اسامہ بن مرشد کی بارہ تصانیف کا تذکرہ کیا ہے جن میں سے بعض مخطوطات کی شکل میں بڑی لائبریریوں میں موجود ہیں۔
الغرض یہ چھٹی صدی ہجری کے اسامہ تھے جنہیں بیت المقدس پر صلیبیوں کے تسلط کے خلاف جنگ لڑنا پڑی۔ اور اب اسامہ بن لادن ہیں جو بیت المقدس پر صہیونی تسلط کے خلاف نبردآزما ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمت و عافیت کے ساتھ اس وقت تک زندہ رکھیں کہ اسامہ بن مرشد کی طرح وہ بھی بیت المقدس کو اپنی آنکھوں کے سامنے آزاد ہوتا دیکھ لیں، آمین یا رب العالمین۔