بحمد اللہ تعالٰی حرمین شریفین کی حاضری اور رابطہ عالم اسلامی کے عالمی موتمر میں شرکت کے بعد وطن واپس آگیا ہوں۔ رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں ۲۲ تا ۲۴ رمضان المبارک عالمی موتمر کا انعقاد کیا جس کا عنوان ’’الوسطیہ والاعتدال فی نصوص الکتاب والسنہ‘‘ تھا۔ خادم الحرمین الشریفین الملک سلیمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ تعالٰی کے خصوصی پیغام سے کانفرنس کا آغاز ہوا اور مسلسل تین روز جاری رہنے کے بعد ’’وثیقہ مکہ مکرمہ‘‘ کے اعلان پر موتمر اختتام پذیر ہوا۔ دو سو کے لگ بھگ ممالک سے بارہ سو کے قریب سرکردہ علماء کرام کانفرنس میں شریک تھے اور علم و دانش کے مراکز کی بھرپور نمائندگی تھی، اس حوالہ سے اسے ملت اسلامیہ کا نمائندہ علمی و فکری عالمی اجتماع کہا جا سکتا ہے جس کے اہتمام اور کامیابی پر رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی اور ان کے رفقاء تبریک اور تشکر کے مستحق ہیں۔
پاکستان سے کانفرنس میں شریک ہونے والے علماء کرام میں مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا عبد الغفور حیدری، مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا شاہ اویس نورانی، مولانا عبد الغفار روپڑی، مولانا حافظ عبد الکریم، مولانا انوار الحق حقانی، مولانا حامد الحق حقانی، سردار عتیق احمد خان، مولانا محمد نعیم بٹ، مولانا قاری میاں تھانوی، مولانا مفتی محمد زاہد، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا قاضی نثار احمد گلگتی، صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، حافظ طاہر محمود اشرفی اور مولانا راشد محمود سومرو بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جبکہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلٰی مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے کانفرنس سے وقیع خطاب کر کے پاکستان کے علماء کرام اور دینی راہنماؤں کی نمائندگی کی۔
مجھے پہلی بار رابطہ عالم اسلامی کی کسی کانفرنس میں باقاعدہ شرکت کا موقع ملا اور اس کی برکت سے حرمین شریفین کی حاضری، عمرہ کی ادائیگی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری کی سعادت سے ایک بار پھر بہرہ ور ہوا، فالحمد للہ علٰی ذٰلک۔ البتہ رابطہ کے ساتھ غیر رسمی تعلق ایک عرصہ سے ہے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے ممتاز عرب علماء کرام سے قادیانیوں کے خلاف فتاوٰی حاصل کرنے کی مہم کے ساتھ ساتھ رابطہ عالم اسلامی سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے موقف کی عالمی سطح پر اجتماعی حمایت حاصل کرنے کا مورچہ سنبھال رکھا تھا۔ جس میں مولانا چنیوٹیؒ کامیاب ہوئے اور رابطہ کی متفقہ قرارداد نے تحریک ختم نبوت کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ایک رفیق کار کے طور پر اس سارے عمل کی ترتیب و تشکیل میں بحمد اللہ تعالٰی میرا حصہ بھی رہا ہے۔
جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمودؒ نے ان کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کیا اور ان دونوں کے درمیان خلیج بڑھنے لگی تو رابطہ عالم اسلامی کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل الشیخ محمد علی الحرکانؒ نے اس خلیج کو کم کرنے کے لیے بہت محنت کی، جبکہ مولانا مفتی محمودؒ کے رفیق کار کے طور پر مجھے بھی اس میں کچھ نہ کچھ حصہ لینے کا موقع ملتا رہا۔
اس کے بعد رابطہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ عمر النصیف کا دور تو پاکستان کے حوالہ سے بہت متحرک دور رہا، ان دنوں میں شریعت بل کی تحریک کا ایک اہم کردار تھا، ڈاکٹر صاحب موصوف سے پاکستان اور سعودی عرب میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور مختلف اجتماعات میں شرکت ہوئی۔ ان میں سے ایک ملاقات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ غالباً ۱۹۸۸ء کی بات ہے کہ مجھے امریکہ کے ایک بڑے شہر شکاگو میں ’’شریعت بل‘‘ کے حوالے سے مسلم کمیونٹی سنٹر کے ایک اجتماع میں شرکت کا موقع ملا، اس موقع پر شکاگو کے متعدد دوستوں نے شکوہ کیا کہ کچھ روز قبل وہاں رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام وحدت امت کے حوالہ سے ایک اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں امام حرم فضیلۃ الشیخ الحذیفی حفظہ اللہ تعالٰی مہمان خصوصی تھے جبکہ ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے سربراہ لوئیس فرخان بھی اس میں شریک تھے جو امریکی مدعی نبوت آلیج محمد کے جانشین ہیں اور منکرین ختم نبوت کے ایک بڑے گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ میں نے واپسی پر عمرہ کی ترتیب بنا لی اور مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے ساتھ مل کر محترم ڈاکٹر عبد اللہ عمر النصیف سے ملاقات کر کے شکاگو کے مسلمانوں کا یہ شکوہ انہیں ایک تحریری یادداشت کی صورت میں پیش کیا، انہوں نے ہمارے موقف سے اتفاق کیا۔ اس کے بعد اس قسم کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی بلکہ دیگر دینی معاملات کی طرح رابطہ عالم اسلامی تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر بھی جدوجہد کرنے والوں کی مسلسل سرپرستی کر رہا ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کا دائرہ کار دنیا بھر میں دینی معاملات کے حوالہ سے مسلمانوں کی راہنمائی کرنا اور کسی بھی حوالہ سے مظلومیت کا شکار ہونے والے مسلمانوں کی مدد کے ساتھ ساتھ دینی و علمی مراکز کی حوصلہ افزائی اور تعاون کا چلا آرہا ہے۔ اور ان شعبوں میں رابطہ کی خدمات کا خاصہ خاصا وسیع ہے، بالخصوص مختلف مکاتب فکر اور متنوع حلقوں اور طبقات کے مسلم راہنماؤں کو ایک فورم پر جمع کرنا رابطہ کی جدوجہد کا نمایاں حصہ ہے۔ میں گزارش کیا کرتا ہوں کہ اس وقت دنیا بھر کے مسلمان سیاسی اور فکری مرکزیت سے محروم ہیں اور عالمی سطح پر کوئی ایسا مؤثر ادارہ موجود نہیں ہے جو ان کی قیادت، راہنمائی، یا کم از کم نمائندگی ہی کر سکے۔ خلا کے اس دور میں سرکاری سطح پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور نیم سرکاری سطح پر رابطہ عالم اسلامی کا وجود بسا غنیمت ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ رابطہ عالم اسلامی کچھ نہ کچھ کرتا بھی رہتا ہے۔
کانفرنس کے بارے میں مشاہدات و تاثرات کو مرتب کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ ’’وثیقہ مکہ مکرمہ‘‘ کے عمومی اعلان کا انتظار ہے اور کچھ معروضات میں نے بھی رابطہ کے سیکرٹریٹ کو تحریری طور پر پیش کی ہیں، یہ سب کچھ قارئین آئندہ چند کالموں میں ان شاء اللہ تعالٰی ملاحظہ فرمائیں گے۔ البتہ موتمر کی انتظامیہ کی طرف سے شرکاء کے تاثرات کے لیے جو رجسٹر وہاں رکھا گیا تھا اس میں درج ذیل گزارشات میں نے تحریر کی ہیں۔
’’وسطیت اور اعتدال انسانی سوسائٹی کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے، جبکہ ملت اسلامیہ کی تو اساس ہی اس پر ہے۔ موجودہ عالمی حالات میں فکری اور تہذیبی کشمکش کا دائرہ جس طرح پھیلتا جا رہا ہے اور تشدد اور انتہاپسندی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اسلام اور ملت اسلامیہ کے اس امتیاز کو حوصلہ، تدبر اور حکمت کے ساتھ اجاگر کرنے کے لیے رابطہ عالم اسلامی کی کوششیں لائق ستائش ہیں اور یہ عالمی موتمر اس سلسلہ میں سنگ میل کا کردار ادا کرے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔‘‘