(شیخ الحدیث مولانا ارشاد احمد کی زیر صدارت اساتذہ کی نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھے آج کی اس نشست میں ’’نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا کردار‘‘ کے عنوان پر کچھ گزارشات پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے، اس کے بارے میں چند معروضات پیش کرنا چاہوں گا۔
(۱) پہلی بات یہ کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی اولین ذمہ داری ماں باپ اور گھر کے ماحول کی ہے، جیسا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، ماں باپ اسے یہودی بناتے ہیں، عیسائی بناتے ہیں، یا مجوسی بناتے ہیں۔ یعنی بچے کو جیسا گھر کا ماحول ملے گا وہ اس کے مطابق ڈھل جائے۔
میں اس کی مثال یوں دیا کرتا ہوں کہ ایک خالی سی ڈی گھر والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے، وہ اس میں جو پروگرام چاہیں فیڈ کر دیں۔ مثلاً بچہ جب بولنا شروع کرتا ہے تو اسے اگر گھر میں اللہ تعالیٰ کا نام کثرت سے سننے کو ملتا ہے تو اس کی زبان پر پہلا لفظ ’’اللہ‘‘ کا آئے گا۔ لیکن اس کے اردگرد گالیوں کا تذکرہ عام ہو گا تو وہ سب سے پہلے منہ سے گالی نکالے گا۔ اور ہمارے ہاں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ معصوم بچہ توتلی زبان سے گالی کا لفظ بولتا ہے تو ماں باپ خوش ہوتے ہیں کہ آج ہمارے بچے نے گالی دی ہے۔ بچہ پہلے ماں باپ سے سیکھتا ہے، پھر مکتب اور سکول میں اسے تعلیم ملتی ہے، اس کے بعد وہ سوسائٹی کے عمومی ماحول میں آتا ہے، اور اس کے کمپیوٹر میں مختلف پروگرام فیڈ ہوتے چلے جاتے ہیں جو اس کے عقیدہ، عمل، کردار، اخلاق اور نفسیات کی تشکیل کی بنیاد بنتے ہیں۔
اس حوالہ سے ایک بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں یہ حقیقت ہر وقت ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ بچہ خود کچھ نہیں کرتا بلکہ جو کچھ ہوتے دیکھتا ہے اس کو کاپی کرتا ہے۔ ماں باپ کی نقل بھی کرتا ہے اور استاذ کی کاپی بھی کرتا ہے۔ آپ باپ کی حیثیت سے، بڑے بھائی کے طور پر، یا استاذ کی صورت میں اس کے سامنے جو کچھ کریں گے یا کہیں گے وہ وہی کچھ کرے گا اور کہے گا۔ اس لیے ماں باپ کے بعد سکول و مکتب کے استاذ کو بھی نئی نسل کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے خود کو اس کا نمونہ بنانا پڑے گا۔
(۲) دوسری بات یہ گزارش کروں گا کہ ہمیں ایک واقعاتی تبدیلی کو محسوس کرنا چاہیے کہ آج کے بچوں کی ذہنی سطح دس بیس سال قبل کے بچوں کی ذہنی سطح سے مختلف ہے۔ بیس تیس برس قبل چھ سات سال کا بچہ ان باتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتا جن باتوں پر آج کا اس عمر کا بچہ ہمارے ساتھ بحث کرتا ہے اور سوال و جواب کرتا ہے۔ نئی پود کی ذہنی سطح بلند ہو چکی ہے اور وہ صرف حوالے کی بات نہیں سنتا کہ یہ بات فلاں بزرگ نے کہی ہے، وہ اس کے ساتھ بات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اور سمجھ میں نہ آئے تو سوال بھی کرتا ہے۔ حوالہ بہت ضروری ہے، ہماری بنیاد ہی حوالہ پر ہے، ہمیں دین کی بات حوالہ کے ساتھ ہی کرنی چاہیے، لیکن آج کے بچے کے لیے صرف حوالہ کافی نہیں ہے، اسے اس کے ساتھ لاجک بھی چاہیے ورنہ وہ کسی بات کو ظاہراً مان بھی لے تو اس کا ذہن اسے قبول نہیں کرے گا جس سے وہ کنفیوژن کا شکار ہو جائے گا۔
ہم نئی پود کی ذہنی سطح میں اس مسلسل تبدیلی کو نظر انداز کر رہے ہیں جس سے تعلیم و تربیت کے دائرے میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور مشکلات جنم لے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر میں اپنے گھر کے ہی دو چھوٹے چھوٹے واقعات کا ذکر کروں گا کہ نئی پود کی ذہنی سطح اور عقلی دائرہ کِن تبدیلیوں اور تغیرات سے دوچار ہے۔
میرا چھوٹا پوتا ابدال خان پانچ سال کا ہے، ایک روز میں اپنے کمرے میں نماز پڑھ رہا تھا، وہ پاس ہی کھیل رہا تھا اور شور مچا رہا تھا، اس کے بڑے بھائی نے اسے کہا کہ ابدال! دادا ابو نماز پڑھ رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اس نے جواب دیا کہ میرا وضو نہیں ہے۔ بڑے بھائی نے کہا کہ بچوں کا وضو ہر وقت ہوتا ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ وضو کیا ہو تو ہوتا ہے نا؟ میں نے بہت مشکل سے اپنی نماز کو کنٹرول کیا اور اپنی حیرت پر قابو پانا میرے لیے مشکل ہو گیا۔
دوسرا واقعہ بھی میرے گھر کا ہی ہے، چند ماہ قبل جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے سالانہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے میں نے مشرق وسطیٰ کے حوالہ سے کچھ باتیں قدرے غصے میں سخت لہجہ میں کہدیں۔ بعد میں میرا چھوٹا بھانجا حافظ محمد عمر فاروق اپنے چار سالہ بچے کو اٹھائے ہوئے آگیا، میں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس نے بے ساختہ یہ سوال داغ دیا کہ ’’آپ کو غصہ کیوں آیا ہوا تھا؟‘‘ سچی بات ہے میرا دماغ گھوم گیا کہ یہ چار سالہ بچہ بھی یہ محسوس کر رہا ہے کہ میں نے اپنی تقریر میں کچھ باتیں غصہ میں کہی ہیں۔
میں نے چھوٹی سی مثال دی ہے یہ بات عرض کرنے کے لیے کہ آج کی نئی پود کی ذہنی سطح وہ نہیں ہے جو اس عمر میں ہماری ہوا کرتی تھی، بلکہ وہ اس سے بہت مختلف بلکہ بلند ہو چکی ہے۔ اور ہمیں اسے تعلیم دیتے ہوئے اور اس کی تربیت کرتے ہوئے اس تبدیلی کو سامنے رکھنا ہوگا۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ’’کلموا الناس علی قدر عقولہم‘‘ لوگوں سے ان کی عقل و فہم کے مطابق بات کرو۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا بھی یہ ارشاد ہے کہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے دائرے میں بات کیا کرو ورنہ تمہاری بات دین کی کسی بات کے انکار کا سبب بن سکتی ہے۔
میری گزارش یہ ہے کہ اسی اصول کو صرف بڑوں میں نہیں بلکہ بچوں کے لیے بھی ملحوظ رکھنا ہوگا کہ ہم انہیں پڑھاتے اور سکھاتے ہوئے ان کی ذہنی سطح اور عقلی دائرے کا لحاظ رکھیں تاکہ وہ بات کو صحیح طور پر سمجھ سکیں۔
(۳) اس موضوع کے حوالہ سے ایک اور بات میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ سکول اور مکتب کے دائرے سے نکل کر جو بچے لڑکپن کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں وہ بھی ایک بڑی تبدیلی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ نوعمر لڑکا ہو یا نوجوان ہو، جس کی رسائی نیٹ تک ہے اور جو موبائیل کی جدید تکنیک کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کے پاس نہ صرف دنیا بلکہ دین کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے کے ذرائع موجود رہتے ہیں۔ یہ معلومات صحیح ہوں یا غلط اس سے بحث نہیں، لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ خالی الذہن نہیں ہوتا۔ اور جب ہم سے کسی مسئلہ پر گفتگو کرتا ہے یا سوال کرتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلے سے صحیح یا غلط کچھ نہ کچھ معلومات ضرور موجود ہوتی ہیں۔ جبکہ ہم اسے خالی الذہن سمجھ کر جواب دیتے ہیں جس سے اس کا ذہن الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور بسا اوقات ہمارے بارے میں یہ بے اعتمادی بھی اس کے ذہن سے چمٹ جاتی ہے کہ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ آج کا سب سے بڑا فتنہ ہے کہ نوجوان اپنے ذہن میں الٹی سیدھی معلومات سمیٹے علماء کرام کے پاس آتے ہیں اور کسی دینی مسئلہ پر بات کرنا چاہتے ہیں یا سوال کرتے ہیں تو ہم خالی الذہن ہوتے ہیں یا تو اسے ڈانٹ دیتے ہیں، اور اگر کوئی جواب دیتے بھی ہیں تو وہ ادھورا ہوتا ہے جس سے اس کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید الجھ کر رہ جاتا ہے۔
اس کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ نئی پود کی تعلیم و تربیت میں ہمارے اہداف کیا ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ ہم اسے تعلیم و تربیت کے ذریعہ جو کچھ بنانا چاہتے ہیں اس کا کوئی نہ کوئی نقشہ ہمارے سامنے ضرور ہونا چاہیے اور اس کا ہدف طے ہونا چاہیے تاکہ پہلے دن سے ہی اس کی تعلیم و تربیت کا رخ واضح ہو۔
میری گزارش یہ ہے کہ ہمارے موجودہ ماحول میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں تین اہداف ہمارے سامنے رہنے چاہئیں:
(۱) ایک یہ کہ وہ ایک اچھا انسان بنے، انسانی اخلاق سے بہرہ ور ہو، اور سوسائٹی میں ایک اچھے انسان کے طور پر زندگی بسر کر سکے۔
(۲) دوسرا ہدف یہ کہ وہ ایک بہتر مسلمان بنے، عقائد، فرائض و واجبات، حلال و حرام اور چھوٹے بڑے کے فرق کے تقاضوں سے روشناس ہو، اور اسلامی عقائد و احکام، روایات و اقدار اور تاریخ سے ضروری واقفیت رکھتا ہو، تاکہ وہ ایک اچھے مسلمان کے طور پر زندگی گزارے اور سوسائٹی کے لیے مفید کردار بنے۔
(۳) تیسری بات یہ کہ وہ ایک اچھا پاکستانی ہو۔ پاکستان ہمارا وطن ہے، اس کی سالمیت و استحکام، امن و سکون، ترقی و خوشحالی اور امن و امان ہماری قومی و دینی ضرورت ہے۔ وطن عزیز کی سالمیت کے تقاضے کیا ہیں؟ اس کے ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کی ضروریات کیا ہیں؟ اور قرآن و سنت کی روشنی میں ہمارے معاشرے کو زیادہ سے زیادہ بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ نئی نسل کو اس کی تعلیم دینا ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اپنے تعلیمی و تربیتی نصاب و نظام میں ان باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نئی پود کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے اپنا کردار بہتر طور پر ادا کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔