معراج النبیؐ کی حکمت

   
۱۹ فروری ۲۰۲۳ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں ایک بڑا معجزہ معراج اور اسراء کا ہے کہ اللہ رب العزت نے جناب نبی کریمؐ کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، آسمان اور عرش کی سیر کرائی، اور جنت اور دوزخ دکھائی۔ یہ نبی کریمؐ کا معجزہ ہے۔

معجزہ اسے کہتے ہیں جو اسباب کے تحت ممکن نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے وہ کام کر دیں۔ وہ ما فوق الاسباب واقعہ کسی پیغمبر کے لیے ہو تو معجزہ کہلاتا ہے، اور پیغمبر کے علاوہ کسی نیک آدمی کے اظہار کے لیے ہو تو کرامت کہلاتی ہے۔ جو کام اسباب کے تحت ہو وہ معجزہ یا کرامت نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینکڑوں معجزات میں سے ایک بڑا معجزہ معراج کا ہے جس کی تفصیلات آپؐ نے بہت سی احادیث میں ارشاد فرمائی ہیں، جو صحابہ کرامؓ نے روایت کی ہیں۔ ان میں سے دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات یہ کہ ہمارا ایمان ہے کہ معراج کا معجزہ ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جسم مبارک کے ساتھ معراج کرائی گئی۔ یعنی یہ خیالی معجزہ نہیں ہے بلکہ جسمانی معجزہ ہے۔ مسجد اقصیٰ، ساتوں آسمان، جنت اور عرش کی سیر آپؐ کے جسم مبارک کے ساتھ ہوئی۔ اور یہ خواب بھی نہیں ہے بلکہ آپؐ بیداری کی حالت میں گئے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔ عام محاورہ بھی ہے کہ ’’فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ‘‘ دانا آدمی کا کام حکمت کے بغیر نہیں ہوتا، اور اللہ تعالی تو دانائے مطلق ہیں تو اللہ تعالی کا کوئی کام حکمت کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟ معراج شریف کی حکمتوں میں مفسرین کرامؒ نے بہت سی باتیں نقل فرمائی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نسلِ انسانی کو پیدا کرنے سے پہلے انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی ارواحِ مقدسہ کے ساتھ ایک میثاق کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں یوں ہے:

واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لمآ اٰتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جآءکم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ، قال ااقررتم واخذتم علیٰ ذٰلکم اصری، قالوا اقررنا قال فاشہدوا وانا معکم من الشاہدین۔ (آل عمران ۸۱)

اللہ رب العزت نے انبیائے کرام علیہم السلام سے میثاق، معاہدہ اور وعدہ لیا کہ تم میں سے ہر ایک کو وحی، کتاب اور حکمت دوں گا۔ تم سب کے بعد ایک رسول آئے گا جو تمہاری تعلیمات کی تصدیق کرنے والا ہوگا۔ جب وہ پیغمبر آئے گا تو ’’لتومنن بہ ولتنصرنہ‘‘ تم سب اس پر ایمان بھی لاؤ گے اور اس کی مدد بھی کرو گے۔ تمام انبیاء کرامؑ نے اس کا اقرار کیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’فاشہدوا و انا معکم من الشاہدین‘‘ تم بھی گواہ ہو جاؤ اور میں بھی گواہ ہوں۔ یہ اس وعدے کی تفصیل ہے جو اللہ رب العزت کا اور انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کا ہوا۔ یہ میثاق ہو گیا اور اس کے بعد انبیائے کرام اپنے اپنے وقت پر آ کر چلے گئے۔ حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے آخر میں آئے تو وہ وعدے کہاں پورے ہوئے؟ وعدہ انہوں نے کیا تھا جو پہلے آکر چلے گئے، اور جن کے بارے میں کیا تھا وہ سب سے بعد میں آئے۔ تو یہ دونوں وعدے کہاں پورے ہوئے؟ ایک یہ کہ تم سب انبیاء اس پیغمبر پر ایمان لاؤ گے تو انبیائے کرام حضور نبی کریمؐ پر کب ایمان لائے؟ اور دوسرا وعدہ تھا کہ تم سب اس کی مدد کرو گے۔

اس سلسلے میں مفسرین کرام نے لکھا ہے بالخصوص حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ نے مشکلات القرآن میں اس کی وضاحت کی ہے کہ ’’لتؤمنن بہ‘ ‘کے وعدے کی تکمیل کے لیے اللہ رب العزت نے معراج کی رات تمام سابقہ انبیائے کرام کو مسجد اقصیٰ میں اکٹھا کیا جہاں سارے پیغمبروں نے حضور نبی کریمؐ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب انبیاء کرامؑ نے آنحضرتؐ کی اقتدا میں نماز کی نیت باندھی تو ان کا آپؐ پر ایمان ہوگیا۔ یہ اس وعدے کی تکمیل تھی، یوں ایمان والا وعدہ معراج کی رات پورا ہو گیا۔ دوسرا مدد والا معاہدہ کہاں پورا ہوا؟ بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انبیاء کرام علیہم الصلوات و التسلیمات کے اس وعدے کی تکمیل کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ رکھا ہوا ہے۔ آپؑ قیامت کے قریب زمین پر آئیں گے اور امت کو دوبارہ غلبہ دلوائیں گے، یوں جناب نبی کریمؐ کی مدد کے وعدے کی تکمیل کریں گے۔ حضرت عیسٰیؑ کی حیات اور زندہ رہنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسٰیؑ کی وفات ہوگی اور مدینہ منورہ میں جناب نبی کریمؐ کے روضہ اطہر میں ان کی تدفین ہوگی۔ الغرض معراج کی حکمتوں میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے انبیاء کرامؑ کے اس وعدے کی تکمیل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کروایا۔

دوسری بات یہ کہ معراج میں اللہ رب العزت نے نبی کریمؐ کو اتنا کچھ دیا کہ جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مگر معراج میں ہمیں کیا دیا؟ ’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘ ہمیں ہماری معراج دے دی۔ نبی کریمؐ کی معراج وہ تھی، جبکہ ہماری معراج نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازوں کا تحفہ عطا کیا کہ تم دن میں پانچ وقت نماز پڑھو، تمہاری معراج ہو جائے گی۔ حضورؐ نے معراج میں عرش اور سدرۃ المنتہیٰ پر جا کر براہ راست اللہ رب العزت سے کلام کیا تھا تو امت کے لیے آپؐ نے فرما دیا ’’المصلی یناجی ربہ‘‘ نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرش پر جا کر اللہ تعالیٰ سے باتیں کیں اور ہم فرش پر اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں اس سے باتیں کرتے ہیں۔ نمازی نماز میں اللہ رب العزت سے سرگوشیاں اور راز و نیاز کرتا ہے۔ اگر ہم اسے نہ سمجھ سکیں تو ہمارا اپنا قصور ہے، ورنہ نماز تو براہ راست اللہ رب العزت سے ہم کلام ہونے اور اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے کا نام ہے۔ معراج النبیؐ کا ہمارے لیے سب سے بڑا تحفہ نماز ہے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت اختیار کی کہ پہلے پچاس نمازیں فرض کیں، پھر آہستہ آہستہ کر کے پانچ کر دیں۔ جب نمازیں کم ہوتے ہوتے پانچ پر آگئیں تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ حضرت! ایک چکر اور لگا لیں، آپ کی امت پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھے گی۔ نبی کریمؐ نے فرمایا، اب مجھے شرم آتی ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا، ٹھیک ہے پڑھو گے پانچ لیکن ثواب پچاس کا ہی ملے گا۔ ’’ما یبدل القول لدی وما انا بظلام للعبید‘‘۔

معراج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات و التسلیمات کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ حضورؐ کی تین ملاقاتیں ہوئیں جو روایات میں مذکور ہیں۔ ایک ملاقات زمین پر مسجد اقصٰی میں ہوئی، دوسری ملاقات چھٹے آسمان پر ہوئی، اور تیسری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جنت میں ہوئی۔ اس ملاقات کا ذکر ترمذی شریف کی روایت میں ہے۔ جب نبی کریمؐ رخصت ہونے لگے تو حضرت ابراہیمؑ نے دو پیغام دیے۔ پہلا یہ کہ اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہنا۔ اور دوسرا یہ کہ اپنی امت کو میری طرف سے یہ پیغام دے دینا ’’ان الجنۃ ارضھا طیب وماءھا عذب ‘‘ جنت کی زمین بہت اچھی ہے اور پانی بہت میٹھا ہے۔

ہم کسی جگہ بستی بسانے لگتے ہیں یا کالونی بنانے لگتے ہیں تو چیک کرتے ہیں کہ یہاں کی زمین کیسی ہے اور پانی کیسا ہے؟ آج کل ہمارے سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم چاند پر یہ دیکھنے گئے تھے کہ چاند رہنے کے قابل ہے یا نہیں۔ چاند کی مٹی کیسی ہے؟ کیا وہاں آکسیجن ہے؟ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ اب مریخ وغیرہ پر کمندیں ڈال رہے ہیں۔ ہماری سائنٹیفک اپروچ یہ ہے کہ ممکن ہے یہ زمین زیادہ دیر نہیں رہے، اس لیے کوئی متبادل تلاش کر لیں۔ متبادل دیگر سیاروں تک رسائی حاصل کر رہے ہیں کہ وہاں کی آب و ہوا اور زمین کیسی ہے؟ رہنے کے قابل ہے یا نہیں؟ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کہ متبادل جگہ جنت ہے، جہاں کی زمین بھی بہت اچھی ہے اور پانی بھی بہت میٹھا ہے۔ پھر فرمایا ’’ولکنھا قیعان‘‘ لیکن جنت چٹیل میدان ہے۔ جنت میں خالی پلاٹ ملے گا جسے خود آباد کرنا ہے۔ سبزہ، درخت اور آبادکاری خود کرنی ہے۔ اور پھر آبادکاری کا فارمولا بھی حضرت ابراہیمؑ نے بتا دیا ’’غرسھا لا الٰہ الا اللہ و سبحان اللہ و الحمد للہ و اللہ اکبر‘‘ جنت کی شجر کاری کیسے ہوگی اور اس پلاٹ میں سبزہ کیسے اُگے گا؟ فرمایا کہ تم زمین پر جتنا اللہ کا ذکر کرو گے وہاں جنت میں سبزہ ہوگا اور درخت لگیں گے۔ جنت کے پلاٹ میں درخت اور سبزہ اگانے کا کوڈ ’’لا الٰہ الا اللہ و سبحان اللہ و الحمد للہ و اللہ اکبر‘‘ ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ تم سبحان اللہ کہو تو جنت میں ایک درخت لگتا ہے۔ الغرض جنت کی آبادی یہاں سے کر کے جانی ہے وہاں آباد اور شجرکاری کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔

ایک روایت میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان قبر میں جاتا ہے تو اس کو جنت اور دوزخ دونوں کے ٹھکانے دکھائے جاتے ہیں۔ نیک شخص کو دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر کہا جاتا ہے کہ اگر تم صحیح کام نہ کرتے تو یہ تمہارا ٹھکانہ ہوتا، تم نے اچھے کام کیے ہیں اس لیے وہ پلاٹ کینسل ہے اور یہ جنت کا پلاٹ بحال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے دو پلاٹ ایک جنت کا اور ایک جہنم کا ریزرو رکھے ہوئے ہیں، کونسا پلاٹ کینسل کروانا ہے اور کونسا بحال رکھنا ہے یہ انسان کے ایمان اور اعمال کی کیفیت پر منحصر ہے۔

جنت کے پلاٹ کا سائز کیا ہو گا؟ جنت کا پلاٹ جنت کے حساب سے ہی ہوگا۔ اس پر مسلم شریف کی ایک روایت عرض کرتا ہوں۔ تفصیلی روایت ہے جس میں ہے کہ سب سے آخری جنتی آدمی جو مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آخر میں جنت میں جائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے فرمائیں گے کہ جنت میں اپنی جگہ تلاش کر لو تمہاری جگہ رکھی ہوئی ہے۔ وہ گھوم پھر کر تلاش کرے گا لیکن اسے کوئی جگہ خالی نظر نہیں آئے گی۔ عرض کرے گا کہ مجھے تو کوئی خالی جگہ نہیں ملی، ساری جگہیں پُر ہیں۔ اللہ تعالی فرمائیں گے کہ جاؤ تلاش کرو تمہارے لیے جگہ رکھی ہوئی ہے۔ وہ پھر تلاش کر کے عرض کرے گا یا اللہ! مجھے تو کوئی جگہ خالی نہیں مل رہی۔ اللہ تعالیٰ اسے تیسری دفعہ پھر بھیجیں گے کہ جاؤ اپنی جگہ تلاش کرو۔ وہ جائے گا تلاش کرے گا لیکن اسے کوئی جگہ خالی نہیں ملے گی۔ عرض کرے گا کہ یا اللہ! مجھے تو کوئی خالی جگہ نہیں مل رہی۔ اس پر اللہ تعالٰی فرمائیں گے کہ اچھا بتاؤ جنت میں کتنا پلاٹ چاہیے؟ جس زمین پر رہ کر آئے ہو اس زمین جتنا پلاٹ دے دوں؟ وہ آدمی کہے گا ’’اتستھزء بی وانت رب العالمین‘‘ آپ رب العالمین ہو کر میرا مذاق اڑا رہے ہیں؟ مجھے پلاٹ نہیں مل رہا اور آپ مجھے پوری زمین دے رہے ہیں۔ روایت میں ہے ’’یضحک اللہ ‘‘اللہ تعالیٰ اس کی بات سن کر ہنسیں گے اور فرمائیں گے ’’لک الارض وعشر امثالھا‘‘ ایک زمین نہیں بلکہ گیارہ زمینیں میں نے تجھے عطا کر دیں۔ جنت میں جو پلاٹ ہوگا جس کو یہاں سے آباد کر کے جانا ہے اس پلاٹ کا سائز کم از کم جو آخری جنتی کو ملے گا وہ گیارہ زمینوں کے برابر ہوگا۔

معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم معراج کے تحفہ نمازوں کی پابندی کر کے معراج کا ذوق حاصل کریں، اور دوسری بات کہ اپنے جنت کے پلاٹ کو قائم رکھیں۔ جنت میں پلاٹ تو ہمارے لیے ہے لیکن اسے کینسل کروانا ہے یا باقی رکھنا ہے، یہ ہمارا کام ہے۔ وہ پلاٹ ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ بحال ہوگا اور اس پلاٹ کی شجرکاری، سبزہ اور آباد کاری اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہوگی، ہم اس کا بھی اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter