ملک کے بزرگ صحافی، نظریۂ پاکستان کے بے باک ترجمان، حب الوطنی کی علامت اور صحافت کی باوقار آزادی کے علمبردار ڈاکٹر مجید نظامی ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں ان کا اس وقت سے قاری چلا آرہا ہوں جب وہ لندن میں روزنامہ نوائے وقت کی نمائندگی کرتے تھے اور وہاں کے حالات و واقعات سے اپنے ملک کے شہریوں کو باخبر رکھنے کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔ نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم کو میں نے دیکھا نہیں مگر کچھ نہ کچھ پڑھا ضرور ہے۔ میں اپنے بچپن اور نوجوانی کے دور میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کی خطابت و صحافت کا پر جوش سامع و قاری رہا ہوں اور مطالعہ کا ذوق پیدا ہوتے ہی نوائے وقت اور ہفت روزہ چٹان میرے مطالعہ کا ناگزیر حصہ بن گئے تھے۔ آغا شورش کاشمیری مرحوم کی حمید نظامی مرحوم کے ساتھ دوستی بھی تھی اور بعض مسائل میں اختلاف کا اظہار بھی بے تکلفانہ انداز میں ہو جاتا تھا۔ نظامی برادران کے ساتھ میرا تعلق بھی کچھ اسی طرح کا رہا ہے۔
مجید نظامی مرحوم، بڑے نظامی صاحب کی وفات کے بعد لندن سے لاہور منتقل ہوئے اور نوائے وقت کی ادارت سنبھالی۔ پھر اختلافات کا وہ دور گزرا جب انہیں نوائے وقت سے الگ ہو کر ندائے ملت کے نام سے نیا روزنامہ نکالنا پڑا اور اس کے بعد مصالحت ہوئی اور انہوں نے نوائے وقت کے ایڈیٹر ان چیف کی حیثیت سے تحریک پاکستان کے اس نمائندہ قومی اخبار کی سربراہی سنبھالی۔ یہ سب مراحل میرے سامنے ہیں، اس دوران ان کے بارے میں جو تاثر قائم ہوا وہ آج تک اسی کیفیت میں قائم ہے کہ وہ اپنے نظریات و رجحانات اور اصولوں کی پاسداری میں بے لچک اور دوٹوک طرز عمل رکھتے ہیں۔ اور ان سے ایسے معاملات میں کسی سودے بازی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ان کے نظریہ اور اصول سے اختلاف کیا جا سکتا تھا مگر اپنے نظریہ اور اصول کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ ہمیشہ شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے۔ اس وجہ سے میرے دل میں ہمیشہ احترام رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔
مجید نظامی مرحوم کے ساتھ میری متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں اور مختلف امور پر بات چیت بھی ہوئی ہے۔ خصوصاً دینی تحریکات کے دوران یہ ملاقاتیں ایک کارکن کے طور پر میری ذمہ داریوں کا حصہ رہی ہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ دینی تحریکات بالخصوص تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالت اور تحریک نظام مصطفیؐ میں قومی سطح پر جن صحافیوں نے ایک ذمہ دار صحافی کے ساتھ ساتھ راہ نما اور مشیر کا کردار ادا کیا ہے ان میں ڈاکٹر مجید نظامی، جناب مصطفی صادق اور جناب مجیب الرحمن شامی سرفہرست ہیں۔ پہلے دو بزرگ وفات پا گئے ہیں، شامی صاحب محترم کا دم غنیمت ہے، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں اور قومی صحافت میں آبرومندانہ کردار تادیر ادا کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
۱۹۷۶ء کی بات ہے گوجرانوالہ میں مسجد نور اور مدرسہ نصرۃ العلوم کو سیاسی انتقام کے طور پر پی پی حکومت نے محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ اس لیے کہ مسجد و مدرسہ کا تعلق جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ تھا اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مولانا مفتی محمودؒ نے مسجد نور میں منعقدہ بہت بڑے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس موقع پر ہم نے گوجرانوالہ میں مزاحمتی تحریک شروع کی اور کم و بیش چار ماہ تک شہر کی سڑکوں پر ہنگامہ بپا کیے رکھا جس کی وجہ سے حکومت کو اپنا نوٹیفیکیشن واپس لینا پڑا۔ اس حوالہ سے میں مجید نظامی صاحب مرحوم سے ان کے دفتر میں ملا اور تحریک کے سلسلہ میں سرپرستی اور راہ نمائی کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن یہ سمجھ لیں کہ یہ ’’ٹیسٹ کیس‘‘ ہے، اگر آپ لوگ ڈھیلے پڑ گئے تو ملک کے دیگر مدارس پر سرکاری کنٹرول کا دروازہ کھل جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ ہم اسے ’’ٹیسٹ کیس‘‘ سمجھ کر ہی لڑ رہے ہیں جس پر انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔
۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیؐ کے دوران میں پاکستان قومی اتحاد صوبہ پنجاب کا سیکرٹری جنرل تھا۔ اس حوالہ سے متعدد بار نظامی صاحب مرحوم سے ملاقات ہوئی اور جب بھی حاضر ہوا انہوں نے احترام و محبت سے نوازا اور مفید مشورے دیے۔
مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے ایک بار بتایا کہ تحریک ختم نبوت کے کچھ راہ نما مجید نظامی مرحوم صاحب سے ملے اور تحریک ختم نبوت کی تاریخ اور قومی اخبارات سے اس کا ریکارڈ جمع کرنے کے بارے میں مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے لیکن اس سلسلہ میں آپ زاہد الراشدی صاحب سے رابطہ قائم کریں وہ یہ کام زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی رکھتے ہیں۔ میں ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم کے ان ریمارکس کو اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھتا ہوں اور اس سے ان کے ساتھ میرے قلبی تعلق میں یقیناً اضافہ ہوا۔
میں نے بعض معاملات میں ان کے موقف اور طرز عمل سے اختلاف بھی کیا اور انہوں نے ہمیشہ نوائے وقت کے صفحات میں میرے اختلافی موقف کو جگہ دی۔ ایک بار میں نے ان سے کسی دوست کی شکایت کے بارے میں بات کی کہ نوائے وقت ان کے مضامین شائع نہیں کرتا تو نظامی صاحب نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا کہ کیا آپ کا مضمون کبھی ہم نے روکا ہے؟ پھر انہوں نے اس کی وضاحت کی کہ جس مضمون میں بہت زیادہ کانٹ چھانٹ کرنی پڑے اسے شائع کرنا ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ کا مضمون چونکہ جچا تلا ہوتا ہے اور اس میں زیادہ رد و بدل نہیں کرنا پڑتا اس لیے ہم اسے شائع کر دیتے ہیں۔
آج ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہو رہی ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔