گزشتہ دنوں بخاری شریف کے درس میں ایک دلچسپ واقعہ نظر سے گزرا جو امام بخاریؒ نے بخاری شریف کی ’’کتاب الادب‘‘ میں بیان کیا ہے اور جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا فطری اور خوبصورت توازن بیان کیا گیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعہ قارئین کے سامنے بھی ذکر کر دیا جائے۔
حضرت سلمان فارسیؓ ایران کے رہنے والے تھے، مجوسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آتش پرست تھے۔ ان کا اصل نام مابہ تھا۔ گھر سے کھیتوں کی طرف جاتے ہوئے ان کا گزر ایک گرجے کے پاس سے ہوا جہاں کوئی خدا ترس عیسائی پادری عبادت میں مصروف تھا۔ انہیں عبادت کا طریقہ پسند آیا اور مذہب اچھا لگا۔ گھر جا کر ذکر کیا تو باپ نے زنجیروں سے جکڑ کر ایک کونے میں ڈال دیا اور گھر سے باہر جانے پر پابندی لگا دی۔ کچھ دن اسی حالت میں رہے، پھر گھر والوں کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنجیریں کھول کر بھاگ کھڑے ہوئے اور پادری کے پاس جا پہنچے۔ اس نے کسی اور پادری دوست کے پاس بھجوا دیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے عیسائیت قبول کر لی تھی، اس لیے مختلف پادریوں کے پاس باری باری رہتے ہوئے اس مذہب کا خاصا علم حاصل کر لیا۔
ایک عمر رسیدہ اور نیک دل پادری کے پاس تھے کہ اس کا آخری وقت آ پہنچا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ اب میں کس کے پاس جاؤں؟ پادری نے کہا کہ اب تم آخر الزمان نبیؐ کی تلاش میں نکلو کہ ان کے ظہور کا وقت آ گیا ہے اور نشانیاں ظاہر ہونے لگی ہیں۔ پادری نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی علامات اور نشانیاں اور ان کے مقامِ ہجرت کی نشانیاں اچھی طرح سمجھا دیں، اور نصیحت کی کہ اب انہی آخر الزمان پیغمبرؐ کی تلاش کرو۔ اس کے بعد پادری موصوف کا انتقال ہو گیا، سلمان فارسیؓ وہاں سے نکلے اور قسمت نے اس رنگ میں ان کی یاوری کی کہ ایک قافلہ نے انہیں تنہا اور بے سہارا سمجھ کر قابو کر لیا اور غلام بنا کر بیچ دیا۔ خریدنے والے یثرب (مدینہ منورہ) کے یہودی تھے جو انہیں یثرب لے آئے۔
یہاں آ کر سلمان فارسیؓ نے دیکھا کہ مرحوم پادری نے آخر الزمان نبیؐ کے مقامِ ہجرت کی جو علامات بیان کی تھیں وہ یثرب میں پائی جاتی ہیں، اس لیے کسی درجہ اطمینان ہوا کہ شاید محنت ٹھکانے لگ جائے۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ مکہ مکرمہ سے ایک صاحب اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ہجرت کر کے یثرب آئے ہیں، اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ سلمان فارسیؓ حیلوں بہانوں سے ان کے پاس آنے لگے اور دو چار ملاقاتوں میں پہچان لیا کہ مرحوم پادری کی بتائی ہوئی علامات کے مطابق نبی آخر الزمانؐ یہی ہیں۔ اسلام قبول کیا اور مابہ کی بجائے سلمان کے نام سے متعارف ہوئے۔ یہودی مالکوں سے معاوضہ پر آزادی کا سودا کر کے غلامی سے نجات حاصل کی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ یہاں تک کی بات حضرت سلمان فارسیؓ کے مختلف سیرت نگاروں کے ارشادات کا خلاصہ ہے۔
اس سے آگے کا واقعہ بخاری شریف میں مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کو ایک انصاری صحابی حضرت ابوالدرداؓ کا بھائی بنا کر انہیں ان کی کفالت میں دے دیا۔ حضرت ابوالدرداؓ جب اپنے بھائی حضرت سلمان فارسیؓ کو اپنے گھر لائے تو جہاں دیدہ اور سرد و گرم چشیدہ سلمان فارسیؓ نے گھر کے ماحول کو عام گھروں جیسا نہ پایا، اور آتے ہی محسوس کر لیا کہ حضرت ابوالدرداؓ اور ان کی اہلیہ میں میاں بیوی والی ’’انڈرسٹینڈنگ‘‘ نظر نہیں آ رہی۔ بیوی کو خاوند کے سامنے جس طرح بنی سنوری ہونا چاہیے ویسا ماحول نہیں ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی عمر کے بارے میں مختلف روایات آتی ہیں جن میں سے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اڑھائی سو برس والی روایت کو زیادہ قرین قیاس قرار دیا ہے۔ اس لیے جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت حضرت سلمان فارسیؓ کی عمر دو سو برس سے زیادہ ہونی چاہیے۔ بزرگ اور عمر رسیدہ آدمی تھے، اس لیے بلاتکلف حضرت ابوالدرداؓ کی اہلیہ سے پوچھ لیا تو انہوں نے بھی کوئی تکلف روا رکھے بغیر سادگی سے کہہ دیا کہ آپ کے بھائی کو دنیا کے معاملات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے تو میں کس کے لیے بنوں سنوروں؟ اس جملہ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے سامنے ساری حقیقت کھول دی اور انہوں نے دل ہی دل میں ایک بزرگ بھائی کی حیثیت سے گھر کے معاملات کی اصلاح کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
دوپہر کا وقت ہوا اور کھانا لایا گیا تو حضرت ابوالدرداؓ کھانا حضرت سلمان فارسیؓ کے سامنے رکھ کر خود ایک طرف ہو گئے، اور پوچھنے پر بتایا کہ وہ روزہ سے ہیں۔ سلمان فارسیؓ نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ابوالدرداؓ روزہ توڑ کر کھانے میں شریک ہوں گے تو وہ کھانا کھائیں گے ورنہ نہیں۔ چنانچہ حضرت ابوالدرداؓ کو روزہ توڑنا پڑا اور وہ کھانے میں شریک ہوئے۔ رات کو نیند کا وقت آیا تو ابوالدرداؓ نوافل کے لیے کھڑے ہو گئے۔ ان کا روز مرہ کا معمول تھا کہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو ساری رات نوافل پڑھتے۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے ٹوک دیا اور کہا کہ ابھی آرام کریں اور یہ کہہ کر انہیں سلا دیا۔ نصف شب کے لگ بھگ ابوالدرداؓ پھر نفل نماز کے لیے کھڑے ہونے لگے تو سلمان فارسیؓ نے دوبارہ انہیں سلا دیا۔ رات کے تیسرے پہر سحری کے وقت سلمان فارسیؓ اٹھے، ابوالدرداؓ کو بھی اٹھایا اور دونوں نے نوافل ادا کیے۔ صبح نماز کے بعد حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابوالدرداؓ کو سمجھایا کہ
’’تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہاری جان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے۔ اس لیے ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔‘‘
گویا حضرت سلمان فارسیؓ نے دین کا خلاصہ بیان فرمایا کہ دین اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کا نام ہے، اور ان میں سے کسی میں بھی کوتاہی ہو گی تو وہ دین کا نقصان ہو گا۔ اس کے بعد جب دونوں بزرگ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابوالدرداؓ نے سارا قصہ جناب نبی اکرمؐ کے سامنے بیان کر دیا اور آنحضرتؐ نے یہ ارشاد فرما کر حضرت سلمان فارسیؓ کی بات اور طرز عمل کی تصدیق فرما دی کہ ’’صدق سلمان‘‘ سلمانؓ نے سچ کہا ہے۔