چیچنیا کے سابق صدر اور موجودہ حکومت کے مشیر سلیم خان کی اسلام آباد میں گرفتاری کی خبر پڑھی تو سناٹے میں آگیا۔ میں توقع کر رہا تھا کہ سلیم خان اسلام آباد پہنچیں گے تو انہیں ایک مجاہد اور مجاہدوں کے غیور نمائندہ کے طور پر پروٹوکول دیا جائے گا، جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں مجاہدین کی پشت پناہی کرنے والے ادارے جہادِ چیچنیا کے سرکاری سفیر سے وہاں کے حالات معلوم کر کے انہیں تعاون کا یقین دلائیں گے، اور روسی جارحیت کا دلیرانہ سامنا کرنے والے غیور مسلمانوں کی پشت پر ہاتھ رکھیں گے۔ کیونکہ ابھی چند روز قبل پاکستان کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے امریکی سینٹروں سے بات چیت کرتے ہوئے چیچنیا کے جہاد کا ذکر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ جہاد اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور مسلمان جہاں کہیں بھی جہاد کرتے ہیں خواہ کشمیر ہو چیچنیا وہ اپنے مذہبی فرض کی تعمیل کرتے ہیں اس لیے انہیں جہاد سے روکا نہیں جا سکتا۔
جنرل صاحب کے اس ارشاد کے بعد اندازہ ہوا تھا کہ چیچنیا کے جہاد کے بارے میں پاکستان کے عوام اور حکومت کے جذبات مختلف نہیں ہیں اور روسی جارحیت کا شکار ہونے والے مجاہدین کو پاکستان کے عوام اور حکمرانوں کی یکساں تائید و حمایت حاصل ہے۔ لیکن سلیم خان کے ساتھ خفیہ اداروں کے اس شرمناک طرزعمل نے ان تمام اندازوں کو غلط ٹھہرا دیا ہے۔ سلیم خان نے کہا ہے کہ روسی فوجوں نے ان کے جسموں کو زخمی کیا مگر پاکستان کے خفیہ اداروں نے ان کی روح کو زخمی کر دیا ہے۔ ان کی یہ بات درست بھی ہے کہ یہ زخم جسموں کے زخم سے زیادہ سخت ہوتا ہے اور آسانی سے مندمل نہیں ہوتا۔ سلیم خان ہمارے مہمان ہیں جس طرح اسامہ بن لادن افغانستان کے مہمان ہیں اور دونوں جہادی تحریکوں کے نمائندے ہیں۔ ایک مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کے خلاف معرکہ آرا ہے اور دوسرا روسی فیڈریشن کی جارحیت کے شکار مظلوم مسلمانوں کی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسامہ بن لادن کی گرفتاری کے لیے امریکہ ایک عرصہ سے دانت پیس رہا ہے مگر غیور طالبان کے سامنے اس کا بس نہیں چل رہا۔ افغانستان کی امارت اسلامی اپنے اس اصولی موقف پر پوری سختی کے ساتھ قائم ہے کہ اسامہ بن لادن ہمارا مہمان ہے اور وہ اپنے مہمان کو ملک سے چلے جانے کے لیے نہیں کہیں گے اور نہ ہی اسے اس کے کسی دشمن کے حوالے کریں گے۔ اس موقف کی خاطر طالبان نے امریکی بمباری برداشت کی ہے، قندھار کے عین وسط میں دہشت گردی کا سامنا کیا ہے، اقوام متحدہ کی پابندیاں قبول کی ہیں اور عالمی میڈیا کی نفرت انگیز مہم کو برداشت کیا ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ افغان حکمران ملا محمد ربانی نے ابھی اسلام آباد میں ایک بار پھر یہ کہہ کر اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے کہ اسامہ ہمارا مسلہ ہے اور اس پر ہمارا موقف سب کے سامنے واضح ہے۔
دوسری طرف ہم نے اپنے مہمان کو جس سلوک کا مستحق ٹھہرایا ہے اس نے پورے عالم اسلام کے سامنے ہماری گردن جھکا دی ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن کے جنوبی ایشیا کے دورہ کے پروگرام میں ابھی تک پاکستان شامل نہیں ہو سکا اور یہ بھی درست ہے کہ چیچنیا کے مظلوم اور مجاہد مسلمانوں کی پاکستان کے عوام اور دینی جماعتوں کی طرف سے مسلسل حمایت پر روسی حکمران ناراض ہیں۔ ہمارے خفیہ اداروں کو اس پر پریشانی ہے اور خاص طور پر امریکہ کے صدر کے پاکستان نہ آنے کا تصور ہی ہمارے حکمران طبقوں میں شامل بہت سے افراد کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن کوئی ادارہ اس حد تک بھی حواس باختہ ہو سکتا ہے، اس کا کم از کم مجھے اندازہ نہیں تھا۔
میں حامد میر صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے سلیم خان سے خود مل کر میرے جیسے لاکھوں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات ان تک پہنچا دیے اور ہماری ترجمانی کر دی، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دیں اور اس جرأت قلندرانہ پر استقامت نصیب فرمائیں، آمین۔ وزیرداخلہ جناب معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ اس واقعہ پر پریس میں کچھ نہ کہا جائے اور کچھ نہ لکھا جائے۔ وہ یقیناً کسی مصلحت کے تحت یہ بات کہہ رہے ہوں گے لیکن مجھے ان کی اس بات سے اتفاق نہیں ہے اس لیے کہ چیچنیا کے سابق صدر اور مجاہدین کے نمائندہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس پر اگر احتجاج بھی نہ ہو اور عوام اور دینی حلقوں کا ردعمل بھی سامنے نہ آئے تو اس سے چیچنیا کے مسلمانوں کے دل پر لگنے والا زخم اور زیادہ گہرا ہو جائے گا اور وہ خود کو مزید تنہا محسوس کرنے لگیں گے۔ پھر یہ تاثر بھی ابھرے گا کہ شاید پاکستان کے عوام، دینی حلقے اور صحافی بھی شاید ’’خفیہ اداروں‘‘ کے لوگ ہیں جو اپنے معزز مہمانوں کے ساتھ کوئی طرز عمل اختیار کرنے سے قبل امریکی اور روسی حکمرانوں کے چہروں کے زاویے دیکھتے ہیں اور ان کی پیشانیوں کی شکنیں شمار کرتے ہیں۔
اس لیے حامد میر کے ساتھ میں بھی اپنے معزز مہمان سلیم خان کے سامنے پوری پاکستانی قوم بالخصوص دینی حلقوں کی طرف سے شرمندگی کا اظہار کرتا ہوں اور ان سے ہونے والی اس بدسلوکی پر معافی مانگتا ہوں۔ اور اس کے ساتھ ہی سلیم خان کی توہین کرنے والے خفیہ اداروں کے ان افسران سے جن کے حکم پر یہ سب کچھ ہوا یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر کا پاکستان نہ آنا اور روسی حکمرانوں کا اظہار ناراضگی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے لوگ اس حد تک بدحواس ہو جائیں اور بالکل ہی ’’بونتر‘‘ جائیں۔ ابھی تو عشق کے اور بھی بہت سے امتحان باقی ہیں اس لیے اپنے حواس قائم رکھیں اور امریکہ اور روس کی چاکری کرنے کی بجائے کہیں سے غیرت و حمیت کا درس بھی لے لیں۔