افغانستان میں عیسائیت کی تبلیغ اور طالبان کا موقف

   
ستمبر ۲۰۰۱ء

روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۷ اگست ۲۰۰۱ء کی خبر کے مطابق:

’’افغانستان میں طالبان نے ’’شیلٹر ناؤ‘‘ نامی انٹرنیشنل تنظیم کے دفاتر کو بند کر دیا اور عملے کے چوبیس افراد کو گرفتار کر لیا جن میں چھ غیر ملکی خواتین اور دو غیر ملکی مرد بھی شامل ہیں۔ بی بی سی کے مطابق عملے کے ایک افغان اہلکار کے گھر سے بائبل ملی اور ایک کمپیوٹر اور کمپیوٹر ڈسکس جن میں بائبل کا مواد ہے۔ یہ گرفتاری انتہائی سنگین نوعیت کا معاملہ ہے چونکہ جنوری میں طالبان کا فتوٰی آ چکا ہے کہ اسلام چھوڑنے والے افغانیوں کے لیے سزا موت ہو گی اور کسی افغانی کو تبدیلئ مذہب پر آمادہ کرنا ریاست کے خلاف جرم ہو گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس فتوٰی کے تحت کاروائی ہوئی ہے۔ افغانستان میں شیلٹر ناؤ انٹرنیشنل کے عملے میں تیرہ غیر ملکی افراد ہیں جو خوراک کی فراہمی اور بہبودِ آبادی کے کام میں مصروف ہیں۔‘‘

افغانستان کے بارے میں ایک عرصہ سے یہ خبریں آ رہی تھیں کہ خوراک کی فراہمی اور انسانی ہمدردی کے دیگر امور کی انجام دہی کے نام سے جو غیر ملکی این جی اوز وہاں کام کر رہی ہیں ان میں سے بعض عیسائیت کی تبلیغ اور افغان عوام کو مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے میں مصروف ہیں۔ اور بعض خبروں کے مطابق بہت سے افغانوں کو ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عیسائی بنا لیا گیا ہے۔ اس خبر سے ان باتوں کی تصدیق ہو گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سے عالمی ادارے اور ورلڈ میڈیا ایک بار پھر امارتِ اسلامی افغانستان کے خلاف پروپیگنڈا اور طالبان حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کاروائیوں میں مصروف ہو گئے ہیں۔

جبکہ طالبان حکام کا کہنا ہے کہ بیرونی این جی اوز کو ایک معاہدہ کے تحت افغانستان میں کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جس میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ریاست کے سرکاری مذہب اسلام کے خلاف کسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے، اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف افغانستان کے رائج الوقت قانون کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ اس لیے ان گرفتار افراد نے افغانستان کے قانون اور مذکورہ معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے اور انہیں معاہدہ کے مطابق سزا کا سامنا کرنا ہو گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان حکومت کا یہ اقدام بالکل جائز اور منصفانہ ہے، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اسلام میں مرتد ہونے اور ارتداد پھیلانے کی شرعی سزا موت ہے، اور اسلام ہی افغانستان کا رائج الوقت دستور و قانون ہے جس کی پابندی کا ان این جی اوز نے افغانستان کی حکومت سے معاہدہ کر رکھا ہے۔ اس لیے اس مسلّمہ بین الاقوامی قانون کے تحت کہ کسی بھی ملک میں معاہدہ کے تحت جانے والوں کو معاہدہ اور اس ملک کے قانون کی پابندی کرنی چاہیے، غیر ملکی این جی اوز کو افغانستان میں مذہبی تبلیغ اور ارتدادی سرگرمیوں کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، اور اگر انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی ہے تو انہیں اس کی سزا ملنی چاہیے تاکہ اور کسی کو اس قسم کی خلاف ورزی کی جرات نہ ہو۔

اس کے ساتھ ہی ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ صرف افغانستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے بہت سے مسلم ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ افغانستان میں اسلامی نظریاتی حکومت موجود ہے اس لیے اس نے اس کا نوٹس لے لیا ہے جبکہ بنگلہ دیش، نائجیریا اور انڈونیشیا سمیت بہت سے مسلمان ملکوں میں اور خاص طور پر پاکستان میں کام کرنے والی سینکڑوں این جی اوز کی سرگرمیاں بھی مسلمانوں کو ان کے مذہب، عقائد اور کلچر سے بیگانہ کرنے اور باغی بنانے کی مساعی پر مشتمل ہیں۔ اور بعض این جی اوز تو کھلم کھلا عیسائیت کی تبلیغ کر کے مسلمانوں کو مرتد بنا رہی ہیں۔

اس لیے مسلمان حکومتوں اور اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم کو اس قسم کی ارتدادی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر کوئی مؤثر حکمتِ عملی طے کرنی چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter