بعد الحمد والصلوٰۃ۔ روحانی سلسلوں میں ہمارا تعلق سلسلہ نقشبندیہ سے ہے، میرا تو قادری سلسلہ سے بھی ہے، لیکن ہمارا عمومی تعلق سلسلہ نقشبندیہ سے ہے، اس حوالے سے بھی کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے بہت بڑے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ آف واں بھچراں کے مرید بھی تھے اور ان کے مجاز بھی تھے کہ ان کی اجازت وغیرہ سے بیعت وغیرہ کیا کرتے تھے۔ ایک حوالہ ہمارا یہ ہے۔ دوسرا حوالہ یہ ہے کہ ہمارا یہ ادارہ سلسلہ نقشبندیہ کی ایک بڑی عظیم خانقاہ، خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کی سرپرستی میں ہے، بزرگوں کا سایہ ہے، سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد صاحب دامت برکاتہم ہماری سرپرستی فرماتے ہیں، کبھی کبھی تشریف بھی لاتے ہیں۔ بہرحال عمومی ماحول ہمارا سلسلہ نقشبندیہ کا ہے۔
اس سلسلہ کے تحت ہمارا ایک معمول چل رہا ہے کہ ہم پیر کی نمازِ عصر کے بعد تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں، ایک ہلکا پھلکا سا اصلاحی بیان ہوتا ہے، اور پھر سلسلہ نقشبندیہ کے مطابق ختمِ خواجگان ہوتا ہے۔ ختمِ خواجگان کیا ہے؟ یہ اوپر چارٹ پر تفصیل لکھی ہوئی ہے، اور ابھی ہم کر لیں گے تو پتہ چل جائے گا کہ کیا ہے: قرآن پاک پڑھتے ہیں، ذکر اذکار کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ یہ ہمارا معمول تعلیمی سال کے دوران ہوتا ہے۔
یہ ہمارا مدرسہ ہے، اکیڈمی ہے، تعلیمی سلسلہ ہے۔ تعلیمی سال شوال کے وسط میں شروع ہوتا ہے اور رجب، شعبان تک رہتا ہے، اس کے بعد دو مہینے کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ (اُن دنوں) ایک تو ویسے چھٹی کا ماحول ہوتا ہے اور پھر میری مصروفیات چھٹیوں میں باہر (اسفار) کی زیادہ ہوتی ہیں، جس سے ناغہ پڑ جاتا ہے۔ تو اب دو تین مہینے کے ناغے کے بعد موجودہ تعلیمی سال میں ہفتہ وار نقشبندی محفل کے سلسلہ کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس میں دو باتیں ہیں: ایک مختصر سا اصلاحی بیان، اور اس کے بعد ختمِ خواجگان کے طریقے پر ذکر اذکار اور دعا۔
آج کی گفتگو میں ایک بات عرض کروں گا، دیکھیے کہ دین اور شریعت میں کچھ چیزیں تو ہمارے لیے کرنی بہرحال لازمی ہیں۔ فرائض پورے کرنے ضروری ہیں، واجبات پورے کرنے ضروری ہیں، حلال حرام کا فرق رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً فرض نماز نہیں پڑھیں گے تو پکڑ ہو گی۔ اور کچھ اعمال ایسے ہیں جو ہم کریں تو ثواب ہو گا، نہیں کریں تو پکڑ نہیں ہو گی، ان کو نوافل کہتے ہیں۔ اور زیادہ اعمال یہی ہیں کہ کر لیں تو اجر و ثواب ہو گا، نیکی ہو گی، برکات ملیں گی، نہیں کریں گے تو پکڑ نہیں ہو گی۔
نوافل کے حوالے سے میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ضروری تو نہیں ہیں لیکن اگر آدمی پابندی کرے کچھ اعمال کی تو برکتیں بڑی ہیں۔ میں عام طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم نفل اعمال میں سارے کر سکیں تو بہت اچھی بات ہے، لیکن کوئی ایک آدھ ہمیں اپنے ذمے لازمی کر لینا چاہیے، بڑی برکتیں ہوں گی۔ ایسا عمل جس کی ہم پابندی کر سکیں کہ یہ ہم نے کرنا ہے۔ اللہ کی طرف سے تو فرض نہیں ہے لیکن آپ خود بھی تو پابندی لگا لیتے ہیں کہ یہ کام میں نے کرنا ہی کرنا ہے۔ یہ پابندی شرعی نہیں ہوتی لیکن بہرحال پابندی ہوتی ہے۔ ہم دنیاداری میں بھی بعض اوقات ایسے کرتے ہیں کہ یہ کام تو میں نے کرنا ہی ہے۔ تو نوافل میں بھی کوئی ایک آدھ چھوٹا سا کام جس کی ہم پابندی کر لیں تو اس کی بڑی برکتیں ہیں۔
اس پر ایک مثال دوں گا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابئ رسول ہیں اور بہت بڑے صحابی ہیں۔ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہیں۔ جنت میں اللہ پاک مجھے لے گئے تھے، خواب کی بات ہے یا بیداری کی بات ہے، کسی آدمی کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، تو میں نے فرشتوں سے پوچھا کہ کون آ رہا ہے بھئی؟ انہوں نے کہا کہ بلالؓ وہاں مدینہ میں چل رہا ہے اور یہاں اس کے قدموں کی آواز آ رہی ہے۔ آپؐ نے پوچھا، کونسا عمل کرتے ہو کہ اللہ پاک نے تمہیں یہ مقام بخشا ہے کہ چلتے یہاں ہو اور قدموں کی چاپ جنت میں سنائی دیتی ہے، میں نے خود سنی ہے، کیا عمل کرتے ہو؟ ہماری زبان میں ’’کونسا وظیفہ پڑھتے ہو یار؟‘‘۔
حضرت بلالؓ سوچ میں پڑ گئے، پھر کہا یا رسول اللہ وہی کام کرتا ہوں جو باقی کرتے ہیں، ہاں ایک کام یاد آ گیا کہ میں جب وضو کرتا ہوں تو دو رکعت ضرور پڑھتا ہوں۔ اسے ’’تحیۃ الوضوء‘‘ کہتے ہیں اور یہ نفل ہیں، واجب نہیں ہیں، سنتِ مؤکدہ بھی نہیں ہیں۔ تو حضرت بلالؓ نے کہا کہ یہ میں نے اپنے ذمے ضروری کر لیا ہے کہ یہ میں نے کرنا ہی کرنا ہے۔ حضورؐ نے کہا کہ بس ٹھیک ہے (یہی بات ہے)۔
اس لیے میں اپنے آپ سے بھی کہا کرتا ہوں، کوئی ایک آدھ چھوٹا سا کام اپنے ذمے لے لیں، صدقہ خیرات کا لے لیں، نفل کا لے لیں، قیلولے کا لے لیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ’’بینی و بین اللہ‘‘ کرنا ہے، واٹس ایپ پر نہیں، یوٹیوب پر نہیں، فیس بک پر نہیں، کسی کو پتہ نہ چلے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ قیمت اس عمل کی ہے جو میرے اور اللہ کے درمیان ہے۔ جس عمل کا میں نے ڈھنڈورا پیٹ لیا، وہ گیا۔
میری بات سمجھ آگئی ہو گی، اس لیے آج کا سبق میرے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی کہ کوئی چھوٹا سا کام اپنے ذمے لے لیں۔ مثلاً حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بھی ایک واقعہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کو ایک وظیفہ بتایا۔ یہ جو ہم نماز کے بعد تینتیس دفعہ سبحان اللہ، تینتیس دفعہ الحمد للہ، اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کا وظیفہ کرتے ہیں، یہ اصل وظیفہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو بتایا تھا کہ ایک دفعہ رات کو کر لیا کرو، بڑے فائدے ہیں اس کے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب سے حضورؐ نے بتایا ہے میں نے کبھی ناغہ نہیں کیا، رات کو سونے سے پہلے ایک دفعہ یہ وظیفہ ضرور پڑھتا ہوں۔ پوچھنے والے نے پوچھا حضرت! صفین کی جنگ میں بھی ناغہ نہیں کیا؟ حضرت معاویہؓ کے ساتھ جو جنگ ہوئی تھی، بڑی ہولناک جنگ تھی، دونوں طرف سے ٹھیک ٹھاک زور لگا تھا، بڑے شہید ہوئے تھے دونوں طرف سے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا، صفین کی جنگ میں بھی ناغہ نہیں ہوا تھا۔
تو آج کا ہمارا سبق یہی ہے کہ کسی نہ کسی ایک عمل کی پابندی ہمیں اپنے ذمے لے لینی چاہیے، اللہ پاک بڑی برکات دیں گے، اللہ پاک کرم فرمائیں گے، اللھم صل علیٰ سیدنا محمد۔