حج سیزن کی مصروفیات سے فارغ ہو کر وفاقی وزارت مذہبی امور پھر سے ’’قومی علماء و مشائخ کونسل پاکستان‘‘ کے معاملات کی طرف متوجہ ہوگئی ہے۔ کونسل نے ۲۶ مئی کو اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں دو اہم کمیٹیاں قائم کی تھیں، ایک کمیٹی نصاب تعلیم کے حوالہ سے بنائی گئی تھی جس کے ارکان میں مولانا مفتی منیب الرحمن، ڈاکٹر احمد علی سراج، مولانا عبد المالک خان، ڈاکٹر یاسین ظفر، مفتی ابوہریرہ محی الدین، علامہ نیاز حسین نقوی اور راقم الحروف شامل ہیں۔ جبکہ دوسری کمیٹی کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کی نگرانی اور اہتمام کے لیے سٹیئرنگ کمیٹی کے عنوان سے قائم کی گئی ہے جو مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا علی محمد ابو تراب، علامہ عارف واحدی، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، پیر سلطان احمد علی، قاضی نثار احمد اور حافظ طارق محمود پر مشتمل ہے۔ نصاب کمیٹی کے سربراہ مولانا مفتی منیب الرحمن ہیں جس کی ذمہ داری میں دو باتیں شامل ہیں۔ ایک یہ کہ مدارس دینیہ کے نصاب میں سے فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی مواد کے ازالے کے لیے اقدامات کرنا، دوسرا مدارس کے نصاب میں بہتری کے لیے تجاویز پیش کرنا۔
۲۷ اکتوبر کو اسلام آباد میں دونوں کمیٹیوں کے اجلاس بیک وقت ہوئے جن کے مشترکہ سیشن اور نصاب کمیٹی کے اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور صاحبزادہ پیر سید امین الحسنات شاہ نے اور سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے کی جبکہ کمیٹیوں کے الگ الگ اجلاس کے بعد دونوں کا مشترکہ اختتامی سیشن وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف خان کی صدارت میں ہوا۔ دینی مدارس کے پانچوں وفاقوں کے نصابات کمیٹی کے سامنے لائے گئے اور وفاق المدارس السلفیہ کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر یاسین ظفر کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی جو ان نصابات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد ان کے بارے میں رپورٹ اور سفارشات نصاب کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔ اجلاس کے دوران دینی مدارس کے نصابات کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور ارکان نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
- نصاب تعلیم کا جائزہ صرف دینی مدارس کے حوالہ سے کافی نہیں بلکہ ملک میں سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر اس وقت رائج تمام نصابوں کا دو حوالوں سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ درجنوں قسم کے الگ الگ نصابات ملک میں جاری ہیں جن کے اہداف اور نتائج ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور معاشرہ میں ذہنی اور تہذیبی خلفشار کا باعث بن رہے ہیں۔ قومی وحدت اور یکجہتی کا تقاضہ ہے کہ ان نصابوں میں وحدت اور یکجہتی پیدا کی جائے اور انہیں اہداف و ثمرات کے حوالہ سے ہم آہنگ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے اور اس کے دستور میں ریاست، حکومت اور معاشرہ کا واضح نظریاتی و تہذیبی ہدف طے کیا گیا ہے۔ جبکہ سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر رائج بہت سے نصاب تعلیم اس سے ہم آہنگ نہیں ہیں، چنانچہ تمام نصابوں کو ملک کی اسلامی شناخت اور دستور میں طے شدہ اہداف کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔
- دینی مدارس کے نصابات کے بارے میں اجلاس میں اس رائے کا اکثر ارکان کی طرف سے اظہار کیا گیا کہ دینی مدارس کے وفاقوں کے نصابات بنیادی معاملات میں کم و بیش مشترک ہیں اور چند کلامی و فقہی مسائل کے علاوہ باقی معاملات میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ مثلاً صرف، نحو، ادب، معانی، منطق، فلسفہ اور دیگر فنون کا مواد تقریباً ایک جیسا ہے، صرف عقائد اور ان کی تعبیرات اور فقہی مسائل کا دائرہ ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان میں نصابوں کا مواد منافرت کا باعث نہیں ہے بلکہ اپنے عقیدہ و فقہ کو مثبت انداز میں پڑھانا ہر مکتب فکر کا مسلّمہ حق ہے۔ اس لیے اصل مسئلہ نصاب کا نہیں بلکہ باہمی رویوں اور طرز تدریس کا ہے۔ اگر باہمی ربط و تعلق اور ایک دوسرے کی بات سننے اور تبادلۂ خیالات کا ماحول قائم ہو جائے اور طرز تدریس میں مثبت رویہ کو زیادہ اجاگر کیا جائے تو نصابوں کے مواد میں بظاہر کوئی ایسی بات نہیں ہے جو منافرت کا باعث بن سکے۔
اس سلسلہ میں تجویز کیا گیا کہ وفاقی وزارت مذہبی امور کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جن میں انہیں ایک دوسرے سے ملنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے گا اور باہمی تبادلۂ خیالات کے ذریعہ عدم رابطہ و تعلق کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔ جبکہ اس کے ساتھ طرز تدریس کو زیادہ سے زیادہ مثبت رخ دینے کے لیے اکابر علماء کے محاضرات کا بھی ان میں اہتمام کیا جائے تاکہ دینی مدارس کے نصابات میں مطلوبہ ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ - اجلاس میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ معاشرے میں پائی جانے والی مبینہ منافرت صرف دینی تعلیم کے حوالہ سے نہیں بلکہ سیاسی، قومیتی، صوبائی اور نسلی عصبیتیں بھی باہمی منافرت اور قتل و قتال کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں، ان سب کا جائزہ لینا ضروری ہے اور قومی وحدت اور یکجہتی کو ہر شعبہ میں فروغ دینا اور منافرت کے اسباب کا سدباب کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں علماء کرام کو بھی موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
- اجلاس میں اس بات کی ضرورت بھی محسوس کی گئی کہ ان حوالوں سے مختلف فورموں پر اب تک خاصا کام ہو چکا ہے اس لیے ازسرنو سارے کام کرنے کی بجائے اب تک کی جانے والی کاوشوں کو مجتمع کر کے انہیں اختصار اور ترتیب کے ساتھ سامنے لا کر آئندہ جدوجہد کی بنیاد بنایا جائے تو زیادہ بہتر بات ہوگی۔