افغانستان پر امریکی حملوں کے اصل اہداف اور مقاصد

   
نومبر ۲۰۰۱ء

امارتِ اسلامیہ افغانستان پر امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کے خلاف عالمی رائے عامہ مسلسل غم و غصہ کا اظہار کر رہی ہے مگر تا دمِ تحریر (۱۷ اکتوبر) حملوں کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اور امریکی صدر جارج بش نے حملوں کا دائرہ وسیع کرنے، جنگ کو لمبی مدت تک جاری رکھنے، اور جنگ بند ہونے کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔

یہ حملے بظاہر عرب مجاہد اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے پر طالبان حکومت کو سزا دینے کے لیے کیے جا رہے ہیں جن میں نہتے عوام اور غریب شہری نشانہ بن رہے ہیں، لیکن امریکی صدر کے مذکورہ بالا اعلانات سے واضح ہو گیا ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے، بلکہ اس بہانے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں فوجی موجودگی کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ اور جس طرح خلیج عرب میں عراق اور کویت میں تنازعہ کھڑا کر کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں براجمان ہو گئی تھیں، اسی طرح افغانستان کے مسئلہ کو جان بوجھ کر بگاڑا جا رہا ہے تاکہ اس خطہ میں فوجیں اتارنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ اور طالبان کی اسلامی نظریاتی حکومت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ چین، پاکستان اور وسطی ایشیا کی فوجی ناکہ بندی اور وسطی ایشیا میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کو زمین سے نکالنے سے پہلے ہی کنٹرول کر لینے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش اور برطانوی وزیراعظم بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی جنگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے اور ان کی نظر میں اسلام امن پسند مذہب اور مسلمان امن پسند قوم ہیں، لیکن صدر امریکہ نے اس جنگ کو ’’صلیبی جنگ‘‘ قرار دے کر اور برطانوی وزیراعظم نے ایک حالیہ مضمون میں طالبان کے طرزِ حکومت کو طعن و تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے اصل جذبات کا اظہار کر دیا ہے۔ اور اس سے قبل ان ممالک کے مسلسل طرزِ عمل سے یہ بات دنیائے اسلام پر پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ اس جنگ کا ہدف صرف الشیخ اسامہ بن لادن اور طالبان کی اسلامی حکومت نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کی جہادی تحریکات، دینی حلقے اور قرآن و سنت کے ساتھ بے لچک وابستگی رکھنے والے مسلمان ہیں۔ اور مغربی حکمران دراصل عالمِ اسلام میں دینی بیداری کے انہی روز افزوں رجحانات کو ختم کرنے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔

برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کا ایک مضمون روزنامہ جنگ لندن نے ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو شائع کیا ہے جس میں انہوں نے طالبان کی حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان اور اسامہ بن لادن ’’ایک دقیانوسی اور غیر روادار نظام پوری مسلمان دنیا کو برآمد کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسامہ اور طالبان سے مغربی حکمرانوں کو اصل شکایت یہی ہے کہ وہ افغانستان میں اسلامی نظام کا کامیاب تجربہ کرنے کے بعد پوری دنیائے اسلام میں نفاذِ اسلام کی تحریکات کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ اور مغربی حکمرانوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اگر افغانستان میں یہ نظام کامیاب ہوجاتا ہے تو دنیا کے دوسرے مسلم ممالک تک اس نظام کا دائرہ وسیع ہو جائے گا ۔اور مسلم ممالک کو اپنے کنٹرول میں رکھنے اور ان کے وسائل اور صلاحیتوں کا مسلسل استحصال کرتے رہنے کے لیے مغرب نے ان پر جو نوآبادیاتی اور استحصالی نظام طاقت اور سازشوں کے زور پر مسلط رکھا ہوا ہے، اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ہمارے نزدیک اس سارے قضیے کا اصل نکتہ یہی ہے اور باقی سارے عوامل بھی اسی کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب کا استحصالی اور سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے، اس کی گرفت عالمی نظام پر ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے اور تاریخ کا پہیہ حرکت میں آگیا ہے۔ اس لیے افغانستان کے خلاف فوجی کاروائی اور غریب عوام پر وحشیانہ بمباری اور ان کے قتلِ عام سے اس خطہ کے مسلمانوں کے لیے مشکلات تو کھڑی کی جا سکتی ہیں اور چند سال مزید انہیں پریشان اور مضطرب رکھا جا سکتا ہے، لیکن مغرب کے سرمایہ دارانہ اور سیکولر نظام کو بچانے اور اسلام کے عادلانہ اور فطری نظام کو روکنے کی کوئی کوشش اب زیادہ دیر تک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ البتہ اس میں دنیائے اسلام کی دینی قیادتوں اور اسلامی تحریکات کا امتحان ضرور ہے کہ وہ اس صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے باہمی رابطہ و مشاورت اور حوصلہ و تدبر کا کس حد تک مظاہرہ کرتی ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter