گزشتہ روز اخبارات میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی یہ تصویر دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ لندن کے ہائیڈ پارک میں چہل قدمی کر رہے ہیں جو کہ ان کی صحت کی مسلسل بحالی کی علامت ہے، دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ اس کے ساتھ ہی ہائیڈ پارک کے بعض ماضی کے مناظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے۔
ہائیڈ پارک لندن کے وسط میں واقع ہے جس کا رقبہ سوا چھ سو ایکڑ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ایک شاہی باغ تھا جسے شاہ جیمز اول نے سترہویں صدی کے آغاز میں عوام کے لیے کھول دیا تھا اور اب تک یہ باغ عوامی سیر و سیاحت کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ میں کم و بیش ربع صدی تک کسی نہ کسی حوالے سے لندن جاتا رہا ہوں جس کے دوران مجھے متعدد بار ہائیڈ پارک جانے کا موقع ملا ہے، لیکن اب چار پانچ برس سے یہ سلسلہ اس لیے موقوف ہے کہ برطانوی حکومت مجھے ویزا دینے سے مسلسل انکاری ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ میں اس بات کا اطمینان نہیں دلا سکا کہ برطانیہ جا کر اپنے ملک واپس آجاؤں گا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر ویزے کی کوشش ترک کر دی ہے کہ ’’رموز مملکت خویش خسرواں دانند‘‘۔ ورنہ جو شخص چوبیس پچیس سال لگاتار لندن جا کر ویزے کی مدت کے اندر ہی واپس آگیا ہو اس کے بارے میں ایسے شک کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ وہ برطانیہ جا کر شاید واپس نہ آئے۔
ہائیڈ پارک دنیا کے تاریخی باغوں میں سے ہے مگر اس کا ایک کونہ اس سے بھی زیادہ مشہور اور دل چسپی کا حامل ہے جسے ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جہاں جانے کے لیے لندن کی زیر زمین ریلوے کا اسی نام سے ایک مستقل اسٹیشن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۸۵۵ء میں ایک بڑھئی نے اس کونے میں کھوکھا رکھ کر آزادئ تقریر کا ایسا مظاہرہ کیا جو رفتہ رفتہ مستقل روایت کی حیثیت اختیار کر گیا۔ تب سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ جس شخص کا مکمل آزادی اور کسی قانونی پابندی کی پروا کیے بغیر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کو جی چاہتا ہے وہ وہاں جاتا ہے اور چند لوگوں کو جمع کر کے جو جی چاہتا ہے کہہ ڈالتا ہے۔ حتیٰ کہ ہائیڈ پارک کے اس کونے میں برطانوی قانون کا بھی اطلاق نہیں ہوتا اور وہاں پریشر ککر کے سیفٹی والو کی طرح ہر قسم کی بھڑاس نکالنے کی ہر شخص کو اجازت ہے۔ روزانہ شام کو وہاں اس قسم کے بیسیوں لوگ موجود ہوتے ہیں جبکہ اتوار کو ہائیڈ پارک کا یہ کارنر کراچی کے مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔
ہائیڈ پارک کی اس آزادی سے ہمارے بعض بزرگوں نے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ سفیر ختم نبوت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کا مقصد زندگی ہی قادیانیت کا تعاقب تھا اور وہ اس کے لیے دنیا کے کسی بھی کونے میں جانے کے لیے ہر وقت تیار ہوتے تھے۔ جس دور میں قادیانی جماعت کے آنجہانی سربراہ مرزا طاہر احمد نے امت مسلمہ کے سرکردہ علماء کو مباہلے کا چیلنج دیا تو مولانا چنیوٹیؒ اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے لندن جا پہنچے اور وہاں کے اخبارات میں اعلان کر دیا کہ میں لندن آگیا ہوں اور فلاں وقت ہائیڈ پارک کارنر میں مباہلے کے لیے موجود ہوں گا۔ مولانا چنیوٹیؒ اپنے رفقاء سمیت وہاں پہنچ کر انتظار کرتے رہے مگر مرزا طاہر احمد نے آنے کی زحمت نہ کی، جبکہ مولانا چنیوٹیؒ نے وہاں مباہلے کے چیلنج کو قبول کرنے کا ایک بار پھر اعلان کیا۔
ہائیڈ پارک کارنر کی یہ سرگرمیاں مجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی یاد بھی دلاتی ہیں جہاں بہت سے ملکوں کے حکمران سالانہ اجلاس کے موقع پر آتے ہیں جو کئی ہفتے جاری رہتا ہے۔ اور جس ملک کے حکمران کو کسی مسئلہ پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنا ہوتی ہے وہ جنرل اسمبلی میں آکر دل کے پھپھولے پھوڑتا ہے، غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے، اور پھر ٹھنڈا ٹھار ہو کر اپنے وطن کو واپس لوٹ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنرل اسمبلی نے کچھ کرنا کرانا تو ہوتا نہیں، صرف قراردادیں پاس کرنا ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ اختیارات اور پالیسی سازی کا مرکز صرف سلامتی کونسل ہے جہاں پانچ ویٹو پاورز نے تمام اختیارات، فیصلوں اور پالیسیوں کو اپنے آہنی شکنجوں میں دبوچ رکھا ہے۔ اس لیے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ سے تعبیر کیا کرتا ہوں جسے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ایک مستقل فورم کی حیثیت دے دی گئی ہے اور کسی ملک کے حکمران پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ جنرل اسمبلی کے فورم پر جو چاہے کہے، جسے چاہے لتاڑے اور پھر چپکے سے اپنے گھر واپس چلا جائے۔
مگر یہ منظر اب پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں زیادہ واضح نظر آنے لگا ہے کہ بہت سے ٹی وی چینلز پر روزانہ شام کو ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کی سرگرمیاں بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔ کسی سیاسی یا مذہبی موضوع پر باہمی مباحثے دیکھ کر پہلے گوجرانوالہ کے پہلوانوں کے دنگل یاد آتے تھے، اب ہائیڈ پارک کارنر نگاہوں کے سامنے گھوم ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے، نہ کوئی اخلاقی تقاضہ کسی کو یاد رہتا ہے، نہ کسی شرعی قانون کا لحاظ ہے، اور نہ ہی کوئی ملکی قانون اس ’’دشنام باہمی‘‘ میں رکاوٹ بن پاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسا ماحول جان بوجھ کر ریٹنگ میں اضافے کے لیے پیدا کیا جاتا ہے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ اس کی پشت پر خفیہ ہاتھوں کی یہ پلاننگ دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان میں سیاست اور مذہب دونوں کے ماحول کو ہر قسم کی اخلاقیات سے عاری کر دیا جائے اور باہمی نفرت و بے اعتمادی کے ایسے بیج اس معاشرے میں بو دیے جائیں کہ مذہب اور سیاست کے دو مقدس الفاظ نعوذ باللہ گالی بن کر رہ جائیں۔ حتیٰ کہ مولانا مفتی منیب الرحمن کے بقول رمضان المبارک کے تقدس اور احترام کو بھی اسی قسم کی میڈیائی خرافات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔
اصل ذمہ داری سیاست دانوں اور علماء کرام کی ہے کہ وہ اس سازش کو سمجھنے کی کوشش کریں اور خواہ مخواہ ’’دام ہمرنگ زمین‘‘ کا شکار ہوتے رہنے کی بجائے مذہب و سیاست کے اصل مقام اور وقار کی بحالی کے لیے سوچیں۔ کیونکہ اس طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہ دی گئی تو فائدہ صرف غیر مذہبی اور غیر سیاسی قوتوں کو ہوگا کہ ایسی قوتیں جب موقع پاتی ہیں تو پھر مذہب، سیاست اور اخلاقیات میں سے کسی کی قدریں محفوظ رہنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔