امت کی قیادت اور اس کے عملی و اخلاقی تقاضے

   
۲۷ جولائی ۱۹۹۸ء

۸ جولائی ۱۹۹۸ء کو ایسٹ لندن میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ایک دینی ادارہ ’’دارالامہ‘‘ میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کے اعزاز میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا۔ اصحاب فکر و دانش کی ایک بڑی تعداد جمع تھی اور مغرب میں مقیم مسلمانوں کو تعلیم اور میڈیا کے حوالہ سے درپیش مسائل زیربحث تھے۔ شرکاء میں ڈاکٹر نذر الاسلام بوس بھی تھے جو اصلاً بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں سے کسی زمانے میں پاکستان آئے پھر برطانیہ چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ وہ رابطہ عالم اسلامی کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور اس کے لندن آفس کے ذمہ داروں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ سنجیدگی اور متانت کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں، مطالعہ اور تجربے کا طویل پس منظر رکھتے ہیں، ان دنوں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، اور ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں میں خوشدلی کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔ انہوں نے اس نشست میں تعلیم کے حوالہ سے گفتگو کی اور دو باتوں کی طرف بطور خاص توجہ دلائی۔

ڈاکٹر نذر الاسلام بوس نے کہا کہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا ہمارا جو مزاج بن گیا ہے وہ ہماری ترقی اور آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سلسلہ میں اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جس دور میں وہ رابطہ عالم اسلامی کے لندن آفس میں کام کر رہے تھے، برطانیہ میں بننے والی مساجد اور دینی اداروں کی امداد کا شعبہ ان سے متعلق تھا۔ جس علاقہ میں کچھ مسلمان مسجد یا دینی مکتب قائم کرنا چاہتے وہ اپنی ایک سوسائٹی بنا کر اسے رجسٹرڈ کراتے اور پھر پروگرام کا خاکہ بنا کر رابطہ کو بھیج دیتے۔ رابطہ اپنے طور پر انکوائری کر کے جہاں مناسب سمجھتا امداد فراہم کر دیتا۔ ڈاکٹر بوس نے بتایا کہ کئی مواقع پر ایسا ہوا کہ رابطہ نے کسی مسجد یا ادارے کے لیے امداد منظور کی اور ہم نے متعلقہ کمیٹی کو اطلاع دی کہ وہ آکر اپنا چیک لے جائیں تو اس کمیٹی کے عہدے داروں سے پہلے ان کے مخالفین ہمارے پاس پہنچ جاتے کہ یہ رقم آپ کن لوگوں کو دے رہے ہیں؟ وہ تو چور ہیں، بد دیانت ہیں، رقم کھا جائیں گے، یہ رقم مسجد اور مکتب میں صرف نہیں ہوگی۔ اس لیے آپ یہ رقم انہیں مت دیں بلکہ ہمیں دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم کوشش کرتے کہ یہ تنازعہ کسی طرح حل ہو، لیکن اکثر ہمیں ناکامی ہوتی اور امدادی رقم کا چیک بسا اوقات رابطہ عالم اسلامی کے ہیڈ آفس مکہ مکرمہ واپس بھجوانا پڑتا۔

ڈاکٹر بوس خود کو پاکستانیوں میں شمار کرتے ہیں اور ان کا یہ اشارہ بھی ہماری طرف ہی تھا کہ یہ مسئلہ سب سے زیادہ ہم پاکستانیوں کا قومی روگ بنا ہوا ہے۔ یہ صرف برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی بات نہیں بلکہ خود پاکستان میں بھی ہمارا یہی حال ہے۔ زندگی کے کسی شعبہ میں دیکھ لیں، ہم کسی شخص یا گروہ کو کسی کام میں آگے بڑھتا دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ کام ہمارے ہاتھوں کیوں نہیں ہو رہا۔ اور اگر یہ کام مکمل ہوگیا تو اس کا کریڈٹ تو وہ لے جائے گا۔ یہ پریشانی اگر ہمیں مقابلہ کے مثبت عمل پر ابھارے تب بھی کوئی اچھا نتیجہ سامنے آسکتا ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ ایسا کرنے کی ہم میں ہمت نہیں ہوتی، اس لیے ہمارا رد عمل ’’خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مصداق اکثر منفی ہوتا ہے۔ اور خود کچھ کرنے کی بجائے ہم کرنے والے کے کام میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔

یہ ہماری قومی بیماریوں میں سے ایک بڑی بیماری ہے جس نے ہمارے پاؤں میں زنجیریں ڈال رکھی ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اقوام عالم کی برادری میں ہم اپنا جائز اور صحیح مقام حاصل نہیں کر پا رہے۔ اس حوالہ سے ہمارے ہاں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے جو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جہنم کے مختلف کنوؤں میں مختلف اقوام کے لوگ سزا بھگت رہے ہیں اور ہر کنویں کی منڈیر پر نگران فرشتے متعین ہیں تاکہ اگر کوئی شخص قید خانے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے تو وہ اسے واپس دھکیل دیں۔ منظر دیکھنے والا کہتا ہے کہ باقی کنوؤں پر متعین فرشتے تو پوری طرح چوکس اور ہوشیار کھڑے ہیں لیکن ایک کنویں کے فرشتے بڑے مزے اور اطمینان سے الگ بیٹھے گپ شپ کر رہے ہیں اور کنویں کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ حضرات اس قدر بے فکر ہو کر کیوں بیٹھے ہیں، اگر آپ کے کنویں سے نکل کر کوئی شخص بھاگ گیا تو آپ کیا کریں گے؟ ان فرشتوں نے جواب دیا کہ یہ پاکستانیوں کا کنواں ہے اس لیے ہمیں کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ اس میں سے کوئی شخص نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے دوسرے ساتھی خود ہی نیچے سے اس کی ٹانگیں کھینچ لیتے ہیں، اس لیے اس کنویں سے کسی کے نکلنے اور بھاگنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

دوسری بات ڈاکٹر نذر الاسلام بوس نے یہ بتائی کہ وہ ایک بار اقوام متحدہ کے کسی وفد کے ہمراہ اسرائیل گئے اور وہاں ’’بن گوریاں یونیورسٹی‘‘ جانے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے یونیورسٹی کے ذمہ دار حضرات سے پوچھا کہ یہاں اسلام کی تعلیم اور مطالعہ کا بھی کوئی شعبہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں مستقل ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں اس وقت ۳۹ پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ جبکہ ایک اور موقع پر وہ سعودی عرب گئے اور ایک بڑی یونیورسٹی میں انہوں نے پوچھ لیا کہ کیا اس یونیورسٹی میں ’’یہودیت‘‘ کے مطالعہ اور تعلیم کا بھی کوئی بندوبست ہے؟ تو جواب ملا کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ، اس طرح کے ربش کام کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔

یہ صرف سعودی عرب کی بات نہیں، دوسرے مسلم ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ خود پاکستان میں یونیورسٹیوں اور اعلیٰ دینی اداروں کی صورت حال پر نظر ڈال لیں، ہم پوری دنیا کے کفر کے ساتھ لڑنے کے لیے ہر وقت شمشیر بکف نظر آتے ہیں لیکن کسی کفر کی ماہیت اور اس کی حامل اقوام کے حالات سے آگاہی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ قومی سطح پر ہماری سب سے بڑی دشمنی ہندو اور یہودی کے ساتھ ہے۔ کسی محب وطن پاکستانی مسلمان کو کرید لیں اس کی دشمنی کی ترجیحات میں یہ دو نام سرفہرست ہوں گے۔ لیکن ہندو ازم اور ہندو قوم کے مزاج و روایات، اسی طرح یہودیت اور یہودی قوم کے مزاج و نفسیات سے عام آدمی تو ایک طرف، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقوں میں بھی صحیح معلومات اور آگاہی رکھنے والے افراد کا تناسب بہت کم ہے۔

ہمارے ہاں دینی مدارس کے نصاب میں بھی تقابل ادیان کا موضوع شامل نہیں ہے۔ حالانکہ ایک عالم دین کے لیے ضروری ہے کہ اسے وقت کے مروجہ مذاہب کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل ہوں، اور وہ بین الاقوامی رجحانات اور اقوام کے مزاج و نفسیات اور کلچر سے بھی آگاہ ہو۔ مگر ہمیں تو اسلام کے داخلی فقہی مذاہب یعنی شافعی، حنبلی، اور مالکی گروہوں کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اسلام سے باہر کے دوسرے مذاہب کے بارے میں کیا آگاہی حاصل کریں گے؟ کچھ عرصہ قبل دینی تعلیم کی بعض اعلیٰ اور معیاری درسگاہوں میں تخصص (پی ایچ ڈی) کے شعبے قائم ہوئے تو خوشی ہوئی کہ ہمارے تعلیمی اور تحقیقی موضوعات کا دائرہ کچھ وسیع ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے ان اداروں میں تخصص کے موضوعات بھی ہمارے روایتی دائرے تک محدود ہیں اور کم از کم میری معلومات کی حد تک کسی دارالعلوم یا دینی جامعہ میں ابھی تک تقابل ادیان یا کسی دوسرے مذہب کی تحقیق و مطالعہ کو تخصیص کا موضوع نہیں بنایا گیا۔ یہی حال یونیورسٹیوں کا ہے کہ وہاں اسلامیات کے شعبے قائم ہیں اور بعض کلاسوں کے نصاب میں تقابل ادیان کے موضوعات بھی شامل ہیں لیکن ان کی معلومات سرسری اور سطحی نوعیت کی ہوتی ہیں جو مذاہب سے بنیادی واقفیت کے تقاضے بھی پورے نہیں کرتیں۔

ہم اپنے ایٹمی دھماکوں پر بہت خوش ہیں اور خوش ہونا بھی چاہیے کہ پاکستان نے دنیا کی پہلی مسلم ایٹمی طاقت کی حیثیت حاصل کر کے عالم اسلام کی قیادت کی طرف عملی قدم بڑھایا ہے۔ لیکن قیادت صرف قوت کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی اصل اساس علم اور اخلاق پر ہوتی ہے۔ جب تک ہم علم و تحقیق اور اخلاقیات کے تقاضے پورے کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں کرتے، صرف ایٹمی قوت کے بل بوتے پر اپنی برتری کا خواب پورا نہیں کر سکتے۔

   
2016ء سے
Flag Counter