دو ہفتے قبل جب میں لندن پہنچا تو مولانا مفتی عبد المنتقم سلہٹی سے بنگلہ دیش میں دینی حلقوں کی اس احتجاجی مہم کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں جو عبوری حکومت کی طرف سے منظور کیے جانے والے ایک مسودہ قانون کے خلاف جاری ہے اور ایمرجنسی کے باوجود ہزاروں لوگ علماء کرام کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ مسودہ قانون عبوری حکومت نے ملک میں نفاذ کے لیے منظور کیا ہے لیکن ابھی نافذ نہیں ہوا، اس میں وراثت کے قانون میں ترمیم کر کے باپ کی وراثت میں لڑکی اور لڑکے کو برابر حصے کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ دینی جماعتیں اور ان کے ساتھ عوام کی ایک بڑی تعداد اسے قرآن کریم کے صریح حکم کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
لندن میں بھی بنگلہ دیش کی مختلف جماعتوں نے ’’بنگلہ دیشی مسلمز‘‘ کے عنوان سے ایک مشترکہ فورم قائم کر لیا ہے اور احتجاجی مہم کو منظم کر رہے ہیں۔ مولانا مفتی عبد المنتقم کا تعلق سلہٹ سے ہے، دارالعلوم کورنگی کراچی کے فضلاء میں سے ہیں، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی پڑھتے رہے ہیں، ابراہیم کمیونٹی کالج وائٹ چیپل لندن کے شعبہ افتاء میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ہمارے ساتھ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے سرگرم عمل ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ ایک نشست ہو جائے اور اس احتجاجی مہم کے حوالے سے ہم باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی طریق کار تجویز کر لیں۔ چنانچہ ۳۱ مئی کو ایسٹ لندن کی مرکزی جامع مسجد میں، جو وائٹ چیپل میں ہے اور لندن میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، عصر کے بعد بنگلہ دیشی مسلمز کے راہنماؤں کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی۔ اس میں ہمارے ساتھ ورلڈ اسلامک فورم کے نائب صدر مولانا سلمان ندوی بھی شریک ہوئے جو دارالرشاد میرپور ڈھاکہ کے پرنسپل ہیں۔ سرکردہ علماء کرام اور دینی رہنماؤں کے ساتھ اس مشاورتی نشست میں راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
وراثت میں مرد اور عورت کے حصے کو مساوی قرار دینے کے جس مسودہ قانون کے خلاف آپ حضرات بنگلہ دیش میں احتجاج کر رہے ہیں، یہ ایک جزوی مسئلہ ہے اور اس عالمگیر عمومی مہم کا حصہ ہے جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے تحت دنیا بھر میں مردوں اور عورتوں کے درمیان ہر معاملہ میں مساوات قائم کرنے اور عورتوں کے بارے میں امتیازی قوانین کو ہر ملک میں ختم کرانے کے لیے جاری ہے۔ چونکہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ میں مردوں اور عورتوں کے درمیان بہت سے معاملات میں احکام و قوانین کے حوالے سے امتیاز موجود ہے، اور ان امتیازی قوانین کو مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کے منافی قرار دے کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، اس لیے یہ صرف بنگلہ دیش کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ اور دوسرے بہت سے مسلم ممالک کی طرح ہمیں پاکستان میں بھی ایک عرصہ سے اسی صورتحال کا سامنا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے بارے میں قرآن و سنت کے امتیازی احکام و ضوابط کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر انہیں تبدیل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ بلکہ ہمارے بہت سے دانشور قرآن و سنت کے اس نوعیت کے احکام و قوانین کی نت نئی تعبیرات سامنے لا کر انہیں مردوں اور عورتوں میں مساوات کے مغربی فکر و فلسفہ اور انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن و سنت میں مردوں اور عورتوں کے بارے میں الگ الگ احکام و قوانین موجود ہیں، جنہیں امتیازی قوانین قرار دیا جا رہا ہے، تو ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں کہ یہ موجود ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہم ان پر پورے شرح صدر کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں اور قرآن و سنت کے صریح احکام میں کسی ردوبدل کو قبول کرنے کے لیے نہ ہم تیار ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ چند روز قبل ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان امتیازی قوانین و احکام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے دریافت کیا کہ کیا مرد اور عورت کے درمیان مختلف حوالوں سے امتیاز فی الواقع موجود ہے یا نہیں؟ فرمانے لگے کہ وہ تو موجود ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جب امتیاز موجود ہے تو امتیازی قوانین کی ضرورت سے آپ کیسے انکار کر سکتے ہیں؟ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے مرد اور عورت کے درمیان موجود فطری امتیاز کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے مطابق دونوں کے لیے ضرورت کے مقامات پر الگ الگ احکامات دیے ہیں جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔
مگر اس سے ہٹ کر آپ حضرات کو اس ساری مہم کے پس منظر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس کشمکش کا اصل سرچشمہ کہاں ہے۔ کیونکہ اسے سامنے رکھے بغیر نہ آپ حضرات کا کوئی احتجاج موثر ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں ہم اپنے موقف کو صحیح طور پر دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں۔ جو بین الاقوامی حلقے مسلم ممالک میں عورتوں کے بارے میں امتیازی قوانین کو ختم کرنے پر زور دے رہے ہیں اور اس کے لیے مسلسل دباؤ بڑھاتے چلے جا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے جس چارٹر میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات قائم کرنے اور امتیازی قوانین ختم کرنے کو تمام اقوام و ممالک کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، اس پر تمام ممالک نے اتفاق کا اعلان کر رکھا ہے اور تمام حکومتوں نے دستخط کیے ہوئے ہیں، اس لیے اس بین الاقوامی معاہدہ پر دستخط کرنے والے تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی پاسداری کریں اور اپنے قوانین کو اس کے مطابق بنائیں۔
میں اس چارٹر کی دو حصوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ چارٹر کی تمہید میں کہا گیا ہے:
’’تمام رکن اقوام نے اقوام متحدہ کے چارٹر میں بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخصیت کی حرمت و وقار اور مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں اپنے عقیدہ کی دوبارہ تصدیق کر دی ہے۔‘‘
جبکہ اسی تمہید کے آخر میں کہا گیا ہے:
’’انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصول مقصد کا مشترک معیار ہوگا۔ تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ اس منشور کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تبلیغ کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی کارروائیوں کے ذریعے رکن ملکوں میں اور قوموں میں جو رکن ممالک کے ماتحت ہوں، منوانے کی بتدریج کوشش کر سکے۔‘‘
اس طرح انسانی حقوق کے اس چارٹر کے مطابق مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات اقوام عالم کے لیے عقیدہ کا درجہ رکھتی ہیں، یہ چارٹر ہی تمام اقوام و ممالک کے لیے حصول مقصد کا مشترکہ معیار ہے، اور قومی اور بین الاقوامی کاروائیوں کے ذریعے اسے تمام اقوام و ممالک سے منظور کرانا ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کا یہ چارٹر جنرل اسمبلی نے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو منظور کیا تھا اور اس کے بعد سے ایک بین الاقوامی میثاق اور معاہدہ کے طور پر نافذ العمل ہے۔ جبکہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۷۹ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازی قوانین کے خاتمے کا معاہدہ کے عنوان سے ایک اور بین الاقوامی میثاق کی منظوری دی جو تیس دفعات پر مشتمل ہے اور اقوام متحدہ کے ضوابط کے مطابق تمام رکن ممالک پر اس کی پابندی لازم ہے۔ اس کی دفعہ نمبر ۱ میں عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین کی وضاحت یوں کی گئی ہے:
’’جنس کی بنیاد پر کوئی ایسا سلوک، امتناع، پابندی یا تفریق روا نہیں رکھی جا سکتی جو مردوں کے ساتھ برابری کی بنا پر اور ازدواجی حیثیت سے قطع نظر عورتوں کو حاصل ایسے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے حصول اور ان سے استفادہ کرنے پر اثر انداز ہو، یا سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی، شہری یا کسی بھی شعبہ حیات میں عورتوں کے استحقاق کی نفی کرے، یا ان کی بجا آوری میں رکاوٹ کا باعث بنے۔‘‘
جبکہ اسی دفعہ میں تمام رکن ممالک کی حکومتوں کو اس کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ مردوں اور عورتوں کے مساوات کے اس اصول کو اپنے دستور و قانون کا حصہ بنائیں اور اگر کوئی قانون، ضابطہ، رسم و رواج یا روایت اس کے خلاف ان کے ملک میں موجود ہے تو اسے ختم کرنے کے لیے قانون سازی کریں۔
یہ دو بین الاقوامی معاہدے ہیں جن کی پاسداری اور ان پر عملدرآمد کا بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے مسلمان حکومتوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اور جو مسلمان حکومتیں اس بین الاقوامی مطالبہ اور دباؤ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتیں وہ جب موقع ملتا ہے ان معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے اسلامی احکامات میں ترامیم کی طرف کوئی نہ کوئی پیش رفت کر ڈالتی ہیں۔
آپ حضرات اہل علم ہیں اس لیے اگرچہ آپ سے الگ طور پر یہ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن میں اس اصولی گزارش کو اس گفتگو کا حصہ بنانا چاہتا ہوں اس لیے یہ عرض کر رہا ہوں کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین کے خاتمہ کے ان دو بین الاقوامی میثاقوں میں جو کچھ کہا گیا ہے اور جن باتوں پر اتفاق کیا گیا ہے، ضروری نہیں ہے کہ ہم ان سب باتوں کو رد کر دیں، اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ہم سب باتوں کو قبول کریں۔ کیونکہ ہمارے یعنی دینی حلقوں کے موقف کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے اس لیے جو باتیں قرآن و سنت کے صریح احکام سے متصادم نہیں ہیں اور اجتہادی اصولوں کے مطابق ہمارے لیے ان کو قبول کرنے کی گنجائش موجود ہے، ہمیں انہیں قبول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن دو باتیں ہم کسی صورت میں قبول نہیں کر سکتے۔ وہ یہ کہ
- مرد اور عورت کی جسمانی ساخت، ذہنی و عملی صلاحیتوں اور قوتِ کار میں جو تنوع اور فرق فطری طور پر موجود ہے، اسے ختم کر کے مساوات کا مصنوعی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
- قرآن و سنت کے جن صریح احکام و قوانین میں مردوں اور عورتوں کے حوالہ سے فرق اور امتیاز موجود ہے، انہیں کسی بھی طرح ترامیم اور تغیرات کا ہدف بنایا جائے۔
ان دو باتوں کے علاوہ ہم ہر وہ چیز قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جن پر اقوام عالم اتفاق کرتی ہیں۔ اس لیے میں بنگلہ دیش کے علماء کرام اور دینی حلقوں کی اس جدوجہد میں پاکستان کے دینی حلقوں بالخصوص پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے مکمل یکجہتی او رہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی طرف سے وراثت میں مرد اور عورت کے حصوں کو برابر قرار دینے کے اس مسودہ قانون کے خلاف ضرور احتجاج کیجئے اور اسے رکوانے کی ہرممکن کوشش کیجئے، اس میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن اس جنگ کا اصل مورچہ یہ نہیں ہے، اس محاذ آرائی کا اصل میدان بین الاقوامی فورم ہے اور مسلمانوں کے دینی حلقوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر اور عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین ختم کرنے کے معاہدہ کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کے بارے میں اپنا دوٹوک موقف علمی بنیاد پر منطق و استدلال کے ساتھ واضح کریں اور بتائیں کہ قرآن و سنت کے مسلمات کی رو سے کون سی بات قابل قبول ہے اور کس بات کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
پھر اس کے بعد مغربی ممالک بالخصوص لندن میں موجود مسلم اداروں اور حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موقف کو بین الاقوامی حلقوں تک پہنچائیں، انہیں ان دونوں معاہدات کے بارے میں مسلمانوں کے تحفظات سے آگاہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمان حکومتوں اور اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ اقوام متحدہ کے فورم پر اس مسئلہ کو مضبوطی کے ساتھ اٹھائیں اور ان معاہدات پر نظر ثانی کے لیے عالمی سطح پر دباؤ کو منظم کریں۔ صرف مسلمان حکومتوں کے خلاف احتجاج کرتے رہنا کافی نہیں ہوگا، ہمیں ان کی مجبوریوں کو بھی سمجھنا ہوگا اور ان کے خلاف بین الاقوامی دباؤ کی نوعیت اور مراکز سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے اس سطح پر بھی بریفنگ، لابنگ او ردباؤ کو منظم کرنا ہوگا۔ اور میرے خیال میں لندن میں موجود مسلمانوں کے علمی و دینی ادارے اس سلسلہ میں سب سے زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس نشست کی صدارت ایسٹ لندن سنٹرل مسجد کے خطیب فضیلۃ الشیخ مولانا عبد القیوم نے کی اور اپنے صدارتی کلمات میں انہوں نے راقم الحروف کی گزارشات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بنگلہ دیش کے علماء کرام اور دینی قیات تک یہ پیغام پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے۔