کراچی کے حالات اور مولانا مفتی تقی عثمانی

   
تاریخ : 
۳ ستمبر ۲۰۱۱ء

۲۸ اگست کو پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی اور مولانا حافظ گلزار احمد آزاد کے ہمراہ جلال پور بھٹیاں ضلع حافظ آباد میں سکھیلی روڈ پر واقع گاؤں مگھوکی میں ایک نئی مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شمولیت کے بعد اس گاؤں میں ایک پرانے بزرگ حکیم حاجی محمد یوسف صاحب سے ملاقات ہوئی جو حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں پڑھتے رہے ہیں۔ میں ان سے متعارف نہیں تھا، ان کا پیغام ملا کہ گاؤں آرہے ہو تو مسجد میں ملاقات کے لیے ضرور آنا۔ وہ اپنی مسجد میں معتکف تھے اور وہاں کم و بیش ستر سال سے امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے دورِ طالب علمی کے واقعات کا ذکر کیا اور بتایا کہ میں ان دنوں مدرسہ انوار العلوم میں حضرت مولانا عبد القدیر کامل پوریؒ کے پاس پڑھتا تھا جب آپ کے والد صاحبؒ اور چچا محترمؒ دورۂ حدیث کے لیے دارالعلوم دیوبند گئے تھے۔ خاصے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود حکیم صاحب کی صحت ماشاء اللہ اچھی ہے، اللہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔

واپسی پر راستے میں ہی لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری سے فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ کیا مولانا مفتی تقی عثمانی کراچی سے ہجرت کر کے بیرون ملک چلے گئے ہیں؟ میں نے تعجب اور حیرت سے پوچھا کہ آپ کو کس نے کہا ہے؟ فرمانے لگے کہ ایک معروف کالم نویس نے اپنے کالم میں اس کا ذکر کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میرے لیے یہ خبر نئی ہے اور مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، تحقیق کر کے ہی بتا سکتا ہوں۔ ہمارے پاس الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک فاضل مولانا حافظ محمد رشید تدریسی خدمات سرانجام دیتے ہیں، میں نے فوری طور پر انہیں فون کر کے صورتحال معلوم کرنے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے بتایا کہ یہ بات غلط ہے، حضرت مفتی صاحب چند روز قبل اپنے معمول کے ایک دورے پر بیرون ملک گئے تھے اب واپس آگئے ہیں اور معمول کے کاموں میں مصروف ہیں۔

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بیرون ملک جاتے ہی رہتے ہیں اور ان کے سفرناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا ان کی جولانگاہ ہے اور دنیا کے کم و بیش ہر خطے میں دین حق کا پیغام پہنچانے اور علم کی روشنی پھیلانے کے لیے وقتاً فوقتاً سفر کرتے رہتے ہیں۔ مگر ان کا اردن کا ایک ہفتے کا یہ سفر اس غلط فہمی کا باعث بن گیا کہ وہ شاید کراچی سے ہجرت کر گئے ہیں اور کسی بیرون ملک میں قیام کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس غلط فہمی کا خاص پس منظر یہ ہے کہ کراچی کے حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں اور حالات کی اصلاح کے لیے مفتی صاحب نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے سرکردہ علماء کرام کے ساتھ گزشتہ دنوں ایک مہم کا آغاز کیا تھا جس پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور مفتی صاحب اور ان کے رفقاء کے خلاف تند و تیز بیان دیا جس پر ملک بھر کے دینی حلقوں کی طرف سے احتجاج اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

کراچی والوں کو الطاف حسین کے اس لہجے کے بیانات کا مطلب اور نتیجہ معلوم ہے اس لیے اس کے فورًا بعد مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بیرون ملک روانہ ہوئے تو لوگوں میں یہ بات پھیل گئی کہ ماضی میں الطاف حسین کے اس نوعیت کے بیانات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے مفتی صاحب نے اس کی رینج سے باہر نکل جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ عام لوگوں کا یہ تاثر غلط ثابت ہوا ہے اور حضرت مفتی صاحب اپنے معمول کے غیر ملکی دورے سے واپس پہنچ کر دارالعلوم کراچی میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں اور ان کے علوم و فیوض اور حکمت و دانش سے اہل پاکستان اور اہل کراچی کو زیادہ دیر تک مستفید ہونے کی توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

جہاں تک الطاف حسین کی سیاست اور اہداف کا تعلق ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ اور جو باتیں اب تک نجی محفلوں میں زیرلب ہوتی رہی ہیں ذوالفقار مرزا نے انہیں عوامی زبان دے دی ہے، اس کے بعد اب اس سلسلہ میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ اور ان اہداف کے ساتھ سیاست کرنے والوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ ہر شریف آدمی کی پگڑی اچھالیں، سچ بولنے والے ہر شخص کو ٹارگٹ بنائیں اور ملک و قوم کے ساتھ محبت رکھنے والے اور ان کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ہر شخص کی تحقیر کریں۔ قرآن کریم نے سورۃ النمل کی آیت ۳۴ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ بادشاہ جب کسی بستی میں تسلط کے لیے داخل ہوتے ہیں تو وہاں فساد پھیلاتے ہیں اور بستی کے عزت والے لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں۔ کراچی میں بھی ایک عرصے سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ کام بادشاہ لوگ بستی میں داخل ہونے کے بعد کیا کرتے تھے مگر اب نئے فارمولے کے تحت بستی میں داخل ہونے سے پہلے ہی اس پر تسلط جمانے کے لیے کر رہے ہیں جبکہ بستی کے اندر انہیں اپنے ہم ذوق لوگوں کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل ہے۔

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں اہل علم کے قافلہ سالار ہیں۔ علم و تحقیق کی دنیا میں اور خاص طور پر جدید مسائل و مشکلات کا اسلامی شریعت کی روشنی میں حل تلاش کرنے اور امت مسلمہ کی راہنمائی کرنے کے حوالے سے انہیں سند کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ اپنے دور میں پاکستان کے مفتیٔ اعظم تھے اور ان کے اس مقام کو ہر طبقے میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ میں نے کئی بار اپنے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو دیکھا ہے کہ علمی اور تحقیقی مسائل میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ سے رجوع کرنے کے لیے کہا کرتے تھے اور کسی مسئلہ پر انہیں کوئی اشکال ہوتا تو خود بھی حضرت مفتی صاحبؒ کے فتویٰ پر عمل کرتے تھے۔ میرا حال بھی یہی ہے کہ بعض مسائل میں اشکال ہوتا ہے، الگ سے رائے بھی قائم ہو جاتی ہے، مگر جامعہ دارالعلوم کراچی اور خاص طور پر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا حوالہ آجائے تو الگ رائے اور اشکال کے باوجود عمل کے لیے اسی کو ترجیح دیتا ہوں۔

میرا اپنا میدان ملک میں نفاذِ اسلام کا محاذ ہے اور اسلامائزیشن کے عملی اور فکری تقاضے گزشتہ نصف صدی سے میرا موضوع گفتگو ہیں، میں یہ بات کسی تکلف کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں اسلامائزیشن کے مختلف شعبوں میں علمی اور تحقیقی محاذ پر جو کام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کیا ہے شاید بہت سے ادارے مل کر بھی وہ کام نہیں کر پائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت ہے اور مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کے حسن تربیت اور دعاؤں کا ثمرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جامعہ دارالعلوم کراچی، حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور ان کے رفقاء کار کی حفاظت فرمائیں اور صحت و عافیت کے ساتھ دین، ملک اور قوم کی خدمت جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter