دینی مدارس کا مقدمہ عوام کی عدالت میں

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۷ جون ۲۰۲۳ء

(۷ جون ۲۰۲۳ء کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر مولانا عبدالرزاق کی زیر صدارت علماء کرام کے اجتماع سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مدارس کے اساتذہ، منتظمین، معاونین اور طلباء سب کو اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ خیر مسلسل جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ دینی مدارس کو جو مشکلات درپیش ہیں، انتظامی، مالی اور معاشرتی حوالوں سے، آج انہیں ایک ترتیب کے ساتھ دہراؤں گا کہ ہماری جدوجہد کیا ہے، مسائل کیا درپیش ہیں اور تقاضے کیا ہیں؟

نصابِ تعلیم کا معاملہ

دینی مدارس ۱۸۵۷ء کے بعد قائم ہوئے، جب انگریزوں نے اس پورے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور سارا نظام بدل دیا تھا۔ اس سے پہلے یہاں درس نظامی کا نصاب پڑھایا جاتا تھا، اس میں دینی علوم بھی تھے، اور جنہیں ہم عصری علوم کہتے ہیں وہ بھی تھے۔ قرآن مجید، حدیثِ رسول، فقہ و قانون، عربی اور فارسی کے ساتھ ریاضی، طب، سائنس، فلکیات اور جغرافیہ بھی پڑھایا جاتا تھا۔ یعنی آج جو مضامین کالج اور مدارس دونوں میں پڑھائے جاتے ہیں وہ اکٹھے کر لیں تو وہ اُس دور کا درسِ نظامی بنتا ہے جو مدارس میں پڑھایا جاتا تھا۔ جب انگریزوں نے یہاں قبضہ کیا تو انہوں نے ملک کا نظام اور قانون بدل دیا۔ اس سے پہلے یہاں فقہ اور شریعت نافذ تھی، اسے بدل کر وہ انگریزی قانون لے آئے۔ سرکاری زبان فارسی تھی، اسے بدل کر وہ انگریزی زبان لے آئے۔ جس سے نظامِ تعلیم بھی بدل گیا۔ قرآن مجید، حدیث رسول، فقہ و قانون، عربی اور فارسی زبان سب نصاب سے نکال دیے گئے۔ اس پر ہمارے بزرگوں نے سوچا کہ سرکار یہ مضامین نہیں پڑھائے گی، تو ہم پڑھا لیتے ہیں۔ دینی مدارس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ انگریزوں نے اس پورے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد جو چار پانچ مضامین نصاب سے نکال دیے تھے وہ پڑھانے کے لیے مدرسے بنے۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا، وہ اپنے مضامین سکول و کالج میں پڑھاتے رہے، ہم اپنے مضامین دینی مدارس میں پڑھاتے رہے، اس کی ایک پوری تاریخ ہے۔

جب پاکستان بنا تو یہ تقاضہ ہوا کہ دونوں کو اکٹھا ہونا چاہیے، لیکن اکٹھے نہیں ہو سکے، نہ اب ہو رہے ہیں اور نہ شاید کبھی اکٹھے ہوں۔ کیونکہ اکٹھے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں سے الگ ہوئے تھے وہاں واپس چلے جائیں۔ نصاب تعلیم سے جو مضامین نکالنے سے الگ ہوئے تھے، اگر ریاستی نظام تعلیم میں انہیں شامل کر لیا جاتا تو معاملہ نمٹ جاتا۔ قرآن مجید ترجمہ تفسیر کے ساتھ، حدیث رسول، فقہ و قانون بطور علم، اور عربی زبان شامل کر لی جاتی۔ چلیں فارسی زبان پر ہم سمجھوتہ کر لیتے کہ اس کی بجائے انگریزی پڑھ لیں۔ یہ اکٹھا کرنے کی تجویز مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے پیش کی تھی، لیکن یہ تجویز نہیں مانی گئی۔ بلکہ اکٹھا ہونے کا مطلب یہ نکالا گیا کہ دینی مدارس اپنا الگ تشخص ختم کر کے غیر مشروط طور پر سرکاری نظام میں شامل ہو جائیں، آگے سرکار کی مرضی جو وہ چاہے پڑھائیں۔ یہ صورتحال دینی مدارس کے لیے قابل قبول نہیں تھی اور نہ اب قابل قبول ہے۔

پھر یہ کہا گیا کہ مدارس میں بھی سکول کی تعلیم دیں۔ مدارس نے آہستہ آہستہ یہ بات قبول کر لی اور میٹرک کو لازم قرار دیا گیا۔ اب مدارس میں یہ ماحول ہے کہ وہ میٹرک پاس طالبعلم لیتے ہیں یا مدارس میں میٹرک کراتے ہیں۔ میٹرک بنیادی تعلیم ہے۔ اس کے بعد تقاضا ہے کہ آگے بھی کچھ کریں۔ اس پر میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ بنیادی تعلیم ایک ہوتی ہے، اس کے بعد تقسیم کار ہوتی ہے۔ میٹرک کے بعد آپ کے ہاں بھی طالب علم کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ انجینئر بنے، سائنسدان، ڈاکٹر یا وکیل بنے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ بھی اسی تقسیم کا حصہ ہے کہ میٹرک کے بعد جو سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھنا چاہے وہ کالج چلا جائے اور جو دینی تعلیم حاصل کرنا چاہے وہ مدرسے میں آ جائے۔ لیکن پھر یہ مطالبہ کہ تم یہ سب کچھ بھی ضرور پڑھاؤ، تو یہ ناجائز مطالبہ ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب ایک طالب علم میٹرک کرنے کے بعد ٹیکنالوجی کالج میں جاتا ہے تو اس سے کسی نے تقاضا کیا ہے کہ تم قانون بھی پڑھو؟ کسی میڈیکل کالج والے سے کسی نے تقاضا کیا ہے کہ تم انجینئرنگ بھی پڑھو؟ انجینئرنگ کے طالب علم سے کسی نے تقاضہ کیا ہے کہ میڈیکل بھی پڑھو؟ یہ تقسیم کار ہے۔ یہ کہنا کہ تم دین کے ساتھ میڈیکل بھی پڑھو، ایسے ہی ہے جیسے میڈیکل کے طالب علم کو کہیں کہ ڈاکٹری کے ساتھ وکالت بھی پڑھو۔ یا جیسے وکیل کو کہا جائے کہ وکالت کے ساتھ انجینئرنگ بھی پڑھو۔ یہ بات اڑی ہوئی ہے۔ یہ اصول کے خلاف بات ہے کہ بیسک ایجوکیشن کے بعد تقسیم کار میں کسی ایک شعبے کو پابند کیا نہ جائے کہ دوسرا شعبہ بھی پڑھائے۔

سرکاری نظم قبول کرنے کے لیے دباؤ

دینی مدارس سے یہ تقاضہ چلا آ رہا ہے کہ آپ سرکار کا نظم قبول کریں۔ محکمہ اوقاف اور محکمہ تعلیم کو قبول کریں۔ اس پر میں عرض کرتا ہوں کہ ہم نے یہ کیا تھا، صدر ایوب خان کے زمانے میں تجربے کے لیے کچھ مدارس محکمہ تعلیم اور کچھ محکمہ اوقاف کو دے دیے تھے، ہم نے ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ لیکن وہ مدارس آج کہاں ہیں؟ جامعہ عباسیہ بہاولپور کا بہت بڑا مدرسہ ہم نے حوالے کیا تھا۔ مدرسہ رحیمیہ نیلا گنبد لاہور، جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ سمیت بیسیوں مدارس اوقاف کو دیے تھے، وہ مدارس آج کہاں ہیں؟ میرا یہ مطالبہ ہوگا کہ ایک کمیشن قائم کیا جائے، گورنمنٹ قائم کرے یا وفاق قائم کریں کہ جو مدارس ایوب خان کے زمانے میں محکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف کے حوالے کیے گئے تھے، ان مدارس کا سراغ لگایا جائے کہ وہ کہاں ہیں؟ ان کا سروے کروایا جائے اور رپورٹ لائی جائے کہ ان کا کیا حشر ہوا؟ اس کے بعد ہم سے اگلی بات کی جائے۔ ہم ایک دفعہ بھگت چکے ہیں لہٰذا ہم وہ تجربات دہرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ’’لا یلدغ المومن من جحر واحد مرتین‘‘ آدمی ایک دفعہ ایک سوراخ سے ڈسا جائے تو دوبارہ اس میں انگلی نہیں دیتا۔

اس مقصد کے لیے بین الاقوامی دباؤ ہے کہ دینی مدارس کو کنٹرول کرو، انہیں سرکاری تحویل میں لو۔ دینی مدارس اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب مدارس حکومت سے مراعات، تنخواہیں، بلڈنگیں اور سہولیات نہیں مانگ رہے، تو حکومت کیوں یہ مطالبہ کرتی ہے؟ ہمارا عوام کے ساتھ تعلق ہے، وہ مدارس پر اعتماد کرتے ہیں اور تعاون کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مدارس کے ساتھ تعاون کرنے والے اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ کیا جرنیلوں، بیوروکریٹس اور ایم این ایز نے اپنے اثاثے ظاہر کر دیے ہیں؟ اثاثے ظاہر کرنے کا قانون صرف مدارس کے معاونین کے لیے ہے؟ اس ساری پلاننگ کا مقصد یہ ہے کہ مدرسہ کسی طریقے سے بند ہو جائے، اس کے معاونین تعاون چھوڑ دیں، کوئی حوصلہ افزائی نہ کرے، کوئی تعاون نہ کرے۔ لیکن ’’ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین‘‘۔ جوں جوں مخالفت ہو رہی ہے خود دیکھ لیں کہ مدارس کم ہو رہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں؟ ان شاء اللہ بڑھتے رہیں گے۔ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ جناب! آپ کا چیک اپ کا نظام کیا ہے؟ میں نے کہا بہت سادہ سا نظام ہے۔ ایک آدمی نے مدرسہ کو ایک لاکھ روپیہ دیا تو وہ دیکھتا ہے کہ اگر سال میں مدرسہ میں کچھ کام ہوا ہو تو اگلے سال وہ مدرسہ کے ساتھ تعاون کرتا ہے ورنہ تعاون نہیں کرتا۔ اس سے بڑا چیک اپ کا نظام کیا ہوگا؟ اس کو اعتماد ہوگا تو اگلے سال ڈیڑھ لاکھ دے گا۔ اعتماد نہیں ہوگا تو ایک لاکھ بھی نہیں دے گا۔ لوگ اعتماد کی وجہ سے مدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ یہ جانچ کا قدرتی نظام ہے۔

رجسٹریشن کا معاملہ

ایک عرصہ سے ہمیں رجسٹریشن کا مسئلہ درپیش ہے۔ جو مدارس رجسٹر تھے وہ لسٹ میں اب بھی موجود ہیں۔ تقریباً نوے فیصد مدارس رجسٹر تھے۔ اس کے بعد رجسٹریشن بند کر دی گئی کہ نئے سسٹم سے رجسٹریشن کریں گے۔ مگر نیا سسٹم طے نہیں ہو رہا اور پرانے کے تحت رجسٹریشن نہیں ہو رہی تو کیا اہل مدارس نے دلی، نیپال یا تہران میں جا کر رجسٹریشن کروانی ہے؟ وفاقوں اور محکمہ تعلیم اور محکمہ داخلہ کے درمیان سالہا سال سے مذاکرات جاری ہیں۔ آپ کیوں فیصلہ نہیں کر رہے؟ ہم نے رجسٹریشن کسی سرکاری محکمے کے تحت ہی کرنی ہے تو طے کرو۔ نظم آپ نہیں طے کر رہے اور نزلہ مدارس پر گر رہا ہے۔ نظم قائم ہونے میں رکاوٹ کون ہے؟ پرانی رجسٹریشن آپ نے مسترد اور منسوخ کر دی ہے، نئی آپ ہونے نہیں دے رہے اور الزام مدارس پر کہ یہ رجسٹر نہیں ہیں۔

اس پس منظر میں پچھلے چند سال میں دو مسئلے کھڑے ہوئے۔ ایک مسئلہ یہ کہ نیا اوقاف ایکٹ نافذ ہو گیا جس میں اوقاف کے قوانین تبدیل کر دیے گئے۔ وہ قوانین جو نافذ ہوئے ان میں سے بہت سے قوانین واضح طور پر شریعت کے خلاف ہیں، بعض قوانین شہری حقوق کے خلاف اور بعض دستورِ پاکستان کے خلاف ہیں۔ اس پر مدارس کے حکومت سے مذاکرات ہوئے جس میں طے پایا کہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم متبادل ترمیم شدہ مسودہ دیں گے، اس کے مطابق نئی قانون سازی کی جائے گی۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مسودہ لکھ کر دیا جو کہ سرکار کی میز پر پڑا ہے۔ اس کے مطابق قانون سازی نہیں ہو رہی اور یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ جو ہم نے کہہ دیا ہے وہی کرو۔ جب آپس میں بیٹھ کر طے ہو گیا ہے کہ نیا مسودہ بنے گا، جب مسودہ بن گیا ہے تو قانون سازی کون نہیں کر رہا؟

نئے اوقاف ایکٹ میں تمام اختیارات ڈی سی اور اوقاف کے پاس ہیں۔ تین چار مسجدوں کے جھگڑے میرے سامنے ہیں کہ متوازی انتظامیہ کھڑی کر کے متوازی رجسٹریشنیں کی گئیں اور جھگڑے کھڑے کیے گئے۔ اسلام آباد کی ایک بہت بڑی مسجد میں بھی یہ معاملہ ہوا کہ کچھ نمازیوں کو اکسا کر متوازی جماعت بنائی گئی، مسجد رجسٹر کی گئی اور اوقاف نے مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ جس پر اسلام آباد کے علماء اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے یہ نہیں ہونے دیا۔ گوجرانوالہ میں ایک مسجد میں متوازی انتظامیہ بنائی گئی، اوقاف نے اسے قبول کر لیا لیکن ہم نے کہا کہ یہ نہیں ہوگا، اور نہیں ہوا۔

سوال یہ ہے کہ ایک بات آپس میں طے ہو گئی تھی کہ نظرثانی ہو گی، قانون سازی ہوگی اور تجویزیں مولانا مفتی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی لکھ کر دیں گے۔ انہوں نے لکھ کر دے دی ہیں، اعلان ہو گیا ہے، سرکار کے ریکارڈ میں ہیں، لیکن سرکار ان پر عملدرآمد نہیں کر رہی۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے ساتھ ایک بہت بڑا فراڈ کیا گیا۔ آج سے تین چار سال پہلے دینی مدارس اور محکمہ تعلیم کے درمیان طے پایا تھا کہ کوئی دینی مدرسہ کسی وفاق میں ہے اور محکمہ تعلیم میں بھی رجسٹر ہونا چاہتا ہے تو ہو سکتا ہے۔ اس پر اتفاق ہو گیا، اس میں یہ طے ہوا کہ اس کا طریقہ کار طے کیا جائے گا اور اس طریقہ کار کے مطابق رجسٹریشن ہو گی۔ لیکن محکمہ تعلیم کے ساتھ وفاقوں کا کسی مدرسے کی رجسٹریشن کا طریقہ کار ابھی تک طے نہیں ہوا۔ چاہے وہ جس کی بھی غلطی ہے، وفاقوں کی ہے یا گورنمنٹ کی، بہرحال اس کا طریقہ کار ابھی تک طے نہیں ہوا۔ اور طریقہ کار طے ہوئے بغیر محکمہ تعلیم کے بقول پندرہ ہزار مدارس رجسٹر ہو گئے ہیں۔ وفاق ان کے متعلق کہتے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر رجسٹر کیے گئے ہیں۔ تو میرا مدارس، وفاقوں اور محکمہ تعلیم تینوں سے سوال ہے کہ ابھی جو رجسٹریشنیں ہو رہی ہیں، کل اگر محکمہ تعلیم اور وفاقوں کی پالیسیوں میں کہیں تضاد آگیا، جو عین ممکن ہے کہ آسکتا ہے، تو یہ مدارس کدھر جائیں گے؟ اِدھر جائیں گے، اُدھر جائیں گے، یا درمیان میں لٹکے رہیں گے؟ میرے خیال میں مدارس کو کنفیوژن میں ڈالنے کے لیے ہی یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے، میں دوٹوک بات عرض کر رہا ہوں۔ وفاق کہتا ہے کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، اور محکمہ تعلیم کہتا ہے کہ ہم نے رجسٹر کر لیے ہیں، تو کس قانون اور ضابطے کے تحت رجسٹر کر لیے؟ یہ مدارس کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ محکمہ تعلیم کا مقصد یہ لگتا ہے کہ جب معاملہ گڑبڑ ہوگا اور مدارس کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اِدھر جانا ہے یا اُدھر جانا ہے تو دو چار ہزار مدارس تو ہمارے پاس آئیں گے۔

اگلی ستم کی بات یہ ہے کہ کسی مدرسے کو محکمہ تعلیم میں رجسٹر کرنے کے لیے صرف ایک درخواست کافی ہے۔ نہ وفاق کی تصدیق ضروری ہے، نہ ضلعی اور مقامی انتظامیہ کی تصدیق ضروری ہے۔ مدرسہ میں پہلے انتظامیہ موجود ہے یا نہیں، یہ تصدیق بھی ضروری نہیں ہے۔ صرف ایک سادہ فارم بھر کے دو چار آدمی وہاں جمع کرا دیں کہ ہم فلاں مدرسے کے منتظمین ہیں ہمیں رجسٹر کیا جائے، تو محکمہ تعلیم یہ نہیں دیکھتا کہ یہ اس کے منتظم ہیں یا نہیں، اور وفاق والے اور مقامی انتظامیہ کیا کہتی ہے۔ بس فارم اور فیس لے کر رجسٹر کر دیا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا محکمہ تعلیم مدارس میں خلفشار اور جھگڑے کھڑے کرنا چاہتا ہے۔ چار مدارس میرے ضلع میں ایسے ہیں کہ رجسٹر کروانے والوں کا ان مدارس کے ساتھ کوئی عملی تعلق نہیں ہے، جبکہ محکمہ تعلیم نے ان کی انتظامیہ رجسٹر کر رکھی ہے۔ انہوں نے محکمہ تعلیم کو درخواست دی، محکمہ تعلیم نے ان کو منتظم تسلیم کر لیا، اور انہوں نے جھگڑا کھڑا کیا ہوا ہے۔ مدرسہ انوار العلوم، مدرسہ انوار القرآن، مدرسہ فیض الاسلام تتلے عالی، اور مدرسہ قاسم العلوم ساروکی۔ یہ چار مدرسے تو ضلع گوجرانوالہ کے ہیں۔ آپ بھی تفتیش کریں آپ کو بھی پتا چل جائے گا۔ یہ میں نے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے موجودہ صورتحال عرض کی ہے۔

قربانی کی کھالوں کا معاملہ

اس وقت ایک اور مسئلہ درپیش ہے، قربانی کا موسم آ رہا ہے تو کیا مدارس کو کھالیں وصول کرنے کی اجازت ہوگی؟ سرکار سے اجازت لیے بغیر وہ کھالیں وصول نہیں کر سکتے۔ اگر اجازت لے کر کھالیں وصول کر بھی لیں گے تو ان کھالوں کی قیمت کیا لگے گی؟ کیا یہ ڈرامہ نہیں ہے؟ مطلب یہ کہ ایک آدمی زکوٰۃ دے رہا ہے تو پہلے ڈپٹی کمشنر صاحب سے پوچھے کہ زکوٰۃ دوں یا نہیں۔ کوئی اپنی جیب سے صدقہ کر رہا ہے تو ڈی سی سے اجازت لینے کا پابند ہے؟ ڈی سی صاحب کا صدقہ سے کیا تعلق؟ میں کڑوی کڑوی باتیں کر رہا ہوں لیکن مجبور ہوں۔ اس لیے بھی کر رہا ہوں کہ کوئی اور یہ باتیں نہیں کر رہا۔ قربانی کی کھال کسی کو بھی ہدیہ کی جا سکتی ہے۔ جب کسی پڑوسی کو دینے کے لیے ڈی سی کی اجازت ضروری نہیں ہے تو مدرسے کو دینے کے لیے اجازت لینا کیوں ضروری ہے؟ چلیں ڈی سی محترم نے اجازت مرحمت فرما دی کہ مدرسہ کھالیں اکٹھی کر سکتا ہے۔ تو سارا سال کھال کا جو ریٹ رہتا ہے، قربانی کے دنوں میں وہ ریٹ کیوں نہیں ہوتا؟ یہ پلاننگ کون کرتا ہے کہ مدرسے کو اگر قربانی کی کھال مل بھی جائے تو اسے پیسے نہ ملیں؟

یہ باتیں عرض کرنے کے بعد میری دونوں فریقوں سے گزارش ہے:

  • میری ایک درخواست دینی مدارس کے وفاقوں سے ہے کہ آپ بھی کوئی واضح حکمت عملی طے کریں۔ مدارس کے تحفظ کے لیے وفاقوں کی قیادت کو عملی کام کرنا چاہیے، کم از کم اپنا موقف تو واضح کریں۔
  • جبکہ حکومت سے میرا دو ٹوک مطالبہ یہ ہے کہ اوقاف ایکٹ پر شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے جو ترامیم تجویز کر کے حوالے کی ہیں وہ اسمبلی میں لائی جائیں اور ان کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ حکومت سے میری دوسری گزارش یہ ہے کہ وفاقوں کو اعتماد میں لیے بغیر محکمہ تعلیم نے جو مدارس رجسٹر کیے ہیں، ان پر نظرثانی کی جائے اور نظرثانی وفاقوں کی قیادت کے ساتھ مل کر اور انہیں اعتماد میں لے کر کی جائے۔ اور جو متوازی انجمنیں بنی ہیں ان کو ختم کیا جائے کہ ان سے مدارس میں خلفشار پیدا ہو رہا ہے۔ یہ میرے دو تین مطالبات ہیں۔ میں نے مجبور ہو کر اپنا دردِ دل آپ کے سامنے رکھا ہے۔
  • شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات
2016ء سے
Flag Counter