فہمِ قرآن کریم کے تقاضوں کے حوالے سے ان دنوں دو علمی حلقوں میں ایک دلچسپ بحث جاری ہے۔ ایک طرف غلام احمد پرویز صاحب کا ماہنامہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ ہے اور دوسری طرف جاوید احمد غامدی صاحب کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب ہیں۔ طلوعِ اسلام کے ماہِ رواں کے شمارے میں خورشید ندیم صاحب کا ایک مضمون، جس میں انہوں نے پرویز صاحب کی فکر پر تنقید کی ہے، شائع ہوا ہے۔ اور اس کے جواب میں ادارہ طلوعِ اسلام کی طرف سے ایک تفصیلی مضمون بھی اسی شمارے میں شاملِ اشاعت ہے۔
ہمیں ان مضامین کی باقی تفصیلات سے زیادہ دلچسپی نہیں، البتہ ایک پہلو خاص طور پر قابلِ توجہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ
- خورشید ندیم صاحب نے غلام احمد پرویز کی فکر پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ وہ قرآن کریم کو صرف لغت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اور قرآن کریم کے مختلف الفاظ کے لغوی معانی اور ان کے پس منظر کو کھنگال کر ان کا مفہوم متعین کرتے ہیں، جس سے لغوی تحقیق اور بحث تو ضرور سامنے آتی ہے لیکن قرآن کریم کی منشا اور مراد تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔
- اس کے جواب میں طلوعِ اسلام نے خورشید احمد ندیم صاحب کے استاذ محترم جناب جاوید احمد غامدی کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ قرآن کو جاہلی دور کے عربی ادب اور شعر و شاعری کے ذخیرے کی بنیاد پر سمجھنا چاہتے ہیں، اور ادبِ جاہلی کی روایات کے حوالے سے قرآن کریم کا مفہوم طے کرنے کے درپے ہیں، جس سے قرآن کریم کی منشا اور مراد کی صحیح طور پر وضاحت نہیں ہو پاتی۔
گزشتہ روز میرے پاس اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے دو دوست بیٹھے اس مکالمے پر گفتگو کر رہے تھے، اس گفتگو میں راقم الحروف بھی ان کے ساتھ شریک تھا۔ میں نے گزارش کی کہ میرے نزدیک دونوں درست بات کر رہے ہیں۔ جو بات خورشید ندیم نے غلام احمد پرویز کے بارے میں کہی ہے میں اسے بھی صحیح سمجھتا ہوں، اور جو تبصرہ طلوعِ اسلام نے غامدی صاحب کی فکر پر کیا ہے وہ بھی خلافِ واقعہ نہیں ہے۔ جہاں تک فہمِ قرآن کریم کے بنیادی تقاضوں کا تعلق ہے، اگرچہ لغت اور ادبِ جاہلی دونوں اس کی ضروریات میں سے ہیں، لیکن فہمِ قرآن کریم کا انحصار ان دونوں پر، یا ان میں سے کسی ایک پر نہیں ہے۔ یہ دونوں صرف معاون ہیں اور فہمِ قرآن تک رسائی کے ذرائع میں سے ہیں۔ لیکن اس کی اصل بنیاد جس چیز پر ہے، اسے دونوں حضرات فہمِ قرآن کریم کی بنیاد کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
صرف قرآن کریم کے لیے نہیں، بلکہ دنیا کے کسی بھی کلام کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس زبان کی لغت سے واقفیت حاصل کی جائے جس میں وہ کلام کیا گیا ہے۔ جب تک کسی لفظ کی لغوی ساخت اور پس منظر سامنے نہ ہو، اس کا صحیح مفہوم سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کلام جس دور میں سامنے آیا ہے اس دور کے حوالے سے اس زبان کے ادب، اس کے محاوروں، اور دیگر ضروری امور پر بھی نظر ہو۔ کیونکہ ایک ہی زبان کے محاورے، ضرب الامثال، اور الفاظ کے استعمال کے دائرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مفہوم میں تنوع اور تغیر پیدا ہوتا رہتا ہے۔ قرآن کریم کے ترجمے ہی کے حوالے سے حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ کے ترجمے کو سامنے رکھ لیا جائے جو تمام اردو تراجم کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، تو اس کے بہت سے الفاظ، جملے اور محاورے اس دور کے اردو ادب سے واقفیت کے بغیر سمجھنا مشکل ہو جاتے ہیں۔ کلام کو سمجھنے کے لیے لغت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی اس زبان کے ادب و شعر کے ذخیرے کو غیر ضروری قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ خود متکلم کی منشا تک رسائی حاصل کی جائے کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے کیا کہنا چاہتا ہے؟ اور جو لفظ یا جملہ اس نے کلام میں استعمال کیا ہے، خود اس کے نزدیک اس کا مفہوم اور مدعا کیا ہے؟ اگر کسی کلام کے متکلم تک رسائی میسر ہو اور اس کے کلام کے کسی حصے کے بارے میں اس کی منشا اور مراد سے آگاہی حاصل کی جا سکتی ہو، تو لغت اور محاورہ دونوں کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے، اور کلام کا وہی مفہوم صحیح قرار پاتا ہے جو متکلم کی طرف سے سامنے آ گیا ہو۔
مگر بدقسمتی سے پرویز صاحب اور غامدی صاحب دونوں کے نزدیک متکلم کی منشا تک رسائی کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہے، اور دونوں اپنے اپنے اسلوبِ تحقیق کے مطابق جس مفہوم تک پہنچ جاتے ہیں اس کے بارے میں ان کا اصرار ہوتا ہے کہ اسے متکلم یعنی اللہ تعالیٰ کی منشا تصور کیا جائے اور اسی کو قرآن کریم کا صحیح مفہوم قرار دیا جائے۔ جبکہ جمہور علمائے امت کے نزدیک، جن کے اسلوبِ تحقیق کو دونوں حضرات ’’روایتی‘‘ قرار دے کر رد کر دیتے ہیں، فہمِ قرآن کریم کے لیے سب سے زیادہ اہم اور بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کریم کے کسی ارشاد کا مفہوم متعین کرنے کے لیے متکلم کی منشا تک رسائی کی کوشش کی جائے۔ اور وہ کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے، یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ تک ہماری رسائی نہیں ہے، اور قرآن کریم کے کسی لفظ یا جملے کے بارے میں ہم اللہ رب العزت سے یہ دریافت نہیں کر سکتے کہ اس سے آپ کی مراد کیا ہے؟ یا اس کے جو مختلف مفہوم سمجھے جا رہے ہیں ان میں سے کون سا مفہوم آپ کی منشا سے زیادہ قریب ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ کے نمائندہ تک تو ہمیں رسائی حاصل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جس نمائندہ نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم کا متن عطا فرمایا ہے اسی نمائندہ نے اس کی تشریح بھی کی ہے، اور اس کے اکثر و بیشتر مقامات کی وضاحت بھی اپنے ارشادات، اعمال اور اسوۂ حسنہ کے ذریعے کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ نمائندہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے جن کے بارے میں ’’رسول اللہ‘‘ کا جملہ بولتے ہی ہم ان کی یہ اتھارٹی تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہیں، جن کا مشن ہی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچائیں اور اس کی وضاحت کر کے ہمیں اللہ تعالیٰ کی منشا سے آگاہ کریں۔
ہم یہ بات آج تک نہیں سمجھ پائے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا نمائندہ تسلیم کر لینے، اور قرآن کریم کا متن ہم تک پہنچانے میں مجاز اتھارٹی کے طور پر قبول کر لینے کے بعد، اسی قرآن کریم کی تعبیر و تشریح میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ کو حتمی معیار تسلیم کرنے میں آخر کیا رکاوٹ ہے؟ جبکہ قرآن کریم امت تک جن ذرائع سے پہنچا ہے، وہی ذرائع اس کی تشریح میں جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات و فرمودات کو ہم تک منتقل کر رہے ہیں۔ اگر وہ ذرائع قرآن کریم کو امت تک منتقل کرنے میں قابلِ اعتماد ہیں، تو حدیث و سنت کو امت تک پہنچانے میں کیوں قابلِ اعتماد نہیں ہیں؟ اور اگر وہ حدیث و سنت کی روایت میں خدانخواستہ قابلِ اعتماد نہیں ہیں، تو قرآن کریم کی روایت میں کس طرح قابل اعتماد ہو جاتے ہیں؟
ہمارے مہربان فرماتے ہیں کہ قرآن کریم چونکہ تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اس لیے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تواتر کن لوگوں کا ہے اور کون سے افراد اس تواتر میں شامل ہیں؟ کیا یہ تواتر احادیث و سنن روایت کرنے والوں سے الگ لوگوں کا ہے؟ اور اگر یہ وہی لوگ ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اکٹھے ہوں تو اعتبار اور اعتماد کی سند سے بہرہ ور ہوتے ہیں، اور الگ الگ ہو جائیں تو اس سند سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ گورکھ دھندہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
پرویز صاحب اور غامدی صاحب دونوں اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ حدیثِ نبویؐ کو قرآن کریم کی حتمی تشریح کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ کسی حدیث کو ان کی ’’عقلِ عام‘‘ نے قرآن کریم کے موافق قرار دے دیا تو وہ قابلِ قبول ہے، اور اگر کسی حدیث کے بارے میں ان کی عقل یہ کہہ دے کہ وہ قرآن کریم سے متصادم ہے تو وہ مسترد ہو جائے گی۔ یہ ایک الگ گورکھ دھندہ ہے کہ جو حدیث قرآن کریم کے مطابق ہو گی وہ قابل قبول ہو گی، اور جو قرآن کریم سے متصادم ہو گی وہ قبولیت کا شرف حاصل نہیں کر سکے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں حدیث قرآن کریم سے متصادم ہے اور فلاں حدیث متصادم نہیں ہے؟ ایک حدیث کو پرویز صاحب قرآن کریم سے متصادم سمجھتے ہیں مگر غامدی صاحب کے نزدیک وہ متصادم نہیں ہے۔ کسی اور حدیث کو غامدی صاحب قرآن کریم کے منافی قرار دے دیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ پرویز صاحب کے نزدیک قرآن سے متصادم نہ ہو۔ پھر بات صرف پرویز صاحب یا غامدی صاحب تک تو محدود نہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سے اربابِ دانش اپنے اپنے الگ اصول وضع کر کے اس میدان میں مصروف کار ہیں، ان کی اس فکری دھماچوکڑی سے قرآن کریم کو کون محفوظ رکھ سکے گا؟
ایک دوست نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ سب کو اپنی اپنی بات کرنے دو، جس کو امت قبول کرے گی وہی صحیح قرار پائے گا۔ میں نے گزارش کی کہ قرآن کریم کے جس مفہوم کو اور اس کی جس تعبیر و تشریح کو امت چودہ سو سال سے اجتماعی تعامل کی صورت میں قبول کیے ہوئے ہے، اس نے کیا قصور کیا ہے کہ اسے مسترد کر کے امت کو ازسرِنو اس جھنجھٹ میں ڈال دیا جائے۔ ہمارے خیال میں یہ سارے مسائل
- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت کو قرآن کریم کی تعبیر و تشریح کا سب سے بڑا معیار تسلیم نہ کرنے،
- اور قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح میں امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل کو رد کر دینے
کا فطری نتیجہ ہے، جس سے امت کے فکری خلفشار میں اضافہ تو ہوتا رہے گا، مگر اس طرز عمل سے امت کی صحیح سمت میں راہنمائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔