بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم اکثر ’’قراردادِمقاصد‘‘ کا لفظ سنتے رہتے ہیں اور اخبارات وغیرہ میں اس کے حق میں بھی اور اس کے خلاف بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ یہ قراردادِمقاصد کیا چیز ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟
متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارا ملک ہندوؤں سے الگ کیا جائے، ہم اکٹھے نہیں رہنا چاہتے۔الگ ملک بنانے کی غرض یہ بیان کی گئی ہیں کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں، ہمارا اپنا دین و مذہب ہے، اپنی تہذیب و ثقافت ہے اور ہم بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں، یہاں ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہوں گے تو ہم اپنے مذہب پر آزادی سے عمل نہیں کر سکیں گے، اس لیے جہاں ہماری اکثریت ہے وہاں ہم اپنا الگ ملک بنائیں گے۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے تحریکِ پاکستان کی قیادت کی تھی اور بارہا اعلان کیا تھا کہ ہم پاکستان اس لیے بنا رہے ہیں تاکہ اسلام کی بالا دستی، قرآن و سنت کی حکمرانی، شریعت کے قانون اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے مطابق اپنا نظام بنا سکیں۔ بالآخر کافی جدوجہد کے بعد پاکستان کے نام سے الگ ملک بن گیا۔
جب دستور بنانے کے لیے پہلی دستور ساز اسمبلی بنی تو اس میں یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا سیکولر ریاست ہے؟ اسلامی ریاست اس کو کہتے ہیں جہاں قرآن و سنت کی حکمرانی ہو اور اللہ و رسول کے احکام نافذ ہوں۔ زمین اللہ کی ہے اور خلقت بھی اللہ کی ہےتو نظام بھی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا چلے گا۔ جبکہ سیکولر کا معنی یہ ہے کہ جہاں مذہب کا کوئی دخل نہ ہو، لوگ اپنی مرضی سے ملک کا نظام اور قانون جو چاہیں بنا لیں۔ دستور ساز اسمبلی میں یہ جھگڑا کھڑا ہوا کہ ملک کا نظام سیکولر ہونا چاہیے یا اسلامی ہونا چاہیے؟ آزاد نظام ہونا چاہیے یا مذہبِ اسلام کے تابع ہونا چاہیے ؟ بہت سے حلقوں کی کوشش تھی کہ پاکستان سیکولر ریاست بنے جس میں مذہب کا کوئی حوالہ نہ ہو، ٹھیک ہے مسلمان رہیں لیکن ملک کے نظام کے ساتھ مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن علماء کرام اور دینی جماعتوں نے محنت کی اور کہا کہ ہم نے پاکستان بنایا ہی اس لیے تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اپنا مذہب ہے، تہذیب و ثقافت ہے، اسی کی حفاظت کے لیے تو الگ ملک بنایا تھا۔ چنانچہ دستور ساز اسمبلی کے اندر اور باہر بھی یہ بحث چلتی رہی۔
حسنِ اتفاق سے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ، جو ہمارے بزرگ عالم اور پاکستان کی تحریک کے بڑے قائد تھے، وہ دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے، مشرقی پاکستان سے منتخب ہو کر آئے تھے اورہر حلقے میں ان کا احترام پایا جاتا تھا۔ انہوں نے اسمبلی کے اندر جبکہ مختلف دینی جماعتوں نے اسمبلی سے باہر، جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے علاوہ اہل حدیث اور بریلوی علماء بھی تھے، سب نے محنت کی کہ ہم مذہب سے دستبردار نہیں ہوں گے اور ملک کا نظام اسلام کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ کشمکش چلتی رہی، اللہ رب العزت نے علماء کو کامیابی دی اور دستور ساز اسمبلی نے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کی جس میں بنیاد یہ طے ہو گئی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گا، سیکولر ریاست نہیں ہو گا ۔ اور یہ بنیاد اس طرح طے ہوئی کہ سیکولر اور جمہوری ریاستوں میں اصولاً حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی ہوتی ہے، جمہوریت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’عوام کی حکومت عوام پر عوام کے لیے‘‘ ۔ لیکن قراردادِمقاصد منظور کر کے پہلی بات یہ طے کی گئی کہ پاکستان میں دستوری طور پر حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی نہیں ، اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ حکومت کون کرے گا؟ جو بندے حکومت کریں گے وہ کدھر سے آئیں گے؟ حکومت اصل میں تو اللہ ہی کی ہے لیکن ملک کے صدر وزیراعظم کیسے بنیں گے؟ دنیا میں دو ہی طریقے ہوتے تھے (۱) جسے لوگ منتخب کر لیں (۲) یا جو طاقت کے زور سے قبضہ کر لے۔ اس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنیاد بنایا گیا کہ وہ طاقت کے طور پر خلیفہ نہیں بنے تھے، فوج کے ذریعہ قبضہ نہیں کیا تھا ، بلکہ لوگوں کی مشاورت سے خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ خلیفہ مہاجر ہونا چاہیے یا انصاری ہونا چاہیے، اس ساری بحث کے بعد امت کا اتفاق حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا تھا۔ پاکستان میں بھی یہی طریقہ اپنایا گیا کہ طاقت کے زور سے قبضہ ٹھیک نہیں ہے، حکومت عام لوگوں کا حق ہے وہ جسے چاہیں منتخب کریں۔
وزیر اعظم خان لیاقت علی خان مرحوم نے قرارداد پیش کی اور بڑی زبردست تقریر کی، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے بھی تقریر کی، حمایت اور مخالفت میں تقریریں ہوئیں، لیکن اسمبلی نے اکثریت کے ساتھ قرارداد پاس کی کہ پاکستان اسلامی ریاست ہو گی اور حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی جبکہ حکومت کا حق اس کو ہوگا جسے لوگ چنیں گے اور وہ حکومت قرآن و سنت کی پابند ہو گی۔ اسے قراردادِمقاصد کہتے ہیں جس کا متن یہ ہے:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کُل کائنات کا بلا شرکتِ غیر حاکمِ مطلق ہے، اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکتِ پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے، لہٰذا جمہورِ پاکستان کی نمائندہ یہ مجلس دستور ساز فیصلہ کرتی ہے کہ آزاد و خودمختار مملکتِ پاکستان کے لیے دستور مرتب کیا جائے:
جس کی رو سے مملکت کے جملہ حقوق و اختیاراتِ حکمرانی جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے سے استعمال کرے۔ جس میں اصولِ جمہوریت و حریت و مساوات و رواداری اور عدلِ عمرانی کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و متقضیات کے مطابق، جو قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ میں متعیّن ہیں، ترتیب دے سکیں۔
جس کی رو سے وہ علاقے جو فی الحال پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو گئے ہیں، اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاقیہ بنائیں، جس کے ارکان مقررہ حدودِ اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خودمختار ہوں۔
جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے۔ اور ان حقوق و اخلاقِ عامہ کے ماتحت مساواتِ حیثیت و مواقع؛ قانون کی نظر سے برابری؛ عمرانی، اقتصادی اور سیاسی عدل؛ خیال، اظہار، عقیدہ، دین، عبادت اور ارتباط کی آزادی شامل ہو۔
جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا وافی انتظام کیا جائے۔
جس کی رو سے نظامِ عدل کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو۔جس کی رو سے وفاقیہ کے علاقوں کی صیانت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا، جن میں اس کے بر و بحر اور فضائیہ پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔
تاکہ اہلِ پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں، اقوامِ عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امنِ عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی و بہبودی میں کماحقہٗ اضافہ کر سکیں۔‘‘
اس کے بعد یہ ہوا کہ قراردادِ مقاصد ملک کے ہر دستور میں بطور دیباچہ کے شامل رہی مگر یہ دستور کا حصہ نہیں تھی۔ جس طرح ہم کسی بھی جلسے میں برکت کے لیے ابتدا میں تلاوت کر لیتے ہیں، آگے عمل کریں یا نہ کریں ہماری مرضی ہے، اسی طرح برکت کے لیے اسے رکھا ہوا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے جب مارشل لاء لگایا اور سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں دستوری ترامیم کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے اپنے اختیار سے کچھ فائدے اٹھائے۔ ایک کام یہ کیا کہ قراردادِمقاصد کو تمہید سے نکال کر دستور کے اندر شامل کر دیا کہ یہ محض تبرک نہیں ہے بلکہ دستور کا واجب العمل حصہ ہو گی۔ اس سے ایک دروازہ ہم لوگوں کے لیے کھل گیا ہے کہ قراردادِمقاصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی بات کرتی ہےاور حکومت کو قرآن وسنت کا پابند کرتی ہے تو ملک کا جو قانون بھی قرآن و سنت کے منافی ہے ہم اسے دستور کی بنیاد پر چیلنج کر سکتے ہیں کہ اسے ختم کیا جائے۔ قرارداد مقاصد کے دستور کا باقاعدہ حصہ بننے سے ہمارا یہ حق بن گیا کہ خلافِ قرآن و سنت قوانین کو ہم سپریم کورٹ میں لے جائیں اور سپریم کورٹ انہیں ختم کرنے کی پابند ہوگی۔
چنانچہ ایک کیس میں پیش رفت ہوئی۔ صدر پاکستان کو قانوناً یہ اختیار ہے کہ کسی قاتل کو پھانسی کا حکم ہو جائے اور سپریم کورٹ سے اپیلیں مسترد ہو جائیں تو صدر اس کی سزا معاف کر سکتا ہے۔ جبکہ شرعی قانون یہ ہے کہ مقتول کے وارث اگر معاف نہ کریں اور قصاص لینا چاہیں تو کسی اور کو معافی کا اختیار نہیں ہے۔ اس بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ میں ایک کیس آیا۔ مقتول کے وارثوں نے صدر کے اختیار کو چیلنج کر دیا کہ ہمارے مقتول کے قاتل کو سزائے موت ہو گئی ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اپیل مسترد کر دی ہے تو صدر کہیں معاف نہ کر دے۔یہ کہہ کر لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا کہ صدر کا یہ اختیار روکا جائے کیونکہ یہ قرآن و سنت کے منافی ہے اور قراردادِمقاصد ضمانت دیتی ہے کہ حکومت قرآن و سنت کی پابند ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ چونکہ قراردادِمقاصد دستور کی بنیاد ہے اور اس میں قرآن و سنت کی پابندی کی ضمانت دی گئی ہے، اور قاتل کی پھانسی کو معاف کرنا مقتول کے وارثوں کے سوا کسی کا حق نہیں ہے، لہٰذا صدر کا یہ اختیار شریعت کے منافی ہے اس لیے اسے ختم کیا جاتا ہے۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گیا کہ یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب نسیم حسن شاہ صاحب تھے۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قراردادِمقاصد دستور کا حصہ تو ہے لیکن اگر یہ دستور کی کسی اور دفعہ سے ٹکراتی ہے تو کیا اسے بالادستی حاصل ہے؟ مثلاً صدر کا معافی کا اختیار بھی دستور میں ہے اور قراردادِ مقاصد بھی دستور میں ہے۔ چنانچہ یہ نکتہ زیر بحث آیا کہ دونوں کے ٹکراؤ کی صورت میں اگر قراردادِمقاصد کو بالادستی حاصل ہے پھر تو دوسری متصادم دفعہ ختم ہو جائے گی ، اور اگر دونوں برابر ہیں تو پھر اس سے فیصلہ نہیں ہو گااور کوئی تیسری طاقت فیصلہ کرے گی۔
اگر سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کر لیتی تو آج تقریباً اسی فیصد معاملات صاف ہوتے، لیکن سپریم کورٹ کے فل بینچ نے فیصلہ دیا کہ قراردادِمقاصد دستور کا حصہ ہے اور اس کی پابندی ضروری ہے لیکن اگر یہ دستور کی کسی اور دفعہ سے یہ ٹکرائے گی تو اس کو کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے، لہٰذا پھر فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی یا پارلیمنٹ کرے گی۔ اس سے ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ ہو گیا۔ اس پر تفصیل سے پڑھنا ہو تو ۱۹۹۴ء میں سپریم کورٹ کے وکیل سردار شیر عالم ایڈووکیٹ مرحوم نے اس پر تبصرہ لکھا تھا اور ہمارے ساتھی چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ صاحب نے اس کا ’’قرادادِ مقاصد بنام سپریم کورٹ آف پاکستان‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا جو اکادمی کی طرف سے شائع ہو چکا ہے۔
قراردادِمقاصد دستور کا حصہ ہے اور اگرچہ یہ بالادست نہیں ہے پھر بھی عالمی قوتوں کو اور دنیا کی طاقتوں کو یہ مسلسل چبھ رہی ہےکیونکہ یہ قرآن و سنت کی بات کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی بات کرتی ہے۔ عالمی سیکولر قوتیں اور ملک کے سیکولر حلقے سب سے زیادہ جس چیز کی مخالفت کر رہے ہیں وہ قراردادِمقاصد ہے، اس لیے کہ یہ پاکستان کے دستور کو اسلامی حیثیت دیتی ہے اور قرآن و سنت کے قوانین کی بات کرتی ہے۔
یہ قراداد مقاصد کا مختصر پس منظر اور موجودہ صورتحال ہے۔ اس وقت کشمکش یہ ہے کہ ملک کے تمام دینی حلقے اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ دستور کی اسلامی حیثیت برقرار رہے گی، جبکہ ملک اور بیرون ملک تمام سیکولر حلقے اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ کسی طریقے سے قراداد مقاصد کو سرنگوں کیا جائے تاکہ دستور کی اسلامی حیثیت اور پاکستان کی اسلامی شناخت ختم ہو اور ہم پھر زیرو پوائنٹ پر چلے جائیں کہ یہاں سیکولر نظام ہونا چاہیے یا اسلامی نظام ہونا چاہیے؟ یہ میں نے قراداد مقاصد کے حوالے سے مختصر گزارشات پیش کی ہیں، امید ہے اصولی بات سمجھ آ گئی ہو گی۔