طالبان کے اسلام کو انتہاپسندانہ قرار دیتے ہوئے صدر جنرل پرویز مشرف نے متعدد مواقع پر پاکستان کو جدید اور روشن خیال اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ صوبہ سرحد میں شریعت ایکٹ کی منظوری کے بعد اس حوالے سے ان کے اس لہجے اور ارشاد میں شدت آ گئی ہے کہ پاکستان میں انتہاپسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور پاکستان، حتٰی کہ صوبہ سرحد کے عوام بھی طالبان والے اسلام کو قبول نہیں کریں گے۔
آج کی صحبت میں ہم اس امر کا جائزہ لینا چاہیں گے کہ طالبان کے اسلام اور صدر پرویز مشرف سمیت ہمارے بہت سے رہنماؤں کے ذہنوں میں جس روشن خیال اور ترقی پسندانہ اسلام کا تصور موجود ہے، ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
جہاں تک طالبان کے اسلام کا تعلق ہے تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اسلام کے حوالے سے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کی، بلکہ جو اسلام انہوں نے کتابوں میں لکھا ہوا پایا اسے انہوں نے کسی رو رعایت کے بغیر اپنے ملک میں نافذ کر دیا:
- انہوں نے اگر معاشرتی جرائم کی شرعی سزاؤں مثلاً سنگسار کرنے، کوڑے مارنے، ہاتھ کاٹنے اور موت کی سزا دینے کے قوانین نافذ کیے تو ان میں کوئی قانون بھی ان کی ایجاد نہیں تھا بلکہ ان سب سزاؤں کا ذکر قرآن کریم اور سنتِ رسولؐ میں موجود ہے۔ یہ خلافتِ اسلامیہ کے دور میں کم و بیش ایک ہزار سال تک دنیا میں نافذ رہی ہیں اور اب بھی سعودی عرب میں نافذ ہیں۔
- طالبان نے اگر پردے کے احکام کا نفاذ کیا تو یہ بھی ان کی اختراع نہیں تھی بلکہ یہ احکام بھی قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کا صدیوں سے حصہ چلے آ رہے ہیں۔
- انہوں نے اگر افغانستان میں غیر مسلم مشنریوں کو تبلیغ سے روکا ہے تو یہ بھی ان کا کوئی نیا اقدام نہیں تھا بلکہ فقہ اسلامی میں یہ احکام پہلے سے موجود ہیں۔
غرضیکہ طالبان حکومت کے جن اقدامات کو بھی انتہاپسندانہ اسلام قرار دے کر رد کیا جا رہا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی قانون یا حکم ایسا نہیں ہے جو انہوں نے خود ایجاد کیا ہو، یا قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے ذخیرے میں پہلے سے موجود نہ ہو، بلکہ یہ صدیوں تک ملتِ اسلامیہ میں نافذ اور رائج نہ رہ چکا ہو۔
بعض احکام کی تعبیر و تشریح کے جزوی پہلوؤں، یا نفاذ کے طریق کار کے حوالے سے تو طالبان حکومت کی پالیسی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، اور متعدد امور میں ان کے دورِ حکومت میں ہم نے بھی کھلم کھلا ان سے اختلاف کیا ہے، لیکن ان کے نافذ کردہ اسلام کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ یہ ان کا کوئی الگ اور جداگانہ اسلام تھا، قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد بات ہے، کیونکہ انہوں نے کسی بھی حوالے سے کوئی نئی بات نہیں کی، بلکہ جو کچھ کتابوں میں یا خلافتِ اسلامیہ کے ادوارِ حکومت کے تعامل میں انہوں نے دیکھا، اسے بلا کم و کاست افغانستان میں نافذ کرنے کی کوشش کی۔ جس میں وہ صرف اس وجہ سے ناکام ہوئے کہ ’’قدیمی اور روایتی اسلام‘‘ دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے قابل برداشت نہیں تھا، اس لیے انہوں نے طاقت کے زور پر طالبان کی حکومت کو ختم کر دیا۔
اس کے برعکس روشن خیال اور ترقی پسندانہ اسلام کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، وہ سب کچھ نیا ہے۔ اور اسلام کی ترقی پسندانہ تعبیر و تشریح کا جو نقشہ پیش کیا جا رہا ہے، وہ سب ایسا ہے کہ قرآن و سنت کے روایتی ذخیرے اور ماضی کی اسلامی حکومتوں اور خلافتوں کے نافذ کردہ نظاموں میں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ مثلاً پاکستان کی نصف صدی کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیجئے کہ نفاذِ اسلام کے کون کون سے اقدامات اسلام کی قدیم اور جدید تعبیرات کے حوالے سے متنازع چلے آ رہے ہیں؟ اور کن احکام کو اب تک انتہاپسندانہ قرار دے کر ان کی نئی اور روشن خیالی پر مبنی تعبیر و تشریح کا تقاضا کیا جا رہا ہے؟
- سب سے بڑا مسئلہ ملک کے دستور اور نظام پر قرآن و سنت کی بالادستی تسلیم کرنے کا ہے۔ اور اس سلسلہ میں ہماری تاریخ یہ ہے کہ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ قرآن و سنت کی دستوری بالادستی کا اعلان کرتی ہے، لیکن سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر اس کی نفی کر دی ہے کہ قراردادِ مقاصد کو دستور کی دیگر دفعات پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی نے میاں نواز شریف کے دور میں جب قرآن کریم کو سپریم لاء قرار دینے کا بل منظور کیا تو اس کے ساتھ اس شرط کا اضافہ کر دیا کہ ’’بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہ ہو۔‘‘
- ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ملک کے معاشی نظام کو مغرب کے چنگل سے نجات دلانے اور سودی نظام کے خاتمے کا ہے، جس کے لیے سپریم کورٹ تک کا فیصلہ آ چکا ہے۔ لیکن ہماری روشن خیالی اور تجدد پسندی اس پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ہم نے سپریم کورٹ ہی سے دوبارہ اس رکاوٹ کو باقی رکھنے کے لیے ’’این او سی‘‘ حاصل کر لیا ہے۔
- شراب پر کئی بار پابندی لگی لیکن ہمارے حکمرانوں کی روشن خیالی نے ہر بار ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ کچھ ہی عرصہ بعد پھر سے اس پر پابندی کے اعلان سے صرفِ نظر کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔
- ہمارے ہاں جب بھی نماز کی پابندی اور سرکاری سطح پر اس کے اہتمام کی بات سامنے آئی، اسے ترقی پسندی اور روشن خیالی کے منافی سمجھا گیا۔ جیسا کہ حال ہی میں خود صدر پرویز مشرف بھی اسی قسم کے تاثرات کا اظہار کر چکے ہیں۔
- بے حیائی، رقص و سرود اور بدکاری کے فروغ کے خلاف دینی حلقوں کی آواز کو ہمیشہ شخصی آزادیوں پر حملہ قرار دیا گیا، اور اس پر انتہاپسندانہ اسلام کی پھبتی کس کر اسلام کی روشن خیال تعبیر کا رخ متعین کیا گیا۔ حتٰی کہ بے حیائی اور بدکاری کے اڈوں اور مراکز کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔
- آج ہماری بیشتر روشن خیال اور ترقی پسند این جی اوز کی قراردادوں، مطالبات اور تنقید کا سب سے بڑا ہدف وہ چند اقدامات ہیں جن میں توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے، جرائم کی قرآنی سزاؤں کے نفاذ، اور ریاست کو قرآن و سنت کے احکامات کا پابند بنانے کے اصولی فیصلے شامل ہیں، اور یہ سب اقدامات انتہاپسندانہ قرار دیے جا رہے ہیں۔
اس کی روشنی میں قارئین خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ روشن خیال اور ترقی پسندانہ اسلام کا آج کا تصور کیا ہے؟ ہم تو پاکستان کی نصف صدی کی تاریخ میں یہی سمجھ سکے ہیں کہ اگر
- اسلام کو ریاست کی ذمہ داریوں سے خارج قرار دے دیا جائے اور حکومت پر قرآن و سنت کے احکام کی پابندی اور نفاذ کی کوئی ذمہ داری نہ ڈالی جائے،
- سود کو جائز قرار دے دیا جائے اور پاکستان کو مغرب کے استحصالی معاشی نظام کے شکنجے سے نکالنے کی کوئی بات نہ کی جائے،
- نماز، روزے اور دیگر شرعی احکام کی پابندی پر زور نہ دیا جائے،
- رقص و سرود، عریانی، بے حیائی بلکہ بدکاری تک کے فروغ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے،
- تہذیب و معاشرے میں اسلامی روایات کی بحالی اور تحفظ کی بجائے مغرب کی پیروی کو ترجیح دی جائے
تو ہم روشن خیال اور ترقی پسند سمجھے جائیں گے، اور اسلام کی جدید اور عصر حاضر کی روح سے ہم آہنگ نئی تعبیر و تشریح کے علمبردار کہلائیں گے۔ لیکن اگر ہم ان باتوں کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اسلام کے حوالے سے انہی احکام و قوانین کے نفاذ پر زور دیں گے جو قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے ذخیرے میں گزشتہ چودہ سو برس سے تسلسل کے ساتھ موجود چلے آ رہے ہیں، تو ہم بنیاد پرست ہیں، انتہا پسند ہیں، دقیانوسی ہیں، طالبان کے پیروکار ہیں، اسی وجہ سے ’’گردن زدنی‘‘ بھی ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم ماضی کی طرف دیکھیں تو
- ہمیں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر اور مصطفٰی کمال اتاترک کی دو ہی مثالیں ایسی نظر آتی ہیں جنہوں نے روایتی اسلام کے دائروں کو ختم کیا۔ دونوں نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف اعلان کیا کہ وہ ماضی کے اسلام سے دامن چھڑا رہے ہیں اور ایک نیا فکر اور نظام پیش کر رہے ہیں۔
- مگر ہمارے روشن خیال اور ترقی پسند رہنما اسلام کا لیبل بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی ساری عملی باتوں سے ایک ایک کر کے پیچھا بھی چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس کی صرف ایک ہی مثال ماضی کی تاریخ میں نظر آتی ہے جس کا ذکر مولانا شبلی نعمانیؒ اور سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ کی دوسری جلد میں طائف کے قبیلہ ثقیفہ کے قبولِ اسلام کے حوالے سے کیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ فتح مکہ اور غزوۂ حنین کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا جو کئی روز جاری رہا مگر طائف فتح نہ ہو سکا اور نبی اکرمؐ محاصرہ اٹھا کر مدینہ منورہ واپس چلے گئے۔ اس کے بعد طائف والوں کا وفد عبدیالیل کی قیادت میں مدینہ منورہ آیا اور طائف والوں کی طرف سے قبولِ اسلام کی خواہش کا اظہار کیا مگر اس کے ساتھ کچھ شرطیں بھی بیان کیں کہ ان شرائط کے ساتھ ہم اہلِ طائف اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ شرائط ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہیں:
- زنا ہمارے لیے جائز رکھا جائے کیونکہ ہم میں سے اکثر مجرد رہتے ہیں۔
- اس قوم کا تمام کاروبار اور ذریعۂ معاش سود پر ہے اس لیے سود خوری جائز رکھی جائے۔
- شراب سے نہ روکا جائے کیونکہ ہمارے شہر میں کثرت سے انگور پیدا ہوتا ہے اور یہ ہماری بڑی تجارت ہے۔
سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تینوں شرطیں نامنظور کر دیں اور طائف والوں کو اپنی یہ شرائط واپس لینا پڑیں۔ اس کے بعد سید صاحبؒ لکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے نماز، زکوٰۃ اور جہاد سے مستثنٰی ہونے کی بھی درخواست کی۔ نماز سے معافی تو کسی حالت میں ممکن نہ تھی، وہ ہر روز پانچ دفعہ ادا کرنے کی چیز ہے۔ لیکن زکوٰۃ سال بھر کے بعد واجب ہوتی ہے، اور جہاد فرضِ کفایہ ہے، ہر شخص پر واجب نہیں ہے، اور واجب بھی ہو تو اس کے خاص مواقع ہیں، روز کا کام نہیں۔ اس بنا پر اس وقت ان دونوں باتوں پر ان کو مجبور نہیں کیا گیا، کیونکہ معلوم تھا کہ جب وہ اسلام قبول کر لیں گے تو رفتہ رفتہ ان میں صلاحیت آ جائے گی۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میں نے اس واقعہ کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ جب یہ ایمان لا چکیں گے تو زکوٰۃ بھی دینے لگیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور زنا، شراب، سود اور نماز کے احکام سے مستثنٰی قرار دیے جانے کی درخواست نامنظور ہو جانے کے بعد اہلِ طائف نے جب غیر مشروط طور پر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو پھر ان کے اسلام میں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ والوں کے اسلام میں کوئی فرق نہیں تھا، اور وہ بھی خود کو اسلام کے ان تمام احکام کا پابند سمجھتے تھے جن کی پابندی باقی ملتِ اسلامیہ کے لیے ضروری سمجھی جاتی تھی۔
اس لیے ہم اپنے روشن خیال اور ترقی پسند دوستوں سے گزارش کریں گے کہ اگر وہ اسلام کا لیبل قائم رکھنا ضروری سمجھتے ہیں تو اس کے لیے انہیں اسلامی احکام و قوانین کا وہی ڈھانچہ قبول کرنا ہو گا جو قرآن و سنت اور فقہ اسلامی کے ذخیرے میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ جن احکام و قوانین پر امتِ مسلمہ گزشتہ چودہ سو برس سے عمل کرتی چلی آ رہی ہے اور جن احکام و قوانین پر آج بھی ملتِ اسلامیہ کی غالب اکثریت بے لچک ایمان رکھتی ہے۔ اور اگر اسلامی احکام و قوانین کا یہ ڈھانچہ ان کے لیے قابلِ قبول نہیں تو پھر جلال الدین اکبر اور مصطفٰی کمال اتاترک کی طرح جرأت و حوصلہ کے ساتھ اس سے کھلم کھلا دستبرداری کا اعلان کریں۔ طائف والوں کی طرح شرطیں پیش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اس لیے کہ یہ شرطیں نہ تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کی تھیں اور نہ ہی آج ان کی امت ان شرائط کے ساتھ کسی نظام کو اسلام قرار دینے کے لیے تیار ہو گی۔