ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد وہاں کی مذہبی قیادت مسلسل اس بات کا تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اہل تشیع کو جن انتہاپسندانہ عقائد کا حامل ٹھہرایا جاتا ہے، ایران کے انقلابی مذہبی راہنما اس سے بری ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ وہ اعتدال پسندانہ مذہبی عقائد و رجحانات رکھتے ہیں بلکہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اتحاد اور مفاہمت کے بھی علمبردار ہیں۔
چنانچہ ۱۹۸۷ء میں راقم الحروف کو پاکستانی علماء اور دانشوروں کے ایک وفد کے ہمراہ ایران کی وزارتِ مذہبی امور کی دعوت پر تہران جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ہمارے لیے ایک محفل بطور خاص اس امر کے اظہار کے لیے سجائی گئی کہ قرآن کریم پر ایمان کا اظہار کیا جائے، اور اس الزام کے ازالہ کی کوشش کی جائے کہ اہل تشیع قرآن کریم کو تحریف شدہ قرار دیتے ہیں۔ اس محفل میں مقتدر ایرانی راہنما جناب آیت اللہ خز علی نے قرآن کریم پر ایمان اور اس کے غیر محرف ہونے پر مفصل خطاب کیا۔ جس پر ہمارے وفد میں شامل مولانا منظور احمد چنیوٹی کے ساتھ ان کا ہلکا پھلکا مناظرہ بھی ہو گیا۔
مگر ان تمام کوششوں کے باوجود اپنے مذہبی عقائد و رجحانات کو چھپانے میں اسے (ایرانی قیادت کو) کبھی کامیابی نہیں ہوئی، کیونکہ دل کی بات کسی نہ کسی طرح سامنے آ ہی جاتی ہے اور اسے زیادہ دیر تک مخفی رکھنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ اس کی ایک مثال چند روز قبل تہران میں ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ روزنامہ پاکستان لاہور نے ۶ اپریل ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں ’’عید غدیر‘‘ کے عنوان سے تہران میں منعقد ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کی تصویر شائع کی ہے جس کا منظر یہ ہے کہ ایران کے مذہبی پیشوا جناب آیت اللہ خامنہ ای اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں، جبکہ اسٹیج پر ایران کے موجودہ صدر جناب محمد خاتمی اور سابق صدر جناب ہاشمی رفسنجانی کے ہمراہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بیٹھے ہیں، اور ایران کی اس اعلیٰ ترین قیادت کے سروں پر ایک بینر لٹک رہا ہے جس کی عبارت یہ ہے:
’’الحمد للہ الذی جعل کمال دینہ و تمام نعمتہ بولایۃ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام۔‘‘
یہ دراصل قرآن کریم کی اس معروف آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ میں نے آج تمہارے لیے دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ہے۔ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے اور وحئ الٰہی مکمل ہونے کی خوشخبری ہے۔ اور اس امر کا اعلان ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جس وحی کا آغاز ہوا تھا، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ مکمل ہو گئی ہے اور آسمانی ہدایات کی نعمت پوری ہو گئی ہے۔ مگر مذکورہ بینر کی عبارت یہ کہہ رہی ہے کہ وحی کی تکمیل اور دین کی نعمت کا اتمام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ اس کی تکمیل اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ولایت کے ساتھ ہوئی ہے۔
ہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ولایت کے قائل ہیں، انہیں امام الاولیاء مانتے ہیں اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ لیکن وحئ الٰہی اور دین کی تکمیل کے ساتھ ان کی ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ وحی اور دین کی تکمیل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ساتھ ہو گئی ہے۔ اور اس کے بعد کسی بھی اور بزرگ یا شخصیت کی طرف اس کو منسوب کرنا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و ختم نبوت کو نعوذ باللہ نامکمل قرار دینے کے مترادف ہے۔ اور اسی سے ایران کی مذہبی قیادت کی ان کوششوں کی حقیقت سمجھی جا سکتی ہے جو وہ خود کو اعتدال پسند ظاہر کرنے اور عالم اسلام کی قیادت کے لیے آگے لانے کے لیے کر رہی ہے۔