بخاری اور مسلم کی روایت کے مطابق ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب کسی طرف سے بادل نمودار ہوتے، گھٹا اٹھتی اور بارش کے آثار نظر آتے تو اسے دیکھتے ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر ہو جاتا، آپ پر بے چینی اور اضطراب کی کیفیت نظر آنے لگتی، آپ اٹھ کر ٹہلنے لگتے اور مسلسل دعا فرماتے کہ یا اللہ! اس میں ہمارے لیے خیر ہو اور اس بادل کے شر سے ہمیں محفوظ رکھنا۔ ام المومنینؓ کہتی ہیں کہ ایک روز میں نے پوچھ لیا کہ یا رسول اللہ! بادلوں کے آثار دیکھ کر باقی لوگ خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہو گی، موسم خوشگوار ہوگا اور سبزہ اگے گا، مگر آپ پر اضطراب اور بے چینی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بادل نمودار ہوتے ہیں تو میرے دل میں دھڑکا لگ جاتا ہے کہ کہیں اس میں قومِ عاد کی طرح عذاب چھپا ہوا نہ ہو، اس لیے بے چین ہو جاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا مانگنے لگتا ہوں، اور جب خیریت کے ساتھ برس جاتا ہے تو مجھے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
قومِ عاد کے اس عذاب کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ یہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی جس نے اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبرؑ کی نہ صرف تکذیب کی بلکہ ان کا مذاق اڑایا اور استہزا کیا، جس پر پہلے یہ قوم خشک سالی کے عذاب کا شکار ہوئی اور کئی برسوں تک بارش کو ترستی رہی۔ حضرت ہود علیہ السلام نے بہت سمجھایا کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور اپنی اصلاح کرو، اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائیں گے (ہود ۵۲) مگر قوم کی سرکشی میں کوئی فرق نہ آیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی تعلیمات اور دعوت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی عیش پرستی میں مگن رہی۔ اسی دوران ایک روز آسمان پر بادل نمودار ہوئے اور گھٹا چھائی تو ساری قوم خوشی سے ناچتی ہوئی باہر نکل آئی مگر جب بادل آندھی کی شکل میں بڑھے تو وہ بارانِ رحمت نہیں بلکہ عذابِ خداوندی ثابت ہوئے۔
سورۃ الاحقاف کی آیت ۲۴ میں اس کا ذکر ہے اور اس کی تشریح میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں کہ
’’سات رات اور آٹھ دن مسلسل ہوا کا وہ غضبناک طوفان چلا جس کے سامنے درخت، آدمی اور جانوروں کی حقیقت تنکوں سے زیادہ نہ تھی۔ ہر چیز ہوا نے اکھاڑ پھینکی اور چاروں طرف تباہی نازل ہو گئی، آخر مکانوں کے کھنڈرات کے سوا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ دیکھ لیا! اللہ کے مجرموں کا حال یہ ہوتا ہے۔ چاہیے کہ ان واقعات کو سن کر ہوش میں آؤ، ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہو سکتا ہے۔‘‘
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل اور گھٹا کو دیکھتے تو یہ واقعہ ذہن میں آ جاتا اور بے چینی کے عالم میں اس دعا میں مصروف ہو جاتے کہ یا اللہ! اس بادل کے خیر سے ہمیں نفع دینا اور اس کے شر سے ہمیں محفوظ رکھنا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں جس روز طوفانی بارش ہوئی میں اس روز اسلام آباد میں ہی تھا۔ ایک روز قبل لنگرکسی مری میں پاکستان شریعت کونسل کا ’’نفاذِ شریعت کنونشن‘‘ تھا جس میں مشترکہ دینی مقاصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے دینی جماعتوں کے ساتھ رابطے کرنے کا فیصلہ ہوا، اور نو ستمبر کو لاہور میں ’’قومی دینی کنونشن‘‘ منعقد کرنے کا پروگرام طے پایا۔ رابطوں کا آغاز اکوڑہ خٹک سے کرنے کی تجویز ہوئی اور بائیس جولائی کو صبح نماز فجر کے بعد مولانا فداء الرحمٰن درخواستی، مولانا ڈاکٹر سیف الرحمٰن ارائیں، مولانا عبدالخالق اور راقم الحروف پر مشتمل پاکستان شریعت کونسل کا وفد اسلام آباد روانہ ہو کر اکوڑہ خٹک پہنچا۔ جمعیت علماء اسلام (س) کے قائد مولانا سمیع الحق، مولانا قاضی عبد اللطیف، مولانا سید یوسف شاہ اور دیگر علماء کرام کے ہمراہ ہمارے منتظر تھے۔ ناشتہ ان کے ساتھ کیا، مختلف امور پر گفتگو ہوئی اور دس بجے کے لگ بھگ جب واپسی ہوئی تو راستہ میں وقفہ وقفہ سے تیز بارش کا سامنا ہوا، مگر پونے بارہ بجے کے لگ بھگ اسلام آباد میں داخل ہوئے تو منظر ہی اور تھا۔ شدید طوفانی بارش زوروں پر تھی، سڑکوں پر پانی کا راج تھا، جابجا گاڑیاں بند کھڑی تھیں، بہت سے درخت اکھڑے ہوئے تھے۔ بمشکل آئی ٹین ٹو کی مسجد سلمان فارسیؓ تک پہنچ پائے اور مولانا عبد الخالق کے گھر میں گھس گئے جو دو دن تک میری پناہ گاہ رہا۔
اس روز شام کو اور دوسرے روز اسلام آباد کی مختلف سڑکوں پر اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان پیرودھائی روڈ کے دونوں طرف بارش کی تباہ کاریاں دیکھیں اور اخبارات میں اس کی تفصیلات پڑھیں تو ام المومنین حضرت عائشہؓ کا وہ ارشاد گرامی ذہن کی سکرین پر بار بار ابھرنے لگا جس میں انہوں نے بادلوں کے نمودار ہوتے وقت جناب رسالت مآبؐ کے چہرۂ مبارک پر بے چینی کی کیفیت کا تذکرہ کیا ہے۔ اور یہ خیال دل کو کچوکے دینے لگا کہ اللہ تعالیٰ خیر کرے ہمارا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ ایک عرصہ سے ہم پانی کے بحران اور اس میں متوقع شدت سے پریشان تھے، ڈیموں میں پانی کی قلت اور بارشوں کا کم ہونا ہمارے لیے بے چینی کا باعث بن رہا تھا، اور ماہرین ہمیں اگلی فصلوں کے حوالے سے ڈراوے دے رہے تھے، مگر اچانک صورتحال بدلی ہے کہ اب ڈیموں کے بھر جانے اور زائد پانی کے اخراج کی صورت میں سیلابوں کے خطرہ کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔ بونیر ڈاڈر، اسلام آباد اور راولپنڈی میں سینکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع کا المیہ پیش آ گیا ہے، کچی آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہیں، پختہ مکانوں کی چھتوں تک پانی پہنچ گیا ہے، کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، سینکڑوں جانوروں کی موت اس پر مستزاد ہے اور جانی و مالی نقصانات کا حتمی اندازہ لگنے میں ابھی بہت دن لگ سکتے ہیں۔
یقیناً یہ عذاب ہی کی صورت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے اور اس کی قدرت کا اظہار ہے جس میں ہمارے لیے عبرت اور سبق کے بہت سے پہلو پوشیدہ ہیں۔ ہم زبان سے نہ کہیں، مگر انفرادی و اجتماعی عمل کے حوالے سے ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبرؐ کی تعلیمات سے انحراف کا راستہ اختیار کر رکھا ہے، ہم میں آسمانی تعلیمات اور شرعی احکام کا مذاق اڑانے والوں کی کمی نہیں اور ہمارے دل و دماغ میں توبہ و استغفار کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
آئیے! ہم رنج و الم کے اس مرحلہ میں بارش کے طوفان کا شکار ہونے والے مرحوم بھائیوں اور بہنوں کے لیے مغفرت اور مالی نقصانات کی تلافی کے لیے بارگاہِ ایزدی میں پرخلوص دعا کے ساتھ ساتھ اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگیں اور اللہ تعالیٰ سے اس بات کا عہد کریں کہ ہم اس کی اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات و ہدایات سے بغاوت و انحراف کی روش میں تبدیلی لائیں گے اور پھر یہ دعا کریں کہ مولائے کریم! ہمیں اپنی ناراضگی اور عذاب سے محفوظ فرما اور اپنی رحمتوں اور کرم و فضل سے مالامال کر دے، آمین یا رب العالمین۔