(مرکز عمر الفاروقؓ وڈالہ سندھواں، ضلع سیالکوٹ میں علماء کرام کے اجتماع سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ وڈالہ سندھواں کے ساتھ ہماری بہت یادیں وابستہ ہیں۔ ایک تو میری پیدائش سے بھی پہلے کی ہے کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ یہاں کی مرکزی مسجد میں کچھ عرصہ پڑھتے رہے ہیں، اس وجہ سے عقیدت ہے۔ نصف صدی پہلے کی بات ہے، میں یہاں بہت آیا کرتا تھا۔ یہاں مرکزی مسجد میں حضرت مولانا عبدالحقؒ ہوتے تھے، ہم سال میں ایک دو دفعہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے، یہ دوسری نسبت ہے۔ پھر حضرت مولانا احسان اللہ فاروقیؒ اس علاقے میں ہماری آواز اور دینی جدوجہد کی علامت و عنوان تھے، زندگی بھر انہوں نے دینی تعلیم اور دینی تحریکات کو فروغ دینے اور حمیت و غیرت کو بیدار کرنے کے لیے محنت کی ہے، ہمارا ان کے پاس بھی آنا جانا رہتا تھا۔ میں ان کے فرزند عزیزم حافظ حبیب اللہ فاروقی اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس محفل کا اہتمام کیا اور آپ کے ساتھ مل بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ رب العزت ہماری حاضری قبول فرمائیں۔
دو تین باتیں عرض کروں گا۔ ابھی ہمارے معروف خطیب مولانا شبیر احمد عثمانی گفتگو فرماتے ہوئے تاریخ کا حوالہ دے رہے تھے۔ میں تاریخ کا طالب علم ہوں اس لیے دو باتیں تاریخ کے حوالے سے کروں گا۔ دینی درس گاہ کیا ہے؟ علامہ محمد اقبالؒ ہمارے ملک و قوم کے صف اول اور چوٹی کے رہنماؤں میں سے تھے، اللہ رب العزت نے ان کو بہت عظمت دی اور ان سے بہت کام لیا۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر عرض کیا کرتا ہوں کہ ہماری نئی پود اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو دین اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق کے ساتھ وابستہ رکھنے میں جتنا کام علامہ محمد اقبالؒ نے کیا ہے شاید کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ نئی نسل کی ذہنی آبیاری، عقیدہ ختم نبوت کے ساتھ وابستہ رکھنے اور دین کی بنیادوں پر مستحکم کرنے میں بہت سے لوگوں کے کام ہیں، لیکن علامہ محمد اقبالؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ کا سب سے اہم کردار ہے۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
علامہ اقبال مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں اندلس کے حوالے سے لکھا ہے۔ اندلس پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی، جبکہ یہاں متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال کے لگ بھگ حکومت کی ہے مغلوں کے دور میں، تغلق، سوری اور غزنوی کے دور میں۔ لیکن جب مسلمانوں نے اندلس میں فوجی شکست کھائی، اس کے بعد وہاں آج مسلمان نظر نہیں آتے۔ وہاں آپ کو فاطمہ اسٹریٹ تو ملے گی لیکن فاطمہ نہیں ملے گی، علی روڈ تو ملے گا لیکن علی نہیں ملے گا، فاروق پارک ملے گا لیکن کوئی فاروق نہیں ملے گا۔ وہاں یہ تبدیلی آئی کہ مسجدیں ویران ہیں، محلوں میں نام پرانے ہیں لیکن بندہ کوئی نہیں ہے۔ وہاں آٹھ سو سال حکومت کے بعد یہ تبدیلی آگئی کہ جب مسلمان وہاں سے گئے تو بالکل آؤٹ ہوگئے۔
یہاں پاک و ہند میں مسلمانوں نے ہزار سال کے لگ بھگ حکومت کی ہے لیکن جب گئے تو کیا آؤٹ ہو گئے ہیں یا ابھی موجود ہیں؟ میرے خیال میں پہلے سے بہتر پوزیشن میں موجود ہیں۔ ۱۷۵۷ء میں یہاں انگریز گھسا تھا اور ۱۸۵۷ء میں پورا کنٹرول حاصل کر لیا تھا- اڑھائی سو سال ہو گئے ہیں، آج نتیجہ دیکھیں کہ یہاں مسلمان ہیں یا نہیں ہیں۔ انڈیا میں ہم سے زیادہ مسلمان ہیں، بنگلہ دیش اور برما میں مسلمان ہیں، پورے خطے میں مسلمانوں کی تعداد پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ کیا مدارس بند ہوگئے ہیں یا پہلے سے زیادہ ہوئے ہیں؟ دین کے ساتھ تعلق کم ہوا ہے یا بڑھا ہے؟ جب اقبال اندلس گئے اور اسپین کو دیکھ کر آئے تو انہوں نے ایک جملہ کہا تھا، وہ جملہ یاد دلانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ دینی مدرسے جس طرح کام کر رہے ہیں ان کو اسی طرح کام کرنے دو، ان کو نہ چھیڑو۔ یہ مدرسہ نہ رہا تو نتیجہ وہی ہو گا جو میں اسپین میں دیکھ کر آیا ہوں ۔اس لیے میری قوم سے اپیل ہے کہ مدرسے کو اسی حالت میں رہنے دو اس کو ایسے ہی کام کرنے دو ورنہ نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔
آج کے دور میں دنیا میں جو کشمکش ہے۔ ایک کشمکش تو مذاہب کے درمیان ہے اور ایک بڑی کشمکش بلیورز اور نان بلیورز (خدا اور آخرت کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں) کے درمیان ہے کہ خدا ہے یا نہیں ہے، رسول کی ضرورت تھی یا نہیں تھی، قبر حشر ہے یا نہیں ہے۔ یہ ذہن اور عقیدہ اگرچہ بہت پرانا ہے لیکن اب یہ زیادہ پھیل رہا ہے۔ آپ کی یونیورسٹیوں میں آگیا ہے اور دنیا بھر میں نئی پود میں یہ پھیل رہا ہے۔ اس کشمکش میں ایک ہمارا معیار ہے اور ایک مغرب کا معیار ہے۔ یہ واضح فرق ذہن میں رکھ لیں کہ خدا، رسول، قرآن، قیامت، قبر، حشر، جنت، دوزخ کی بات کرنے اور کمٹمنٹ رکھنے کو مغرب دقیانوسیت، قوم کو گمراہ کرنے اور شر پیدا کرنے والی بات کہتا ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک خدائی تعلیمات، قرآن و سنت اور انبیاء کی تعلیمات سے انحراف اور اپنی خواہشات پر عمل کرنا شر اور گمراہی ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ ہم آزاد ہیں اور اپنی مرضی سے فیصلے کریں گے، کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔
دی انڈیپینڈینٹ برطانیہ کا بڑا اخبار ہے جو دنیا کے بڑے اخباروں میں شامل ہے، لندن سے چھپتا ہے۔ پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے، میں ان دنوں لندن میں تھا۔ برمنگھم میں سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس ہو رہی تھی۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس اب بھی ہوتی ہے۔ میں کم و بیش بیس پچیس سال مسلسل اس میں جاتا رہا ہوں۔ کانفرنس سے کچھ دن پہلے دی انڈیپنڈنٹ نے ایک رپورٹ چھاپی کہ دنیا میں شر کے مراکز اور سرچشمے کون سے ہیں؟ پوری تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا، رسول، قیامت، جنت، دوزخ، ما بعد الموت زندگی کا تصور شر ہے اور دنیا میں یہ شر جنوبی ایشیا کے دینی مدارس پھیلا رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی ایسا مرکز ہے جہاں یہ باتیں ہوتی ہیں تو وہاں جنوبی ایشیا کے دینی مدارس کا تعلیم یافتہ یا ان کا کوئی شاگرد بیٹھا ہوا ہے۔ یہ قرآن و سنت، شریعت، قبر حشر کی باتیں کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ لکھا تھا کہ شر کے ان مراکز کے دو ہیڈکوارٹر ہیں۔ پورے صفحے کی رپورٹ میں پیشانی پر ان دونوں جگہوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ ایک بستی نظام الدین کے تبلیغی مرکز کی تصویر اور دوسری دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث کی تصویر۔
جب وہ رپورٹ چھپی، اتفاق کی بات ہے کہ اس کے چند دن بعد برمنگھم میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ تین چار مقررین نے بازو چڑھا کر اس کے خلاف تقریر کی کہ تم نے یہ کہا، کیوں کہا، تم نے ان کو شر کے سرچشمے کیوں قرار دیا۔ اتفاق سے اس کے بعد میری باری آگئی تو میں نے کہا میں دی انڈیپنڈنٹ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ تمہاری بڑی مہربانی اور شکریہ، تم نے بہت اچھا کیا۔ مجھے تمہاری رپورٹ سے اتفاق ہے کہ جس کو تم شر کہتے ہو اس کے دو سرچشمے ہیں، لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ ایک مینوفیکچرر ہے یعنی دارالعلوم دیوبند اور دوسرا ڈسٹری بیوٹر ہے یعنی بستی نظام الدین جو کہ پوری دنیا کو ڈسٹری بیوٹ کر رہا ہے۔ میں نے کہا میں تم سے بالکل اتفاق کرتا ہوں تم نے بالکل ٹھیک تجزیہ کیا ہے، میں تمہارا اس بات پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ تم نے دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ تمہاری لڑائی کس سے ہے اور تمہارے راستے میں رکاوٹ کون ہے؟ تم جو دنیا بھر میں دہریت، خدا کا انکار، خدا کی نافرمانی اور آسمانی تعلیمات سے انحراف کی اپنی تہذیب لانا چاہتے ہو، تم نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ تمہارے راستے میں رکاوٹ کون ہے؟ میں اس کی نشاندہی پر تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
مدرسہ کیا ہے؟ علامہ اقبالؒ کی زبان میں یہ وہ درسگاہ ہے کہ جس کے بغیر ہندوستان کا حال بھی اسپین والا ہو جائے گا، اور دی انڈیپنڈنٹ کی زبان میں مدرسہ آج کی تہذیبی یلغار کے مقابلے میں ناقابل تسخیر مورچہ ہے۔ آج کی فکری، تہذیبی، اعتقادی اور فلسفے کی جنگ کے مقابلے میں وہ مورچہ جسے آج تک فتح نہیں کیا جا سکا اور ان شاء اللہ قیامت تک فتح نہیں کیا جا سکے گا، اللہ تعالی اس مورچے کو قائم رکھیں، آمین۔
اس وقت جنوبی ایشیا میں ایک لاکھ سے زیادہ مدرسے ہیں۔ ان میں پڑھنے والے لوگ کتنے ہوں گے؟ جب مغرب یہ تعداد دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں کہ اتنے لوگ قرآن اور شریعت پڑھ رہے ہیں۔ ابھی رائیونڈ کا اجتماع ہوا، چار حصوں میں تقسیم ہونے کے باوجود وہاں کی رونق میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہ سب کس کی برکت ہے؟ مغرب یہ دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ اتنے لوگ خدا کا نام لینے والے ہیں، رسول، قیامت اور شریعت کی بات کرنے والے ہیں۔ اس لیے میں علماء سے عرض کیا کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو مورچہ سمجھیں۔ مورچے سے مراد علم، فکر، تہذیب اور فلسفہ ہے، ہمارے ہتھیار یہی ہیں۔ اور اس حساب سے موجودہ اور آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کریں۔ یہ مقابلہ کس نے کرنا ہے؟ انہی دینی مدارس نے کرنا ہے۔ میں اقبال کی بات دہراؤں گا کہ خدانخواستہ مدرسہ درمیان سے ہٹ جائے تو کون مقابلہ کرے گا؟
اس مقابلے کے لیے آپ سے دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ مدرسے کو کمزور نہ ہونے دیں۔ جو بھی قوم اپنے مورچے کو کمزور کرتی ہے تو وہ مار کھا جاتی ہے۔ مدرسہ آپ کا علمی و فکری اور تہذیبی و ثقافتی مورچہ ہے اس لیے اس کو کمزور نہ ہونے دیں۔ لیکن اگر علاقے میں دینی جدوجہد کو منظم رکھنا ہے اور دین کو طاقت دینی ہے تو اپنے دینی مراکز کو مضبوط کرو۔ مرکز مضبوط ہوگا تو کام مضبوط ہوگا، مرکز کمزور ہوگا تو کام نہیں رہے گا۔
دوسری ہر علاقے کے علماء کرام سے میری گزارش رہتی ہے، آپ سے بھی گزارش کروں گا کہ آپس میں چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں، ان کو نظرانداز کریں اور ایک جگہ مل بیٹھنے اور اکٹھے نظر آنے کا اہتمام کریں تاکہ واضح ہو کہ آپ کی اصل قوت کیا ہے۔ کسی علاقے کے پچاس یا سو علماء اکٹھے بیٹھ کے صرف چائے ہی پی لیں اور لوگوں کو نظر آ جائے کہ مولوی اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں تو اس کے اثرات آپ کو محسوس ہوں گے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا بیٹھا کریں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچا کریں۔ میں بیس سال سے یہ آواز لگا رہا ہوں اور اب الحمد للہ ملک کے مختلف حصوں میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ذوق پیدا ہو رہا ہے۔ کبھی کبھار اکٹھے بیٹھ کر ایک دوسرے کا حال پوچھ لیا کریں تو کیا جاتا ہے؟ جاتا کچھ نہیں ہے البتہ حاصل بہت کچھ ہو جاتا ہے۔
اس لیے علاقے کے علماء سے میری گزارش ہے کہ ایک تو اس مرکز کو مضبوط کریں، آباد کریں، یہ آپ کی ذمہ داری ہے اور حافظ حبیب اللہ فاروقی کے سر پر ہاتھ رکھیں کہ یہ ہمارا بچہ ہے اور بچوں کو لاوارث نہیں چھوڑ دیا کرتے۔ اور دوسری بات یہ کہ تمام تر جھگڑوں کے باوجود آپس میں مل بیٹھنے کا اہتمام کریں۔ گوجرانوالہ میں تو تمام مکاتب فکر کے حضرات بحمد اللہ تعالیٰ بوقتِ ضرورت اکٹھے بیٹھتے ہیں، ایک دوسرے کے پاس جاتے ہیں اور اگر کچھ عرصہ زیادہ ہو جائے تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کافی عرصہ ہوا ہے مل کر نہیں بیٹھے۔ اور پھر یہ صرف مولویوں کا کام نہیں ہے اس لیے اپنے ساتھ دیندار طبقے، چوہدری صاحبان، وکلاء، قانون دان، تاجر اور ڈاکٹر حضرات کو بھی ملائیں، جب اکٹھے مل بیٹھیں گے تو آپ کو خود پتہ چلے گا کہ کیا کام کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔
یہ دونوں گزارشیں میری آج کی گفتگو کا حاصل ہے کہ دینی مراکز کی آبادی کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اکٹھے بیٹھتے رہنے کا کوئی نظم بنا لیں۔ اللہ تعالی ان مراکز کو آباد رکھیں اور آپ حضرات کو توفیق عطا فرمائیں کیونکہ آنے والا دور سخت ہے، آسان نہیں ہے۔ دینی جدوجہد اور دعوت و تبلیغ کے حوالے سے، فتنوں کے مقابلے اور مزاحمتوں کے حوالے سے آنے والا دور آسان نہیں ہے۔ متحد ہوں گے، اکٹھے مل بیٹھیں گے، چھوٹی موٹی باتیں نظر انداز کریں گے تو کام ہو گا ورنہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔