وسطی ایشیا کے مسلمان ایک نئی آزمائش کے دروازے پر

   
اپریل ۱۹۹۶ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۸ مارچ ۱۹۹۶ء کی خبر کے مطابق وسطی ایشیا کی مسلم ریاست ازبکستان کی پارلیمنٹ نے سوویت یونین کی بحالی کے بارے میں روسی پارلیمنٹ کی قرارداد کو مسترد کر دیا ہے اور ازبک پارلیمنٹ کے اسپیکر اربکن خلیلوف اور وزیرخارجہ عبد العزیز نے پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس کے بعد بتایا ہے کہ

’’ازبکستان یو این او چارٹر پر عمل کرتے ہوئے آزادانہ طور پر اسلامی پروگرام جاری رکھے گا اور کسی بھی دوبارہ اتحاد کی تنظیم میں شامل نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سابق سوویت یونین ایک تاریخ ہے جسے دوبارہ دہرایا نہیں جا سکتا۔‘‘

ازبکستان وسطی ایشیا کی ان مسلم ریاستوں میں سے ہے جو جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد روس کے تسلط سے آزاد ہوئی ہیں، اور اسلامی سرگرمیوں پر پون صدی تک جبری پابندیوں کے بعد اس خطہ کے لوگوں نے آزاد فضا میں سانس لینا شروع کیا ہے، ہزاروں بند مساجد بحال ہوئی ہیں اور دینی اداروں نے ازسرنو کام کا آغاز کیا ہے، جس سے وسطی ایشیا کا پرانا اسلامی تشخص ایک بار پھر زندہ ہو رہا ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں روسی پارلیمنٹ نے سوویت یونین کی بحالی کی قرارداد منظور کر کے آزاد ہونے والی ریاستوں کو دوبارہ سوویت یونین میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے، جس پر مذکورہ خبر کے مطابق قازقستان اور کرغزیستان نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے جبکہ ازبکستان کی پارلیمنٹ نے اسے مسترد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

ہمارے نزدیک ازبک پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ وسطی ایشیا کے کروڑوں مسلمانوں کے دلی جذبات کا آئینہ دار ہے جس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی فضا میں اس خطرہ کی بو بھی محسوس ہو رہی ہے کہ روس نے وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کے اسلامی تشخص کے احیا کا راستہ روکنے کے لیے سوویت یونین کی بحالی کے نعرہ کے ساتھ ان ریاستوں کو دوبارہ بزور طاقت زیر کرنے کا پروگرام طے کر لیا ہے، جس میں اسے امریکہ اور دیگر مغربی قوتوں کی حمایت و امداد بھی حاصل ہے۔ اس لیے آزمائش کے اس نئے مرحلے کے آغاز پر مسلم حکومتوں، عالم اسلام کی دینی قوتوں اور بین الاقوامی اسلامی اداروں کو وسطی ایشیا کے مسلمان بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔

   
2016ء سے
Flag Counter