عامر چیمہ ؒ کی شہادت اور حکومت کی ذمہ داری

   
جون ۲۰۰۶ء

عامر چیمہ شہیدؒ کو اس کے آبائی گاؤں ساروکی چیمہ میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ جنازہ کے وقت اور پروگرام کو آخر وقت تک ابہام میں رکھا گیا اور اس کے بارے میں متضاد خبریں نشر کی جاتی رہیں جن کا مقصد یہ تھا کہ نماز جنازہ میں زیادہ لوگ شریک نہ ہو سکیں، اس کے باوجود زندہ دل مسلمانوں کے ایک بڑے ہجوم نے نماز جنازہ ادا کی اور اس کے بعد بھی ملک بھر سے مسلمان بڑی تعداد میں ساروکی چیمہ پہنچ کر اس باغیرت مسلم نوجوان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

عامر عبدالرحمن چیمہ کے والد محترم پروفیسر نذیر احمد چیمہ کا تعلق ساروکی چیمہ سے ہے اور وہ کچھ عرصہ سے راولپنڈی میں قیام پذیر ہیں، عامر چیمہؒ تعلیم کے لیے جرمنی گیا ہوا تھا، وہاں اس نے جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک اخبار کے ایڈیٹر پر چاقو سے حملہ کر دیا جس نے اپنے اخبار میں وہ گستاخانہ کارٹون شائع کیے تھے جو ڈنمارک کے ایک اخبار نے چھاپے تھے اور جرمن سمیت مختلف یورپی ملکوں کے متعدد اخبارات نے اس اخبار کے ساتھ ہم آہنگی کے اظہار کے لیے ان گستاخانہ خاکوں کو شائع کر دیا تھا۔ انہی میں سے ایک جرمن اخبار کے ایڈیٹر کو عامر چیمہؒ نے اپنے حملہ کا نشانہ بنایا جس کی پاداش میں وہ گرفتار ہوگیا لیکن کچھ دنوں کے بعد اس کی شہادت کی خبر آگئی اور جرمن پولیس نے، جس کی حراست کے دوران عامر چیمہؒ کی موت واقع ہوئی، یہ موقف اختیار کیا کہ عامر چیمہ شہیدؒ نے خودکشی کر لی ہے۔ لیکن عامرؒ کے والد اور پاکستان کے دینی حلقوں نے جرمن پولیس کا یہ موقف مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ عامر چیمہؒ پر خودکشی کا الزام غلط ہے اور اسے جرمنی پولیس کی حراست کے دوران تشدد سے شہید کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ خودکشی بزدل اور مایوس افراد کیا کرتے ہیں جبکہ عامر چیمہ شہیدؒ نے ایک گستاخ رسولؐ پر حملہ کرکے جو جرأتمندانہ قدم اٹھایا تھا اس کے بعد وہ خودکشی جیسے بزدلانہ اور مایوسی کے اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اس لیے کہ جب کوئی مسلمان اپنی جان کو جناب نبی اکرم ؐ کے ناموس و عزت کے لیے پیش کر دیتا ہے تو اس کے حوصلہ اور جرأت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس پر سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خودکشی کا موقف کسی باشعور شخص نے قبول نہیں کیا اور اس پر کم و بیش تمام مسلمان حلقے متفق نظر آتے ہیں کہ عامر چیمہؒ کی شہادت پولیس تشدد سے ہوئی ہے۔ عامر شہیدؒ کی موت کے بارے میں خودکشی کا تاثر عام کرنے کے بعد جرمنی حکومت نے شہیدؒ کی لاش کو اس کے ورثاء کے سپرد کرنے میں خاصی تاخیر اور لیت و لعل سے کام لیا اور حکومت پاکستان بھی یہ کوشش کرتی رہی کہ عامر ؒ کے جنازے میں زیادہ لوگ جمع نہ ہو سکیں۔

شہیدؒ کے والد کی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے کی نماز جنازہ راولپنڈی میں ادا ہو اور وہیں اسے سپرد خاک کیا جائے لیکن حکومتی سطح پر اس امر کا فوج کی نگرانی میں اہتمام کیا گیا کہ نماز جنازہ اسلام آباد یا لاہور میں نہ پڑھی جا سکے بلکہ ساروکی چیمہ میں ادا کی جائے اور وہ بھی اس ابہام کی کیفیت میں کہ عام مسلمانوں کو نماز جنازہ کے صحیح وقت کا علم نہ ہو سکے ۔ ہمیں مدرسہ نصرۃ العلوم میں پہلے یہ اطلاع ملی کہ جنازہ چار بجے شام ہوگا، روزنامہ اسلام لاہور میں یہی خبر شائع ہوئی اور چونکہ ہمارے حلقوں میں روزنامہ اسلام عام طور پر پڑھا جاتا ہے اس لیے عام لوگوں کا خیال یہی تھا کہ جنازہ شام چار بجے ہوگا۔ مگر ساروکی چیمہ فون پر رابطہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ لاش گوجرانوالہ کینٹ میں پہنچ چکی ہے اور نماز جنازہ دس بجے ادا کی جائے گی۔ مجھے مدرسہ نصرۃ العلوم کے ناظم برادرم مولانا محمد ریاض خان سواتی کے ہمراہ میرپور جانا تھا، جہاں ظہر کی نماز کے بعد ہمارے ایک عزیز شاگرد حافظ محمد نوید ساجد( فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم) کا نکاح تھا اور اس کے بعد مجھے جامعۃ العلوم الاسلامیۃ ایف ٹو کے مہتمم محترم حاجی بوستان خان کی دعوت پر مدرسۃ البنات میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرنا تھا، اس لیے ہم اس پروگرام کے مطابق روانہ ہوئے کہ راستہ میں نماز جنازہ ادا کرکے آگے چلے جائیں گے۔ دوبارہ فون پر رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ نماز جنازہ گیارہ بجے ادا ہوگی لیکن جب وزیر آباد بائی پاس روڈ پر ساروکی چیمہ موڑ پر گیارہ بجے کے لگ بھگ فون کے ذریعہ ساروکی چیمہ سے صورتحال معلوم کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ میت ابھی تک نہیں پہنچی اور کوئی حتمی اطلاع بھی نہیں ہے، اس لیے ہم میرپور کی طرف روانہ ہوگئے لیکن جب میرپور پہنچ کر فون کیا تو پتہ چلا کہ عامر شہیدؒ کی میت ساروکی چیمہ پہنچ کر نماز جنازہ ادا ہو چکی ہے اور تدفین بھی ہوگئی ہے۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نماز جنازہ اچانک ادا کرانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس میں شرکت سے روکنے کے لیے کیا کیا حربے اختیار کیے گئے، چنانچہ شہیدؒ کے والد پروفیسر نذیر احمد کا یہ بیان اخبارات میں آچکا ہے کہ یہ سب کچھ جبرًا کرایا گیا ہے اس لیے انہوں نے اپنے شہید بیٹے کو ساروکی چیمہ میں امانتاً دفن کیا ہے اور کسی مناسب وقت میں وہ اسے دوسری جگہ منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود نماز جنازہ پورے اہتمام اور جوش و خروش کے ماحول میں ادا کی گئی اور اس کے بعد ملک بھر کے ہزاروں اجتماعات میں عامر چیمہؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے اور اس کے لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔

اب عامر چیمہؒ کی تدفین کے بعد اگلا مرحلہ اس کے کیس کی پیروی کا ہے کیونکہ جرمن پولیس نے اسے خودکشی قرار دیا ہے مگر شہید کے ورثاء اور پاکستان کے تمام دینی حلقے اسے مسترد کرتے ہوئے جرمن پولیس کی حراست کے دوران تشدد کو عامر چیمہؒ کی موت کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ نظر یہ آرہا ہے کہ حکومت پاکستان اس کیس کو قانونی اور اخلاقی بنیادوں پر آگے بڑھانے میں سنجیدہ نہیں ہے حالانکہ ناموس رسالتؐ کے نازک مسئلہ سے قطع نظر بھی کسی دوسرے ملک کی پولیس کی حراست کے دوران کسی پاکستانی شہری کی اس طرح کی موت ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے آسانی سے نظر انداز کیا جا سکے۔ قانونی اور اخلاقی طور پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ وہ اس کیس کی پیروی کرے اور جرمن پولیس کے اس الزام کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپنا اثر و رسوخ پوری دیانت داری اور اہتمام کے ساتھ استعمال کرے لیکن اب تک کے طرز عمل سے اندازہ ہو رہا ہے کہ سیاسی مصلحتیں قانون، اخلاق اور انسانی اقدار پر غالب آرہی ہیں اور اس مسئلہ کو گول کرنے کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا عامر شہیدؒ کے ورثاء اور پاکستان کے دینی حلقوں پر دوہرا ظلم ہوگا جس کا ملک کے دینی و سیاسی حلقوں کو نوٹس لینا چاہیے۔ اس پس منظر میں ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مغرب کو ہر حالت میں خوش رکھنے کے طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور اپنی قانونی، اخلاقی اور دینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عامر چیمہ شہیدؒ کی شہادت کا کیس بین الاقوامی سطح پر اٹھائے تاکہ ایک عاشق رسولؐ کی پراسرار موت کے حقائق دنیا پر واضح ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ شہیدؒ کے درجات بلند سے بلند فرمائیں اور حکمرانوں سمیت ہم سب کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter