انجیل کے تمام نسخے تحریف شدہ ہیں

   
جولائی ۱۹۹۶ء

ہفت روزہ تکبیر کراچی نے ۱۶ مئی ۱۹۹۶ء کی اشاعت میں معروف عالمی جریدہ ’’ٹائم میگزین‘‘ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کیلیفورنیا میں منعقدہ دنیا کے چیدہ چیدہ محققین کے ایک سیمینار کا ذکر کیا گیا ہے، اس سیمینار میں بائبل کی اصلیت کا جائزہ لیا گیا اور ۵۰ منتخب محققین نے متفقہ فیصلہ دیا ہے کہ

’’یسوع مسیح کے حوالے سے عہد نامہ جدید کے نام سے جو کچھ بھی عیسائیوں میں پایا جاتا ہے، اس کا بہت بڑا حصہ ناقابلِ اعتماد ہے۔ ان کی رائے میں یہودا نے وہ کچھ نہیں کیا جس کا ذکر عہد نامہ جدید میں ہے۔ ان اسکالرز نے دوسرے حواری متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی یہودا کے خلاف شہادتوں کو مسترد کرتے ہوئے ان چاروں کو ناقابل اعتماد ٹھہرا دیا ہے اور کہا ہے کہ یسوع مسیح کی پیدائش، حیاتِ ثانی، خطابِ کوہ اور کئی دوسرے حوالوں سے ان چاروں مذکورہ حواریوں کی ’’اناجیل‘‘ کو مسترد کر دیا جانا چاہیے۔‘‘

یہودا حضرت عیسٰی علیہ السلام کے اس حواری کا نام ہے جس کے بارے میں اناجیل میں لکھا ہے کہ اس نے غداری کر کے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو پکڑوایا اور پھر یہودی حکام نے ان کے بقول عیسٰیؑ کو صلیب پر لٹکا دیا۔ اور یہی واقعہ صلیب کے تقدس، کفارہ اور دیگر مسیحی عقائد کی بنیاد بنا۔

اصل قصہ یہ ہے کہ مغربی دنیا مذہب سے بغاوت کے تلخ ثمرات و نتائج بھگت کر اب مذہب کی طرف واپس آنے کا سوچ رہی ہے، لیکن مذہب کی اصل تعلیمات تک مغربی دانشوروں کی رسائی نہیں ہو رہی۔ بائبل اور انجیل کی اصلیت کے بارے میں اعلیٰ سطح کی یہ تحقیق و تفتیش بھی اصل مذہب کی طرف رسائی کی فکری مہم کا حصہ ہے۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے سوا کسی اور کے پاس مذہبی تعلیمات اصل حالت میں موجود نہیں ہیں۔ نہ کوئی آسمانی کتاب محفوظ حالت میں ملتی ہے اور نہ کسی پیغمبر کی حیات و تعلیمات تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔

یہ اعجاز صرف قرآن کریم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کا ہے کہ وہ اصلی حالت میں جوں کی توں مسلمانوں کے پاس محفوظ و موجود ہے، اور مذہب کی طرف واپسی کے خواہشمند دانشوروں کے پاس قرآن و سنت کی طرف رجوع کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ہم مسلمانوں کے سوچنے کی ہے کہ قرآن و سنت کو دنیا بھر کے اہلِ علم و دانش تک ان کی زبان میں اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق پہنچانے کا کوئی پروگرام ہمارے پاس بھی ہے یا نہیں؟ اور کیا اس سے پہلو تہی کر کے دنیا کی گمراہی کے تسلسل اور اضافے کی ذمہ داری میں ہم بھی تو شریک نہیں ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter