حضرت امام بخاریؒ کی مجتہدانہ شان

   
۸ ستمبر ۲۰۰۴ء غالباً

دو ستمبر کو جامعہ خیر المدارس ملتان میں اختتام بخاری شریف کی سالانہ تقریب میں حاضری کے لیے حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری سے وعدہ تھا اور حاضری کا ارادہ بھی تھا، بلکہ اس بابرکت محفل میں پیش کرنے کے لیے کچھ معروضات قلمبند بھی کر لی تھیں، مگر ایک اچانک گھریلو مصروفیت کی وجہ سے ملتان کا سفر نہ کر سکا۔ اس تقریب کے لیے جو گزارشات قلمبند کی تھیں وہ قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔

جامعہ خیر المدارس ملتان کی اختتام بخاری شریف کی تقریب میں حاضری میرے لیے سعادت اور اعزاز کی بات ہے جس کے لیے میں برادر محترم حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری زیدت مکارمہم کا شکر گزار ہوں۔ اس بابرکت تقریب میں ہمارے مخدوم و محترم بزرگ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم دورۂ حدیث کے طلباء کو بخاری شریف کی آخری حدیث کا سبق پڑھائیں گے اور دیگر محترم اساتذہ بھی خطاب کریں گے۔ مجھے بھی یہی حکم ہے کہ آج کی اس تقریب کی مناسبت سے کچھ معروضات پیش کروں۔ تعمیل حکم میں چند گزارشات پیش کر رہا ہوں۔ دعا کریں کہ اللہ رب العزت کچھ مقصد کی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائیں اور دین حق کی جو بات علم اور سمجھ میں آئے اس پر عمل کی توفیق سے بھی نوازیں۔ آمین یا رب العالمین

جامعہ خیر المدارس کے ساتھ میرا تعلق نیاز مندی اور استفادہ کا ہے۔ حدیث نبویؐ میں میرے ایک محترم استاذ حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی دامت برکاتہم جامعہ خیر المدارس سے فیض یافتہ ہیں۔ اس طرح مجھے جامعہ خیر المدارس سے بالواسطہ شرف تلمذ حاصل ہے اور یہ نسبت میرے لیے قابل فخر ہے۔ میں نے اپنے بچپن میں نماز کا سبق حضرت مولانا خیر محمد جالندھری نور اللہ مرقدہ کی ’’نماز حنفی‘‘ سے سیکھا ہے اور یہ بھی تلمذ ہی کی ایک قسم ہے۔ بچپن کے دور میں حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ایک بار حاضری اور دعاؤں کا شرف حاصل کر چکا ہوں، اس لیے میں اسے اپنے لیے افتخار اور اعزاز کے ساتھ ساتھ امتحان اور آزمائش کا مرحلہ بھی خیال کرتا ہوں کہ جامعہ خیر المدارس کی اختتام بخاری شریف کی تقریب میں کچھ طالب علمانہ معروضات پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے میرے لیے دونوں جہانوں کی سعادتوں کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔ میں بخاری شریف کے حوالہ سے ان طلبہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جو آج آخری حدیث پڑھ کر فضلاء کی فہرست میں داخل ہو رہے ہیں اور آج کے بعد انہیں علماء کی فہرست میں شامل سمجھا جائے گا۔

امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کا آغاز ’’بدء الوحی‘‘ سے کیا ہے اور آخر میں عقائد کے حوالہ سے ایک بحث میں وحی کو استدلال کی بنیاد بنا کر ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہمارے تمام معاملات وحی اور آسمانی تعلیمات ہی کی بنیاد پر طے ہوں گے۔ امام بخاریؒ نے وحی کی اہمیت پہلے واضح کی اور اس کے بعد ایمان، علم، عبادات، معاملات، اخلاقیات اور دیگر عنوانات پر احادیث نبویہ کا ذخیرہ پیش کیا۔ جس کے ذریعہ امام بخاریؒ ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں یعنی مسلمانوں کے ہاں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہی فائنل اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہیں اور ہر فیصلہ کی بنیاد ہیں۔

آج کے دور میں یہ بات بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے اور اسے سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ انسانی سوسائٹی کی بہت بڑی اکثریت زندگی کے عملی اور اجتماعی معاملات میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی راہنمائی سے دستبردار ہو گئی ہے اور انسانی سوسائٹی کی اجتماعی سوچ اور خواہش کو صحیح یا غلط، حلال یا حرام، حق یا باطل اور جائز یا ناجائز قرار دینے کا فیصلہ کرنے کی واحد اتھارٹی سمجھ لیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ہم مسلمانوں سے بھی عالمی برادری کا مطالبہ یہی ہے کہ ہم انسانی زندگی کے عملی اور اجتماعی معاملات میں وحی الٰہی کی بالادستی اور عملداری کے عقیدہ سے دست بردار ہو جائیں اور مذہب کو صرف ذاتی عقیدہ، عبادت اور اخلاقیات کے دائرہ میں محصور کر کے باقی تمام امور میں انسانی سوسائٹی کی اجتماعی سوچ اور اجتماعی خواہشات پر مبنی عقیدہ و ثقافت کو قبول کر لیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی اہمیت کو زیادہ سے زیادہ واضح کیا جائے اور اس عقیدہ کو پختہ کیا جائے کہ ہم انفرادی، خاندانی اور معاشرتی تمام دائروں میں وحی الٰہی کے پابند ہیں اور آسمانی تعلیمات کی راہنمائی میں ہی فلاح اور نجات کی راہ اختیار کر سکتے ہیں۔

امام بخاریؒ کو ملت اسلامیہ میں ایک عظیم محدث کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امام بخاریؒ کا مقام محدثین میں بہت بلند ہے اور ان کی ’’الجامع الصحیح‘‘ کو بجا طور پر ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ کہا جاتا ہے، لیکن امام بخاریؒ صرف محدث نہیں ہیں، بلکہ مجتہد اور فقیہ بھی ہیں اور مؤرخ و متکلم بھی ہیں۔ ان کی اجتہاد و استنباط کی شان ان کے تراجم سے واضح ہوتی ہے اور جس باریک بینی سے وہ احادیث سے مختلف مسائل کے لیے استدلال کرتے ہیں اور عنوانات قائم کرتے ہیں، اس سے ان کی دقتِ نظر اور اجتہادی مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم اپنے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے حوالہ سے بتایا کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ کے قائم کردہ عنوانات اور تراجم ابواب کا ان کے تحت درج احادیث سے تعلق اور ربط تلاش کرتے ہوئے بسا اوقات یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ ؎

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دینا، کیونکہ وہ باغ میں جائے گی تو پھولوں اور پھلوں کا رس چوسے گی، پھر ان سے شہد بنائے گی، پھر اس کے چھتہ سے موم بنے گی، موم سے موم بتی بنائی جائے گی، جو جلے گی تو پروانے آئیں گے اور اس کی روشنی اور تپش میں جل جائیں گے۔ اس لیے پروانے کے خون ناحق کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دیا جائے، تاکہ نہ وہ ان مراحل سے گزرے اور نہ پروانے کے جلنے کی نوبت آئے۔

امام بخاریؒ اپنی ’’الجامع الصحیح‘‘ میں صرف روایات و احادیث بیان نہیں کرتے، بلکہ ان سے مسائل کا استنباط بھی کرتے ہیں اور ایک ایک حدیث سے کئی کئی مسئلے نکالتے ہیں اور کئی مقامات پر اس حدیث کو مختلف عنوانات کے تحت نقل کرتے ہیں، بلکہ ایک حدیث کے کئی حصے کر دیتے ہیں اور ہر جگہ موقع کی مناسبت سے اس کا متعلقہ حصہ نقل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بخاری شریف کی کسی ایک روایت کو مکمل کرنے کے لیے کئی ابواب کی چھان بین ضروری ہو جاتی ہے۔ مثلاً جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوادع کے خطبہ میں ’’ان دماءکم و اموالکم و اعراضکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ھذا‘‘ والی حدیث میں ایک جگہ امام بخاریؒ نے ’’و ابشارکم‘‘ کا جملہ بھی نقل کیا ہے، جو میں نے خود ایک بار بخاری شریف میں دیکھا تھا، لیکن حوالہ نقل نہ کر سکا۔ اس لیے دوبارہ اس جملہ کو بخاری شریف میں تلاش کرنے میں کئی برس لگ گئے، حتیٰ کہ جب بالاستیعاب پڑھانے کی نوبت آئی تو یہ جملہ دوبارہ دستیاب ہو سکا۔

بخاری شریف میں ایک روایت کے متعدد مقامات پر درج ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امام بخاریؒ ایک حدیث سے کئی مسائل کا استنباط کرتے ہیں۔ مثلاً یہی آخری روایت جو آج آپ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم سے پڑھیں گے، یہ روایت امام بخاریؒ نے تین جگہ نقل کی ہے۔

  1. ایک جگہ ذکر کی فضیلت میں سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی ہے، جہاں امام بخاریؒ ’’حبیبتان الی الرحمٰن‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے ان جملوں کی اہمیت واضح کر رہے ہیں۔
  2. دوسری جگہ یمین اور قسم کے حوالہ سے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ اگر کسی نے اس بات پر قسم کھائی ہے کہ وہ کسی سے کلام نہیں کرے گا تو کیا ذکر و اذکار کے کلمات ادا کرنے سے وہ حانث ہو جائے گا؟ صاحبِ ہدایہ کے مطابق فقہاء احناف کا موقف یہ ہے کہ نماز میں پڑھنے سے حانث نہیں ہوگا، جبکہ نماز سے باہر یہ کلمات پڑھنے سے حانث ہو جائے گا۔ مگر امام بخاریؒ کا موقف یہ ہے کہ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ و بحمدہ کو کلمہ کہا ہے، اس لیے یہ جملہ ادا کرنے سے حانث ہونے کا مدار متکلم کی نیت اور عرف پر ہوگا۔
  3. اور اب یہی روایت تیسرے مقام پر اس کے جملہ ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے امام بخاریؒ وزنِ اعمال کے ثبوت میں پیش کر رہے ہیں، جس کی تفصیلات آپ حضرات حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی سے سماعت کریں گے۔

الغرض امام بخاریؒ صرف محدث نہیں ہیں، بلکہ مجتہدین اور فقہاء میں بھی امتیازی شان کے حامل ہیں اور روایت کے ساتھ ساتھ درایت اور استنباط و استدلال کے بھی علمبردار ہیں۔ امام بخاریؒ کی جلالت شان اور علمی مقام کے حوالہ سے اور بھی بہت کچھ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے، مگر وقت مختصر ہے، اس لیے اس پر اکتفا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان عظیم اسلاف کے نقش قدم پر چلنے اور ان کی روایات کی پیروی کی توفیق سے نوازیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter