اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں اقلیتوں کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک تقریب کی اخباری رپورٹ اس وقت ہمارے سامنے ہے جو ایک معاصر روزنامہ نے ۷ مارچ کو شائع کی ہے۔ اس تقریب سے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے علاوہ وفاقی وزیر جناب فاروق ستار، آرچ بشپ ریڈگر، اور بشپ الیگزینڈر جان ملک کے علاوہ بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبد الخبیر آزاد نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم کا خطاب بہت متوازن ہے جس میں انہوں نے کہا کہ
- توہین رسالتؐ کے قانون سمیت کسی قانون کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی بھی قانون اس وقت تک مؤثر نہیں ہوتا جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے۔
- مذہبی ہم آہنگی کے پیغام کے ذریعے ہم انتہا پسندی سے چھٹکارا پا کر ایک مضبوط اور خوشحال قوم بن سکتے ہیں۔
- موجودہ جمہوری حکومت کی بعض کامیابیاں جن میں سینٹ میں اقلیتوں کے لیے چار نشستوں، سرکاری ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹے، ۱۱ اگست کو اقلیتوں کے دن کے طور پر منانے، سرکاری سطح پر اقلیتوں کی مذہبی تقریبات کو منانے، تمام جیل خانوں میں عبادت خانے قائم کرنے، اور عیسائیوں کا نام بدل کر مسیحی رکھنے کے اقدامات شامل ہیں۔
ہمیں وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کے ان ارشادات سے اتفاق ہے بشرطیکہ وہ دستور کی طے کردہ حدود کے اندر ہوں، پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کے دائرہ کو کراس نہ کرتی ہوں، اور اقلیتوں کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے اکثریت کے مفادات و حقوق متاثر نہ ہوتے ہوں۔ البتہ ایم کیو ایم کے رہنماجناب فاروق ستار نے اس کنونشن میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے بارے میں ہم اپنے تحفظات کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق
- ان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے تعلق رکھتا ہے، بیت اللہ محسود جیسے دہشت گردوں سے نہیں۔ یہ ملک سب کا ہے اور یہاں کوئی اکثریت اقلیت نہیں۔
- اس کے ساتھ ہی انہوں نے صدر اور وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا اور کہا کہ صدر اور وزیراعظم کا انتخاب اقلیتوں میں سے بھی ہونا چاہیے۔
فاروق ستار ایک سیاسی پارٹی کے اہم لیڈر ہیں، انہیں ہر وہ بات کہنے کا حق ہے جو ان کے ذہن میں آئے۔ لیکن ہماری گزارش ہے کہ وہ کوئی بات کہتے ہوئے زمینی حقائق کا بھی لحاظ کر لیا کریں۔ اس لیے کہ زمینی حقائق اور تاریخی پس منظر سے ہٹ کر کہی جانے والی کوئی بھی بات وقتی طور پر ہال میں بیٹھے ہوئے سامعین سے واہ واہ کی داد تو وصول کر سکتی ہے مگر تاریخی تعامل پر نظر رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ایسی بات قابل توجہ نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسی بات کوئی مثبت نتیجہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم فاروق ستار کے اس ارشاد کا حوالہ دینا چاہیں گے کہ یہ قائد اعظم محمد علی جناح کا ملک ہے، یہاں سب برابر ہیں اور کوئی اقلیت یا اکثریت نہیں ہے۔ اس بات کو ہم اگر خود قائد اعظمؒ کی تاریخی جدوجہد کے تناظر میں دیکھنا چاہیں تو صورتحال اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے کہ جنوبی ایشیا میں سیاسی طور پر اقلیت و اکثریت کے عنوان سے بات کرنے والے سب سے پہلے سیاسی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ ہیں۔
مسلم اور غیر مسلم کے فرق کو پیش کرنے اور اس کو اجاگر کرنے کی محنت کرنے والوں میں تعلیمی محاذ پر سر سید احمد خانؒ، تہذیبی و ثقافتی میدان میں علامہ محمد اقبالؒ، اور سیاسی دنیا میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ سب سے نمایاں شخصیات ہیں۔ فاروق ستار کے علم میں یہ بات یقینی طور پر ہوگی کہ یہ لوگ اس دور میں بھی سیاسی طور پر مسلم و غیر مسلم کے فرق کی بات کر رہے تھے جب جنوبی ایشیا کے علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ اس فرق سے ہٹ کر سیاسی میدان میں متحدہ قومیت کا پرچم تھامے ہوئے تھا۔ سوال یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں اگر مسلم و غیر مسلم کے فرق کی بات سرسید احمد خانؒ، علامہ محمد اقبالؒ، اور قائد اعظمؒ نے نہیں کی تو اس تفریق کی بات اور کس نے کی ہے؟ اگر فاروق ستار اس کی نشاندہی کر سکیں تو نہ صرف ہم پر بلکہ تاریخ پر ان کا احسان ہوگا۔ علامہ محمد اقبالؒ تو مسلم و غیر مسلم کے فرق کو اجاگر کرنے میں اس قدر حساس تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کے اجماعی عقائد سے منحرف ہونے والے قادیانیوں کو بھی غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ اس لیے اس فرق کی بات ملک کے دستور و قانون کے حوالے سے بیت اللہ محسودؒ کی نہیں بلکہ خود قائد اعظمؒ کی ہے جبکہ فاروق ستار اسے بیت اللہ محسودؒ کے کھاتے میں ڈال کر تاریخی حقائق اور قائد اعظمؒ کی پوری جدوجہد کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
ہم اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ان تاریخی چودہ نکات کا حوالہ دینا چاہیں گے جو انہوں نے قیام پاکستان سے دو عشرے قبل ۱۹۲۸ء میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے الگ الگ تشخص کے عنوان سے پیش کیے تھے۔ اس کے بعد یہی چودہ نکات قائد اعظمؒ کی سیاسی جدوجہد کا نقطۂ آغاز بنے جس کا نتیجہ تحریک پاکستان اور پھر قیام پاکستان کی صورت میں نمودار ہوا۔ یہ چودہ نکات قائد اعظمؒ نے مسلمانوں کے مطالبات کے ٹائٹل کے ساتھ قومی سیاست میں متعارف کرائے تھے اور ان میں دیگر مطالبات کے علاوہ یہ مطالبات بھی کیے گئے کہ
- مرکزی مقننہ میں مسلمانوں کی کم از کم ایک تہائی نمائندگی ہو۔
- صوبوں کی تقسیم میں آئندہ کوئی ایسی تبدیلی نہ کی جائے جو صوبہ سرحد، پنجاب، بنگال کی مسلم اکثریت پر اثر انداز ہو سکے۔
- دستور میں ایسی گنجائش رکھی جائے کہ ذمہ دار عہدوں اور سرکاری ملازمتوں میں صلاحیت اور کارکردگی کے لحاظ سے مسلمانوں کو بھی برابر کا حصہ مل سکے۔
- دستور میں ایسے تحفظات رکھے جائیں جن میں مسلم تہذیب و تمدن کی حفاظت و ترقی، مسلمانوں کی تعلیم، زبان، رسم الخط، پرسنل لاء، مسلم اداروں کی ترقی، اور مسلمانوں کی ترقی و امداد کے لیے حکومت کے وظائف میں سے مناسب حصہ مل سکے۔
- مرکزی اور صوبائی کابینہ میں کم سے کم ایک تہائی مسلم وزراء ہوں۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے چودہ نکات میں سے ان چند نکات کا تذکرہ ہم نے صرف یہ بات واضح کرنے کے لیے کیا ہے کہ قائد اعظمؒ کی ساری سیاست کی بنیاد ہی مسلم اور غیر مسلم کے فرق اور اکثریت و اقلیت کے تناظر میں تھی۔ کیا فاروق ستار یہ بتائیں گے کہ یہ ’’مہاجر‘‘ کی اصطلاح کیا ہے اور ان کے آباؤ اجداد اور ہزاروں خاندانوں نے مسلم و غیر مسلم کے فرق اور اقلیت و اکثریت کے تناظر سے ہٹ کر کس بنیاد پر یہ ہجرت اختیار کی تھی؟ فاروق ستار کو کم از کم اپنے خاندانی پس منظر کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔