حدود آرڈیننس اور توہین رسالتؐ کا قانون

   
جون ۲۰۰۴ء

صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے حوالہ سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حدود آرڈیننس اور توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون پر نظرثانی کے حق میں ہیں اور اس مقصد کے لیے انسانی حقوق کا ایک قومی کمیشن قائم کیا جا رہا ہے جو پاکستان میں انسانی حقوق پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لے گا اور بہتری کے لیے اقدامات تجویز کرے گا۔

پاکستان میں اس وقت قانونی طور پر حدود شرعیہ نافذ ہیں اور توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کا قانون موجود ہے جن پر اگرچہ عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے لیکن ان کا رسمی اور قانونی نفاذ بھی ان حلقوں کو مسلسل کھٹک رہا ہے جو ملک میں اسلامی نظام اور قوانین کے نفاذ کی بجائے اسے ایک سیکولر اور لادین ریاست کی حیثیت دینا چاہتے ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں مغربی حکومتوں اور عالمی سیکولر قوتوں کی مکمل حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ متحدہ مجلس عمل، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اور دیگر دینی جماعتوں نے صدر پرویز مشرف کے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے اس نوعیت کے کسی بھی اقدام کی مزاحمت کا اعلان کیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ حدود آرڈیننس اور توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم برداشت نہیں کی جائے گی۔

ہم اس سلسلہ میں دینی حلقوں کے موقف اور اعلان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور صدر پرویز مشرف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس اعلان کو واپس لیتے ہوئے ملک کے دینی حلقوں کو اعتماد میں لیں اور اسلامی جمہوری پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اسلامی تشخص کے خلاف کسی بھی اقدام سے گریز کریں کیونکہ ایسی کوئی بھی کوشش پاکستان کے دستور کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter