’’درس نظامی‘‘ کا پس منظر

   
تاریخ : 
۲۸ جولائی ۲۰۱۷ء

گزشتہ جمعرات (۲۰ جولائی) کو فیصل آباد میں مصروفیت رہی، جامعہ اسلامیہ محمدیہ میں بخاری شریف کے سبق کا آغاز تھا، اس میں پہلی حدیث کے درس کے ساتھ کچھ گزارشات پیش کیں اور اساتذہ و طلبہ کو درس نظامی کے پس منظر سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔

میں نے عرض کیا کہ عام طور پر ایک مغالطہ پایا جاتا ہے کہ درس نظامی کا یہ نصاب بغداد کے ملا نظام الدین طوسیؒ کا مرتب کردہ ہے جو وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں رائج رہا، مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ دراصل لکھنو کے ملا نظام الدین سہالویؒ کا مرتب کردہ نصاب ہے جو سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ کے معاصر تھے۔ ان کا تعلق انصاری خاندان سے تھا اور لکھنو کے قریب ایک بستی سہالی میں علماء کا یہ خاندان کئی نسلوں سے آباد تھا۔ اس خاندان کے ایک بزرگ ملا قطب الدینؒ کو وہاں کے ایک اور خاندان کے ساتھ جھگڑے میں شہید کر دیا گیا اور ان کا گھر بار سب کچھ جلا دیا گیا تو یہ لکھنو شہر میں آگئے۔ سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ نے انہیں فرنگی محل نامی ایک کوٹھی الاٹ کر دی جو کسی فرنگی تاجر کی تھی، وہ لاوارث فوت ہوا تو اسے مغل حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا اور سہالوی خاندان کو دے دی جہاں دینی مدرسہ قائم کیا گیا۔ یہ فرنگی محلی دینی درسگاہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں قائم چلی آرہی ہے۔ ملا نظام الدینؒ، جنہوں نے یہ نصاب ترتیب دیا، اس خاندان کے سربراہ تھے۔ اور اس خاندان کے مولانا عبد العلی لکھنویؒ، مولانا عبد الحی لکھنویؒ، مولانا عبد الحلیم لکھنویؒ، اور امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ جیسے بہت سے عظیم اکابر نے علمی و دینی خدمات سرانجام دیں-

ملا نظام الدین سہالویؒ نے اس دور میں دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھ کر تمام ضروری دینی و عصری علوم کو نصاب میں شامل کیا تھا۔ قرآن و حدیث ہماری تمام دینی ضروریات کی بنیاد ہیں جس کے لیے عربی زبان کی تعلیم لازمی ہے۔ فارسی اس دور کی دفتری اور عدالتی زبان تھی اور فقہ حنفی کو ملک میں رائج قانون کا درجہ حاصل تھا ۔اس کے علاوہ فلکیات (سائنس)، حساب (میتھ میٹکس)، ہندسہ (انجینئرنگ)، طب (میڈیکل)، وضع آلات (ٹیکنالوجی) اور دیگر فنون بھی اس نصاب کا حصہ تھے۔ اور یہ اس وقت کی دینی و قومی ضروریات پر مشتمل جامع نصاب تھا جو ۱۸۵۷ء تک ہندوستان میں رائج رہا۔

مغل حکومت کے خاتمہ کے بعد جب ۱۸۵۷ء میں برطانوی حکومت نے اس ملک کا نظام سنبھال کر فارسی کی جگہ انگریزی کو دفتری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کر دیا، اور اس کے ساتھ ہی فقہ حنفی کو عدالتوں سے بطور قانون ختم کر کے انگریزی قوانین نافذ کر دیے، تو نئے تعلیمی نظام میں فقہ اور فارسی کا کوئی کردار باقی نہ رہا۔ جبکہ نئے تعلیمی نظام میں قرآن و حدیث، عربی زبان اور اس سے متعلقہ علوم کی بھی پہلے والی حیثیت باقی نہ رہی تو بعض بزرگوں نے قرآن و حدیث، فقہ اسلامی اور عربی و فارسی کے مضامین کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے نجی سطح پر دینی مدارس کا یہ سلسلہ شروع کر دیا۔ اس لیے کہ ان علوم کی دینی و معاشرتی ضرورت بدستور موجود تھی اور ان کی تدریس و تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جانے سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ اگلی، دوسری اور تیسری نسل کا قرآن و حدیث اور ماضی کے علمی و دینی لٹریچر کے ساتھ خدانخواستہ کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا۔ چنانچہ چند دینی مدارس سے اس پرائیویٹ تعلیمی نظام کا آغاز ہوا جو ان بزرگوں کے خلوص اور للہیت کی برکت سے آج پورے جنوبی ایشیا میں لاکھوں مدارس کے وسیع نیٹ ورک کی صورت میں مصروف عمل ہے اور تمام تر مخالفت اور رکاوٹوں کے باوجود بحمد اللہ تعالیٰ دن بدن وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ درس نظامی کے نصاب میں اس وقت کی دینی اور قومی ضروریات کے حوالہ سے تمام ضروری دینی و عصری علوم و فنون شامل تھے جن کی ایک چھت کے نیچے تعلیم دی جاتی تھی۔ ملک کے تمام لوگ حتٰی کہ غیر مسلم بھی یہی نصاب پڑھتے تھے۔ مگر ۱۸۵۷ء کے بعد یہ نصاب دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ دینی مدارس کے نصاب کو ’’دینی علوم‘‘ سے تعبیر کیا گیا جبکہ اسکول و کالج کے نصاب کو ’’عصری علوم‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ تقسیم اب بھی موجود ہے اور اس تقسیم کی ذمہ داری خواہ مخواہ دینی مدارس پر ڈالی جا رہی ہے جو تاریخی حقائق کے یکسر منافی ہے۔ اس لیے کہ اسکول، کالج اور یونیوسٹی کے نصاب سے قرآن و حدیث، فقہ اور عربی زبان کو نکال دیا گیا تھا اور نئے ریاستی نصاب سے خارج کیے گئے ان علوم کی تدریس کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے دینی مدارس وجود میں آئے تھے۔ اس لیے دینی و عصری علوم کی تقسیم اور نصاب کی دوئی کی ذمہ داری دینی مدارس پر نہیں ہے بلکہ اس تقسیم کا آغاز ان علوم کو ریاستی نصاب سے خارج کرنے والوں نے کیا تھا اور وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ حتیٰ کہ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ دینی مدارس تو اپنے نصاب میں مڈل اور میٹرک کی عصری تعلیم کو شامل کر چکے ہیں مگر کالج اور یونیورسٹی کا نظام قرآن و حدیث اور عربی زبان کی بنیادی تعلیم کو اپنے نصاب کا حصہ بنانے کے لیے اب بھی تیار نہیں ہے۔

تاریخ کے ایک شعوری طالب علم کے طور پر مجھے یہ الزام قبول کرنے سے قطعی انکار ہے کہ نصاب تعلیم کی دینی و عصری دائروں میں تقسیم کی ذمہ داری دینی مدارس پر عائد ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس تقسیم کو ختم کر کے یکساں نصاب تعلیم رائج کرنا ضروری ہے تو اس کی ذمہ داری صرف دینی مدارس پر عائد نہیں ہوتی کہ وہ مڈل، میٹرک اور ایف اے وغیرہ کو نصاب کا حصہ بنائیں، بلکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن و سنت، فقہ و شریعت اور عربی زبان کو اپنے نصاب میں شامل کریں، اس لیے کہ اس کے بغیر نصاب میں یکسانیت اور وحدت پیدا کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

جامعہ اسلامیہ محمدیہ سے فارغ ہو کر حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے مرکز غلام محمد آباد میں حاضری ہوئی جہاں مغرب کے بعد ختم نبوت ایجوکیشنل سنٹر میں ’’حج تربیتی نشست‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا، اس میں حج بیت اللہ شریف کے حوالہ سے چند گزارشات پیش کیں۔ جبکہ اس موقع پر پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی نے اپنے گھر میں حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے حلقہ کے سرکردہ خطباء کرام مولانا محمد رفیق جامی، مولانا عبید الرحمان ضیاء، مولانا حق نواز خالد، مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا محمد امجد، مولانا خالد محمود قاسمی اور دیگر حضرات کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کر رکھا تھا۔

میں نے اس ملاقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان حضرات سے عرض کیا کہ حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی کا اپنا ایک دائرہ اور ذوق تھا۔ انہوں نے توحید و سنت کے فروغ، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور صحابہ کرامؓ کے ناموس کے دفاع کے شعبوں میں نمایاں جدوجہد کی ہے اور ان کا ایک تاریخی کردار ہے۔ وہ مسلکی دائروں میں جدوجہد کے امتیاز کے ساتھ ساتھ قومی و ملی معاملات میں بھی اعلیٰ سطح پر شریک رہتے تھے، اور اس ذوق و کردار کی آج زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے خوشہ چینوں سے میری گزارش ہے کہ وہ دینی جدوجہد کے اس قاسمی ذوق کو منظم کرنے کی ازسرنو محنت کریں اور اِدھر اُدھر گھومنے کی بجائے اپنے حلقہ کو مربوط بنانے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ میں نے ایک اور گزارش بھی کی کہ آپس کے گروہی تنازعات میں وقت اور صلاحیت کو ضائع نہ کریں اور خاموشی کے ساتھ مثبت انداز میں اپنا کام جاری رکھیں، کیونکہ بہت سی مخالفانہ باتوں کا سب سے بہتر جواب خاموشی ہوتا ہے جسے آج کے دور میں ’’نو کمنٹ از اے گڈ کمنٹ ‘‘ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ’’قاسمی خاندان‘‘ اور ان کے رفقاء و احباب کو حضرت قاسمیؒ کی دینی جدوجہد کے تسلسل کو جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کی مسلسل توفیق سے نوازیں۔

ایک اور گزارش بھی اس سفر کے حوالہ سے مناسب معلوم ہوتی ہے کہ جامعہ اسلامیہ محمدیہ کے مہتمم حضرت مولانا عبد الرزاق صاحب کا پرزور تقاضہ ہے کہ جامعہ فتحیہ لاہور کی طرح جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد کے لیے بھی ہفتہ میں دو گھنٹہ فارغ کرنے کی کوئی صورت نکالوں، میں انکار نہیں کر سکا خدا کرے کہ کوئی قابل عمل صورت بن جائے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter