برصغیر میں ماضی قریب کی دینی جدوجہد پر ایک نظر

   
مجلس صوت الاسلام پاکستان
۱۹ فروری ۲۰۱۶ء

(آن لائن تربیتِ خطباء کورس کی ایک نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ نو آبادیاتی دور میں عیسائی ممالک نے دنیا کے مختلف حصوں پر قبضے جمائے اور مسلمان ممالک میں سے کوئی فرانس کے تسلط میں چلا گیا، کوئی برطانیہ، کوئی ہالینڈ، کوئی پرتگال اور کوئی اٹلی کے قبضے میں چلا گیا۔ مجموعی طور پر تقریباً ایک صدی ایسی گزری ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت غیر مسلم مسیحی قوتوں کے تسلط میں تھی۔ اس کو استعماری اور نو آبادیاتی دور کہتے ہیں جس میں اٹلی، فرانس، ہالینڈ، اسپین اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ مصر وغیرہ کے علاقے پر فرانس کا زور زیادہ تھا، ہمارے مشرقی ایشیا میں ہندوستان پر برطانیہ کا زور تھا، مشرق بعید انڈونیشیا وغیرہ ہالینڈ کے، اور لیبیا وغیرہ اٹلی کے قبضے میں تھے۔ یہ ہمارا ایک نو آبادیاتی اور استعمار کا دور گزرا ہے جس میں کسی ملک نے دو سو سال، کسی نے ڈیڑھ سو سال، اور ہم نے تقریباً ایک سو نوے سال غلامی کا دور گزارا ہے۔متحدہ ہندوستان جس میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور برما شامل تھے، جو جنوبی ایشیا کہلاتا ہے، یہاں برطانیہ نے بالواسطہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ایک سو سال حکومت کی ہے اور پھر نوے سال براہ راست برطانیہ کی حکومت رہی ہے۔ ۱۸۵۷ء میں ہمیں آخری فیصلہ کن شکست ہوئی تھی، اس سے پہلے بنگال، میسور، پشاور وغیرہ مختلف علاقوں میں مزاحمت چلتی رہی۔ پنجاب میں ساہیوال وغیرہ کے علاقے میں، اور سندھ میں راشدی سلسلہ نے بھی مزاحمت مسلح کی ۔ ۱۸۵۷ء میں ہم مکمل طور پر پسپا ہو گئے، برطانیہ نے پوری طرح تسلط جما لیا اور ہم زیرو پوائنٹ پر چلے گئے تھے۔

اس کے بعد یہاں کے ہندوؤں کے ساتھ ہمارے معاملات کیسے رہے اس پر بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بر صغیر جنوبی ایشیا میں ہندوؤں کے ساتھ ہمارا پہلا دور تو وہ تھا جب یہاں محمد بن قاسمؒ آئے اور راجہ داہر سے جنگ ہوئی، محمود غزنویؒ آئے تو سومنات تک ہندوؤں سے لڑائی ہوئی۔ پھر شیر شاہ سوری اور مغلوں کی آپس میں بھی لڑائی ہوئی لیکن وہ دونوں ہندوؤں سے بھی لڑتے رہے، اور باوجود ہندو غالب اکثریت کے ایک ہزار سال تک مسلمان ہی حکومت کرتے رہے ہیں۔ ہم نے طاقت کے زور پر قبضے کیے اور طاقت کے زور پر قبضے قائم رکھے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھیں کہ کسی سوسائٹی اور ماحول پر قبضہ کر لینا آسان ہوتا ہے لیکن قبضہ قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ اصولی سی بات ہے کہ قابض قوت کے پاس طاقت کے علاوہ اخلاقی قوت اور عقیدہ و نظریہ بھی ہوگا تو تسلط قائم رہے گا ورنہ قبضہ بس طاقت تک ہی رہے گا۔ اگر پیچھے کوئی فلسفہ، کوئی عقیدہ، کوئی روحانیت، وجدانیات اور کوئی اخلاقیات ہوں گی تو وہ قبضہ آگے چلے گا۔ چنانچہ مسلم حکمرانوں نے اگرچہ یہاں طاقت کے بل پر قبضہ کیا تھا، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، ظہیر الدین بابر، ہمایوں اور شیر شاہ سوری رحمہم اللہ ہماری قوت کی علامتیں ہیں، لیکن ہمارے قبضے کا تسلسل اس لیے رہا کہ ہمارے پاس عقیدہ، اخلاقیات اور روحانیات کی قوت بھی تھی جس نے ہمیں ایک ہزار سال تک قبضہ برقرار رکھنے میں مدد دی۔

یہ بات سمجھانے کے لیے اس کی ایک اور مثال دینا چاہوں گا کہ صرف طاقت بس قبضہ کرواتی ہے، اگر طاقت کے ساتھ کوئی عقیدہ، فلسفہ اور نظریہ حیات نہ ہو تو وہ قبضہ زیادہ دیر نہیں رہتا۔ تاتاریوں نے بغداد پر قبضہ کر کے ہم پر تسلط قائم کر لیا تھا اور ہر طرف تباہی پھیر دی تھی، اتنی تباہی شاید کبھی نہ ہوئی ہو جتنی ان کے ہاتھوں ہماری ہوئی ہے۔ انہوں نے شام، مصر اور عراق سب علاقے روند ڈالے تھے، لیکن چونکہ کوئی اخلاقی قدریں، کوئی عقیدے کی قوت ان کے پیچھے نہیں تھی، اس لیے طاقت کے بل پر ہم پر فتح پانے کے باوجود تاتاری عقیدے اور اخلاقی قدروں کے محاذ پر پسپا اور سرنڈر ہوئے بلکہ خود اسلام قبول کر کے پھر انہوں نے خلافت سنبھالی۔ اصل قوت عقیدے اور نظریے کی قوت ہوتی ہے، اصل قوت فلسفہ اور اخلاقی قدریں ہوتی ہیں۔ یہ قوت ہو تو قبضے برقرار رہتے ہیں، ورنہ نہیں۔ تاتاریوں کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ تاتاری اتنے زور سے اٹھے کہ شاید ان کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت نہ ٹھہر سکتی، انہوں نے ہمیں شکست دی لیکن پھر ہم سے شکست کھائی اور اس کے بعد اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے، کیونکہ ان کے پاس کوئی عقیدہ اور فلسفہ نہیں تھا، جب تک قوت تھی تو ٹھیک رہے، جب قوت ختم ہوئی تو خود سرنڈر ہونا پڑا۔

برصغیر میں ہمارے ساتھ قبضے کی قوت کی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایمانیات کی قوت بھی تھی اور اخلاقی قدریں بھی تھیں۔ اس بات کو بغور سمجھیں کہ ہمارے ہاں ہندوستان میں قبضہ تو ان جرنیلوں نے کیا لیکن اسلام کے فروغ میں ان سے کہیں زیادہ کردار صوفیاء کرامؒ حضرت سید علی ہجویریؒ اور خواجہ معین الدین چشتیؒ وغیرہم کا ہے۔ ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ ایک بزرگ آ کر بیٹھ گئے اور ان کی اخلاقیات، ایمانی قوت، دیانت و اخلاص، اور ان کی برکات سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہوتے چلے گئے۔ قبضہ محمود غزنویؒ نے کیا لیکن کلمہ معین الدین چشتیؒ نے پڑھایا۔ یہ ایک حقیقت ہے، ہمیں یہ فرق کرنا ہوگا۔ ان جیسے بزرگ آ کر بیٹھ گئے اور اللہ کا نام لینا شروع کر دیا، لوگوں نے ان کی برکات محسوس کیں، ان کی دیانت اور خلوص کو دیکھا اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے لگے۔

متحدہ ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ اور دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ صوفیاء کرام بنے، لیکن انڈونیشیا اور ملائشیا وغیرہ میں اسلام کی دعوت کا ذریعہ تاجر بنے۔ انڈونیشیا اور ملائشیا وغیرہ جسے مشرقِ بعید کہتے ہیں، بمبئی سے آگے پوری پٹی جس میں فلپائن، تھائی لینڈ اور ہانگ کانگ ہیں، آپ کو اس وقت شاید دنیا کے مجموعی مسلمانوں کا ایک چوتھائی حصہ فار ایسٹ میں ملے، وہاں کروڑوں مسلمان ہیں، آٹھ نو کروڑ مسلمان تو صرف چین میں ہی ہیں ایک جگہ پر۔ یہ تلوار سے مسلمان نہیں ہوئے بلکہ مسلمان تاجروں کے طرز عمل، اخلاقیات اور دیانت سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان والوں کو صوفیاء نے کلمہ پڑھایا اور فار ایسٹ کی پوری پٹی پر کلمہ پڑھانے کا ذریعہ عرب مسلمان تاجر بنے۔

دعوت کی اصل قوت ایمان و اعمالِ صالحہ، سلوک و احسان، اخلاق اور دیانت ہے۔ میں دعوت کا کام کرنے والے حضرات خواہ علماء ہوں یا کوئی اور، ان سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ان صوفیاء کرام اور ان تاجر گروپوں کا مطالعہ کریں جو دنیا کے اس خطے میں تبلیغ اسلام کا ذریعہ بنے۔ اور جتنے لوگ بھی مسلمان ہوئے ان کی اکثریت وہ ہے جو کسی اللہ والے سے متاثر ہوئی۔ تاتاری بھی کسی صوفی سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے کہ ایک اللہ والا وہاں چلا گیا، اس نے جا کر ایسا گھیرا کہ لوگ اسی کے ہو کر رہ گئے۔ اللہ والے بڑے عجیب طریقے سے گھیرتے ہیں۔ ان کا گھیرنے کا طریقہ ڈنڈا نہیں ہوتا بلکہ وہ پیار محبت سے قابو کر لیتے ہیں۔ تاتاری بھی صوفیاء کرام کے ہاتھوں مسلمان ہوئے اور ہندوستان کی اکثریت بھی صوفیاء کے ہاتھ پر مسلمان ہوئی۔ کوئی اللہ والا بزرگ کہیں جا کر بیٹھ جائے تو اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں، اس پر آج کے دور کا ایک حوالہ دینا چاہوں گا۔ ہمارے دور کی بات ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہؒ ۱۹۴۸ء میں پیرس جا کر بیٹھے، ابھی چند سال پہلے ان کا انتقال ہوا ہے۔ ان کے ہاتھ پر کلمہ پڑھنے والے فرانسیسیوں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ ہمارا آنکھوں دیکھا آج کے دور کا واقعہ ہے۔ ان کا کام یہی تھا کہ میں نے دین کی دعوت دینی ہے، دین سمجھانا ہے، اور اگر کسی کو شک و شبہ ہے تو اسے دور کرنا ہے۔ تقریباً پینتالیس پچاس سال کے عرصے میں ایک آدمی نے مغرب کے دل پیرس میں بیٹھ کر تیس ہزار سے زیادہ لوگوں کو مسلمان کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خواجہ معین الدین اجمیریؒ کے ہاتھ پر تیس لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھا تھا۔ پہلے یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آیا کرتی تھی کہ ایک آدمی کتنے لوگوں کو مسلمان کر سکتا ہے، لیکن ڈاکٹر حمید اللہ کی یہ بات پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ اس سے زیادہ بھی ممکن ہے۔

بہرحال میں نےیہ بات عرض کی کہ ہندوستان پر ہم نے قبضہ تو تلوار کے زور سے کیا تھا لیکن یہ قبضہ ایمان، دیانت، خلوص، اخلاقیات اور رواداری کے زور سے برقرار رہا۔ چنانچہ دیگر ممالک میں جنہوں نے بھی حکومت طاقت کے زور پر کی، کسی دور میں بھی ہماری اکثریت نہیں رہی، اس دوران حکومت ہماری رہی ہے اور اس کا ذریعہ قبضہ بھی تھا۔ میں طاقت کی نفی نہیں کرتا، لیکن صرف طاقت نہیں تھی، ساتھ عقیدہ، اخلاقیات، دیانت، امانت اور کردار بھی تھا۔ محمد بن قاسمؒ کی سوانح پڑھیں، وہ سندھ کے فاتح ہیں۔ حجاج بن یوسفؒ کے بھتیجے تھے اور انہوں نے ہی محمد بن قاسمؒ کو یہاں بھیجا تھا۔ حجاج کی وہاں سیاسی مخاصمت چل رہی تھی، جب تک وہ اقتدار میں رہے محمد بن قاسمؒ کے ہاتھ مضبوط رہے، لیکن جب مرکز دمشق میں حجاج کے مخالف حکومت آ گئی اور حجاج اور اس کے سارے ساتھی موسٰی بن نصیر اور محمد بن قاسم وغیرہ رحمہم اللہ سمیت عتاب میں آ گئے تو حجاج نے محمد بن قاسمؒ کو واپس بلا لیا۔ پھر جس کسمپرسی میں محمد بن قاسمؒ اور موسٰی بن نصیرؒ نے آخری وقت گزارا، یہ ہماری تاریخ کا بڑا المناک باب ہے۔ ہم تو اس کو فاتح کہتے ہیں لیکن سیاسی مخاصمت کی وجہ سے اس نے بڑی کسمپرسی میں، جیل کے ماحول میں اور بڑی خرابی کے ساتھ آخری وقت گزارا، کیونکہ نئے خلیفہ حجاج بن یوسف کے مخالف تھے تو انہوں نے حجاج کے مقرر کیے ہوئے سارے لوگوں کو معزول کر دیا تھا اور مصیبت کا شکار کر دیا تھا۔

جو بات میں کہنے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ محمد بن قاسمؒ جب یہاں سے جانے لگا تو یہاں کے لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ مت جاؤ۔ ہندوؤں نے کہا ہم تمہارے ساتھ ہیں، تم یہاں حکومت کرو۔ لیکن محمد بن قاسمؒ نے کہا کہ میں نے جانا ہے، تو یہاں کی عام آبادی سڑکوں پر نکل آئی اور روتے ہوئے محمد بن قاسمؒ سے کہنے لگے خدا کے لیے واپس نہ جاؤ، تم ہمارے لیے رحمت کا دیوتا ہو۔ یہ کیا تھا؟ یہ تلوار کی طاقت نہیں تھی بلکہ اس کے اخلاق اور دیانت کی قوت تھی، اس کا خلوص اور اس کا طرز عمل تھا، جس نے ان لوگوں کو اتنا متاثر کیا کہ پوری آبادی باہر نکل آئی۔ لیکن اس نے کہا کہ مجھے حکم ہے، میں امیر کا پابند ہوں، واپس جا رہا ہوں، واپس جا کر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

میں یہ بتا رہا ہوں کہ اقتدار کے لیے کچھ طاقت ضروری ہے اور طاقت کا اظہار بھی ضروری ہے لیکن صرف طاقت تباہی ہے۔ ہم نے جو ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی تو طاقت کے ساتھ ہمارا ایک پورا نظام تھا جس کے تحت ہم نے لوگوں کو عدل اور انصاف فراہم کیا۔ ہم نے وہ نہیں کیا جو اسپین میں عیسائیوں نے قبضہ کرنے کے بعد کیا تھا ۔ ہمارا رویہ یہ تھا کہ ہم اقتدار کے زور پر تم سے کلمہ نہیں پڑھوائیں گے، جی چاہتا ہے تو کلمہ پڑھو ،نہیں چاہتا تو تمہاری مرضی ہے، بہرحال تم یہاں رہو، ہم تمہارے ساتھ عدل اور انصاف کریں گے۔ مغلوں، لودھیوں اور غزنویوں کا یہی رویہ رہا کہ عوام کے ساتھ انہوں نے انصاف کیااور عدل فراہم کیا، جس کی بنیاد پر ہم ایک ہزار سال چلتے رہے۔

آج ہمارا نظام کیا ہے؟ آپ پاکستان اور کسی مغربی ملک میں بدعنوانی اور اہلیت کے حوالے سے تقابل کریں تو نہیں کر سکیں گے، نہ پاکستان کا نہ مصر کا، نہ کسی اور مسلمان ملک کا۔ ہم کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں،ہماری تجارت میں دیانت نہیں ہے، ہماری گفتگو میں انصاف نہیں ہے، اور ہمارے طرز عمل میں رواداری نہیں ہے۔ ہم جہاں ڈنڈی مارنا چاہیں تو ڈنڈی نہیں بلکہ ڈنڈا مارتے ہیں۔ آج کے دور میں جبکہ ہم پسے ہوئے ہیں بین الاقوامی تجارت میں ہمارا کوئی اعتماد نہیں ہے۔ ہم پہلی دفعہ مال صحیح بھیج دیتے ہیں، دوسری دفعہ دو نمبر ،تیسری دفعہ تین نمبر بھیجتے ہیں، اور چوتھی دفعہ وہ منگواتے ہی نہیں ہیں کہ چھٹی کرو۔ اس بات کا اگر آپ تجزیہ کریں کہ بین الاقوامی تجارت میں ہمارا معیار کیا ہے اور کیوں ہے؟ میرا ایک ذوق ہے کہ میں جہاں جاتا ہوں یہ چیز دیکھتا ہوں، میں نے نیویارک اور دبئی کی مارکیٹیں اور سعودی عرب کے بڑے بڑے شاپنگ پلازے دیکھے ہیں کہ وہاں کس کا مال ہے، کیوں آ رہا ہے، کیسے آ رہا ہے؟ پاکستان کا مال کیوں نہیں آرہا؟ انڈیا کا مال کیوں آ رہا ہے؟ چائنہ کا مال کیوں چل رہا ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے مال سے لوگوں کو دلچسپی تو ہے لیکن اعتماد نہیں ہے۔ دنیا میں اس وقت بھی بہترین باسمتی چاول اور بہترین آم پاکستان کا ہے، اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، لیکن ہمارا باسمتی چاول انڈیا کی مہر کے ساتھ بک رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی مہر پر کسی کو اعتماد نہیں ۔ ملتان اور مظفرگڑھ کا آم دنیا میں جاتا ہے جو انڈیا کی مہر کے ساتھ بکتا ہے کیونکہ انڈیا کا اعتماد بین الاقوامی مارکیٹ میں قائم ہے اور ہمارا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ آج ہم اخلاقیات، دیانت، انصاف اور رواداری میں بہت پیچھے ہیں، جس قوت کے بل پر ہم نے ایک ہزار سال حکومت کی تھی، آج وہ قوت ہم نے کھو دی ہے۔

بہرحال ایک دور وہ ہے جب ہم نے ہندوستان پر حکومت کی لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد وہ دور ختم ہو گیا تھا۔ تاریخ بالکل ایک نیا رخ مڑ رہی تھی۔ اس سے پہلے اقتدار کی بنیاد قبضہ، طاقت اور قوت ہوتی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد ایک نیا نظام سامنے آیا۔ اب مستقبل یہ تھا کہ آئندہ برصغیر میں انگریز جب تک رہے گا حکومت کرے گا، اور جب وہ یہاں سے جائے گا تو یہاں کے اقتدار کا فیصلہ اب بندوق نہیں کرے گی بلکہ آبادی کرے گی۔ جس کی اکثریت ہوگی وہ حکومت کرے گا، جس کے ووٹ زیادہ ہوں گے اس کا اقتدار ہو گا۔ اب پرانا دور گزر گیا کہ خاندان یا طاقت کی بنیاد پر حکومت چلے گی۔ اس بات نے خطرات پیدا کر دیے کہ آئندہ اگر ووٹ پر فیصلے ہونے ہیں، اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر فیصلے ہونے ہیں، تو پھر ہم مسلمان ہندوؤں کے ماتحت ہی رہیں گے کیونکہ اکثریت تو ہندوؤں کی ہے۔ اس خوف اور خطرہ کے نتیجے میں ۱۸۵۷ء کے بعد دو علمی اور فکری تحریکیں اٹھیں، ایک دیوبند اور دوسری علی گڑھ، دونوں دورِ زوال کی پیداوار ہیں۔

دیوبند کے پیچھے خوف کیا تھا؟ ۱۸۵۷ء کے تقریباً‌ دس سال کے بعد دیوبند بنا ، اس کے پیچھے خوف یہ تھا کہ اگر فارسی، عربی اور قرآن و حدیث کی تعلیم باقی نہ رہی تو ہماری اگلی نسل مسلمان نہیں رہے گی، اسلام ختم ہو جائے گا۔ اور ایسا ہو جایا کرتا ہے، اسپین پر ہم نے آٹھ سو سال حکومت کی، اس کے بعد جب ملکہ ازابیلا وغیرہ نے قبضہ کیا اور عیسائی تسلط قائم ہوا تو وہاں کی مسلم آبادی کو ختم ہونے یا تبدیل ہونے میں ایک سو سال بھی نہیں لگا، کیونکہ وہاں اپنے ماضی سے تعلق رکھنے کی کوئی فکری تحریک نہیں تھی۔ ملکہ ازابیلاا اور بادشاہ فرڈیننڈ نے اعلان کر دیا کہ عیسائیت قبول کرو یا ملک چھوڑ دو، ورنہ قتل کر دیں گے۔ چنانچہ اسپین کی ایک بڑی آبادی نے ملک چھوڑ دیا، ایک بڑی تعداد عیسائی ہو گئی، بہت سے لوگ قتل ہو گئے، اور مسلم اندلس پچاس ساٹھ سال میں مسیحی اسپین میں دوبارہ تبدیل ہو گیا تھا۔ شمالی امریکہ کے ممالک میں جو اسپینش آبادی ہے وہ وہی لوگ بتائے جاتے ہیں جنہوں نے سمندر عبور کیا، کچھ راستے میں مر گئے، کچھ وہاں پہنچے۔ آج خود امریکہ میں بھی اسپینش دوسری بڑی قومیت ہے۔ چنانچہ دیوبند کے پیچھے یہ خوف تھا کہ اگر ہم نے یہاں فارسی، عربی ، قرآن مجید کی تعلیم اورمسجد کی آبادی کو قائم نہ رکھا تو ہندوستان بھی اسپین میں بدل جائے گا اور اگلی نسل مسلمان نہیں رہے گی۔ اس خطرہ نے ان بزرگوں کو اس کام پر ابھارا کہ جہاں تک ممکن ہو ہم نے عربی تعلیم، قرآن کی تعلیم ، مسجد کی آبادی ، نماز ، دینی اعمال اور عقائد باقی رکھنے ہیں، محدود سہی لیکن باقی رہیں، تاکہ ہندوستان کو اسپین بننے سے بچایا جا سکے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ یہ بات پورے اعزاز اور فخر کے ساتھ تاریخ کا حصہ ہے کہ دیوبند کے چند اکابر کی سوچ اور اخلاص نے ہندوستان کو اسپین بننے سے بچا لیا، یہ ان کا کریڈٹ ہے۔

علی گڑھ بالکل دیوبند کے متوازی علمی فکری تحریک تھی ۔اس کے پیچھے خوف یہ تھا کہ اگر آنے والے دور میں فیصلے ووٹ نے ہی کرنے ہیں تو اکثریت ہندوؤں کی ہے، ہم اقتدار اور نظام میں شریک نہیں ہوں گےتو ہم پر ہندوؤں کی حکومت ہوگی، اس لیے ہمیں اپنا تشخص الگ کرنا چاہیے ۔ سر سید احمد خان مرحوم نے کہا کہ ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ ہم الگ تشخص اور الگ حقوق رکھتے ہیں۔ مغلوں کے آخری دور میں ہندو ابھرے تھے، قوت بنی تھی اور ان میں رد عمل پیدا ہوا تھا کہ ہم پر مسلمان ایک ہزار سال حکومت کرتے آرہے ہیں اور ہم پر ان کا غلبہ ہے۔ چنانچہ مرہٹوں کی قوت ابھرتے ابھرتے دہلی تک جا پہنچی تھی۔ اس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہؒ کو متحرک ہونا پڑا تھا، ان کی تحریک پر احمد شاہ ابدالیؒ آیا تھا اور پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کو شکست دے کر ہندو قوت کو جنوبی ہند میں روک دیا تھا۔ چنانچہ ہندو اکثریت کے ذہن میں بھی یہ بات پیدا ہو رہی تھی کہ اکثریت ہماری ہے لیکن ہم پر حکومت ہزار سال مسلمان کرتے رہے ہیں، اس پر ری ایکشن پیدا ہواتھا اور ہندو منظم ہونا شروع ہو گئے تھے۔

اور یہ بھی فطری بات تھی کہ جب انگریزوں نے برصغیر کا نظام سنبھالا تھا تو انہوں نے اقتدار مسلمانوں سے لیا تھا، اس لیے اب آئندہ انہوں نے مسلمانوں کا راستہ روکنا تھا جس کے لیے ہندوؤں کو آگے لانا ضروری تھا۔ انگریزوں کی پالیسی یہ تھی کہ اب ہندوؤں کا جو غصہ ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں آگے لائیں، لہٰذا وہ انتظامی عہدوں، ملازمتوں اور تمام معاملات میں ہندوؤں کو ترجیح دیتے تھے کہ یہ ہزار سال سے پسے ہوئے ہیں ،مسلمانوں کے مقابلے میں یہی معاملات سنبھالیں گے۔ اس صورتحال نے مسلمانوں میں یہ خوف پیدا کر دیا تھا کہ آئندہ ہم ہندؤں کے مغلوب ہو جائیں گے اس لیے ہمیں اپنا امتیاز الگ کرنا چاہیے۔ مسلمان کو بحیثیت مسلمان الگ رکھیں گے تو شاید بچ جائیں، اور اگر مجموعی سوسائٹی میں رہے تو نہیں بچ پائیں گے۔ یہ سرسید مرحوم کا خوف تھا، انہوں نے آواز اٹھائی کہ مسلمانو! انگریزی تعلیم حاصل کرو تاکہ تم نظام کا حصہ بن سکو، عدلیہ اور بیورو کریسی میں جا سکو، اگر تم انگریزی تعلیم حاصل نہیں کرو گے تو تمہاری کوئی ملازمت نہیں ہوگی اور تم ’’کمی‘‘ ہو جاؤ گے، ہندو انگریزی تعلیم حاصل کر کے سارے نظام پر قبضہ کر لے گا اور تمہارا اس نظام میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ یہ علی گڑھ کا خوف تھا۔

ہم دیوبند اور علی گڑھ کو آمنے سامنے کھڑا کر کے دیکھتے ہیں حالانکہ ہمیں یہ چاہیے کہ ان کو اپنی اپنی جگہ کھڑا کر کے دیکھیں کہ اپنی جگہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اپنی جگہ اِن کا خوف بھی درست تھا اور اُن کا خوف بھی درست تھا۔ اس خوف کا مقابلہ کرنے کے لیے سر سید احمد خان نے دو باتوں کو مہم بنایا۔ ایک تو یہ کہا کہ انگریزی تعلیم حاصل کرو تاکہ دفتری اور عدالتی ملازمتیں حاصل کر سکو اور نظام کو سنبھالنے میں آگے بڑھو کہ ہندو بالکل تم پر مسلط ہی نہ ہو جائے۔ دوسرا ۱۸۵۷ء کے نتائج میں ایک بات یہ تھی کہ فارسی زبان بالکل ختم ہو گئی تھی اور انگریزی سرکاری زبان بن گئی تھی۔ لیکن عوامی سطح پر فارسی کی جگہ کسی زبان نے لینی ہے؟ پہلے تو عدالت ، دفتر اور گفتگو میں فارسی ہی تھی، جو انگریز نے ختم کر دی تو اب اس کی جگہ کونسی زبان آئے گی؟ اس کے لیے انگریز کی کوشش تھی کہ انگریزی کو پورے ملک کی زبان بنا دیا جائے، جو ابھی تک نہیں بن سکی۔ تب دو زبانوں کا مقابلہ شروع ہوا ہندی سنسکرت کا اور اردو کا۔

اردو مستقل زبان نہیں تھی، یوں سمجھ لیں جیسے اب انگریزی کے غلبے کے بعدہم آدھی اردو اور آدھی انگلش بولتے ہیں، اسی طرح اس زمانے میں ترکی زبان ، فارسی زبان اور ہندی زبان سے مل کر شہروں میں جو مخلوط زبان بن گئی تھی وہاں سے اردو کا وجود ہوا۔ اس نئی زبان کو مسلمانوں کی زبان کہا جاتا ہے کہ اس کی تشکیل میں مسلمانوں کا کردار زیادہ ہے اور اس کی ترقی، تحفظ اور پھیلاؤ میں بھی مسلمانوں کا کردار زیادہ ہے۔ یہ مستقل موضوع ہے ۔ مرزا غالب، مومن خان مومن، ابراہیم ذوق وغیرہ اردو ادب و انشاء کے ادیب سب مسلمان ہیں۔ اور آپ اس کو لطیفہ نہ سمجھیں، یہ حقیقت ہے کہ آج کی دنیا میں اردو کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ تبلیغی جماعت ہے۔ تبلیغی جماعت دنیا میں جہاں بھی جاتی ہے ’’فضائلِ اعمال‘‘ اردو ان کے ساتھ ہوتی ہے اوران کی اپنی زبان بھی اردو ہی ہے، تو اردو کے فروغ میں ان کا بڑا کردار ہے۔ پچھلے سال میں نے ’’الشریعہ‘‘ میں ایک رپورٹ چھاپی تھی کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بولنے کے لحاظ سے چینی دنیا کی سب سے بڑی اور اردو دوسری بڑی زبان ہے۔ جبکہ پھیلاؤ کے اعتبار سے اردو پہلے نمبر پر ہے، چینی تعداد میں زیادہ ہیں لیکن ایک علاقے میں ہیں، اردو آپ کو امریکہ میں بھی ملے گی، برطانیہ ،افریقہ اور عربوں میں بھی ملے گی، دنیا کا کوئی کونہ ہووہاں اردو ملے گی۔ میں نے ہانگ کانگ میں بھی جلسوں میں اردو میں تقریریں کی ہیں اور کیپ ٹاؤن ، نیویارک، لندن میں بھی۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ہماری یہ زبان کی لڑائی بھی ہےجو ہم بھول جاتے ہیں۔ ہماری ایک جدوجہد یہ تھی کہ ہم نے اپنی دینی، عربی تعلیم اور مسجد کے ماحول کو باقی رکھنا ہے، دوسری جدوجہد یہ تھی کہ ہم نے آنے والے نظام میں اپنا حصہ وصول کرنا ہے، اور تیسری جدوجہد یہ تھی کہ ہم نے ہندی کو مسلط نہیں ہونے دینا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد یہ تین لڑائیاں بیک وقت شروع ہوئیں، ان میں سے ایک لڑائی دیوبند نے اور دوسری لڑائی علی گڑھ نے لڑی ہے۔ سر سید کے عقائد کی تعبیر سے یقیناً اختلاف کیا گیا ہے جو بجا ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اردو کے تحفظ و فروغ اور فارسی کی جگہ اردو کو لانے میں سر سید کا کردار ہے ۔ اور انگریزی نظام میں شامل ہونا، جسے ہم تو اس پہلو سے دیکھتے تھے کہ ہم نے مسلمانوں کو انگریزوں کا ملازم بنا دیا، ٹھیک ہے یہ ہمارا اپنا ایک نقطہ نظر ہے، لیکن اسے اس پہلو سے دیکھیں کہ انگریزوں کے نظام میں مسلمانوں کو ملازمت فراہم کر کے ہندوؤں کے تسلط کو کم کیا ہے، یہ علی گڑھ کا کارنامہ ہے۔

یہ میں نے ۱۸۵۷ء کے بعد کی تین کشمکشوں کا ذکر کیا ہے، ہر ایک جز کی الگ تفصیلات ہیں، میں نے ہلکا سا خاکہ پیش کیا ہے اور تین حوالوں سے یہ بات کی ہے کہ ہم نے برصغیر میں مسجد، عقیدہ، عربی اور دینی تعلیم کی لڑائی لڑی ہے، اس کے علاوہ زبان کی لڑائی لڑی ہے کہ ہم نے اردو زبان کو باقی رکھنا ہے اور اسے فروغ دینا ہے، اور یہ کہ انگریزوں نے جو نظام قائم کیا ہے اس میں ہم بالکل بے دخل نہیں ہوں گے، بلکہ ہمارا بھی اس میں حصہ ہوگا، ہم بھی شریک ہوں گے۔

2016ء سے
Flag Counter