حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا فقہی ذوق و اسلوب

   
۶ ستمبر ۲۰۰۱ء

اسلام آباد میں ’’دفاع پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ کے اجلاس کے موقع پر حافظ محمد ریاض درانی سیکرٹری اطلاعات جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے یہ خوش خبری سنائی کہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے فتاویٰ کا پہلا حصہ جمعیت پبلی کیشنز لاہور کے زیر اہتمام شائع ہو گیا ہے اور وہ میرے لیے اس کا نسخہ ساتھ لائے ہیں۔ یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی اس لیے کہ مدت سے اس بات کی تمنا تھی کہ مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے فتاویٰ کا جو ریکارڈ موجود ہے وہ کسی طرح اشاعت پذیر ہو جائے ۔ الحمد اللہ کہ اس کا آغاز ہو گیا ہے اور کتاب العقائد، کتاب الطہارۃ، احکام مسجد اور مواقیت الصلاۃ کے بارے میں حضرت مفتی صاحبؒ کے فتاویٰ کا اہم حصہ ’’فتاویٰ مفتی محمودؒ‘‘ کی جلد اول کے طور پر مارکیٹ میں آچکا ہے۔ فتاویٰ مفتی محمودؒ کے آغاز میں ہمارے فاضل دوست مفتی محمد جمیل خان کا تحریر کردہ تفصیلی مقدمہ ہے جو فقہ کی تدوین، فقہ حنفی کی خصوصیات اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے فقہی ذوق و اسلوب کے حوالہ سے اہم معلومات پر مشتمل ہے اور اس میں حضرت مفتی صاحبؒ کے فقہی اسلوب و خدمات کے بارے میں ان کے بعض معاصر علماء اور اہل علم کے تاثرات بھی شامل کیے گئے ہیں۔

حضرت مولانا مفتی محمودؒ چونکہ عملی سیاست میں براہ راست شریک رہے ہیں، حکومت و اپوزیشن کے تجربات سے خود گزرے ہیں اور سیاست و پارلیمان کے ایوانوں میں ہر مکتب فکر اور ذہنی سطح کے لوگوں سے دینی مسائل کے حوالہ سے ان کا براہ راست رابطہ اور معاملہ رہا ہے اس لیے آج کے جدید مسائل کے حل اور اسلامائزیشن کی تحریک کو فکری و عملی طور پر درپیش مشکلات کے باب میں ان کی بصیرت و تجربہ کو یقیناً امتیاز و تخصص حاصل ہے اور اسی وجہ سے ان کے فتاویٰ کی اشاعت کی ایک مدت سے خواہش رہی ہے ۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے فقہی مقام اور ذوق و اسلوب کی ایک جھلک حضرت مولانا عبید اللہ دامت برکاتہم مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور کے ان تاثرات میں دیکھی جا سکتی ہے جو مفتی محمد جمیل خان نے ’’ فتاویٰ مفتی محمودؒ‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ شامل کیے ہیں۔

’’مفتی صاحب نے اس ملاقات میں مجھ سے ایسی ہی بہت سی باتیں کہیں جن سے میرے دل کو تسلی ہوئی۔ مجھے اس بالمشافہہ گفتگو سے اندازہ ہو گیا کہ مفتی صاحب اپنے دل میں اتحاد بین المسلمین کے لیے بڑی تڑپ رکھتے ہیں اور فرقہ واریت سے انہیں طبعی نفرت ہے، چونکہ اس وقت وہ نوجوان تھے اس لیے ایک نوجوان عالم کی زبانی اتنی سنجیدہ اور فکر انگیز گفتگو میرے لیے خوشی کا باعث بنی۔ نوجوان عموماً جذباتی ہوتے ہیں، ان کی سوچ بھی جذباتی ہوتی ہے، ان کے فیصلے بھی جذباتی ہوتے ہیں، مجھے اطمینان ہوا کہ ہمارے ہم عصر علماء میں وہ ایک پختہ فکر صائب الرائے اور زیرک انسان ہیں، ان کی یہی صفت میرے دل کو زیادہ بھائی۔ اس کے بعد ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں، ان ملاقاتوں میں علمی، سیاسی اور ملی مسائل کے علاوہ بین الاقوامی مسائل بھی زیر بحث آتے رہے اور ان کی فقہی رائے کو میں نے ہمیشہ قوی پایا۔ بعض مسائل میں وہ اپنی انفرادی رائے بھی رکھتے تھے، ایسی رائے کے حق میں ان کے پاس قوی دلائل ہوتے تھے ۔ مثال کے طور پر فقہی مسائل پر عمل کے سلسلہ میں ان کی رائے یہ تھی کہ مخصوص حالات میں ایک حنفی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی خاص مسئلے میں آئمہ اربعہ میں سے کسی کی پیروی کرے۔ ایسا آدمی ان کے نزدیک حنفیت سے خارج نہیں ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امام محمدؒ اور امام ابو یوسفؒ نے متعدد مسائل میں امام صاحبؒ سے اختلاف کیا ہے، ان کی اپنی ترجیحات ہیں لیکن ان پر حنفیت سے خروج کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، وہ اپنے اختلافات اور ترجیحات کے باوجود حنفی تھے۔ اسی طرح اگر کسی مسئلے میں امام صاحبؒ کا قول موجود نہ ہو یا قول تو موجود ہو مگر سمجھ نہ آئے یا سمجھ بھی آئے لیکن حالات کی خاص نوعیت کے تحت اس پر عمل ممکن نہ ہو تو کسی دوسرے امام کی پیروی درست ہو گی۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ایسی مشکل صورت پیش آجائے تو صاحبین کے قول پر عمل کیا جائے، اگر صاحبین کے قول میں بھی یہی صورت پیش آئے تو امام محمدؒ کے قول کو ترجیح دی جائے، اس کے بعد آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے اقرب قول پر عمل کر لیا جائے۔ ان کے نزدیک کسی خاص مسئلے میں خاص حالات میں خروج عن الحنفیت تو جائز ہے لیکن مذاہب اربعہ سے خروج جائز نہیں۔ اس نقطۂ نظر میں مفتی صاحبؒ منفرد تھے، تاہم وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ ایسا کرنا ان علما کا کام ہے جن کی مذاہب اربعہ پر وسیع نظر ہے، جو کسی مسئلے کے ترجیحی پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، عام آدمی کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرے کیونکہ ایسی اجازت دینے سے اس کے عقیدے میں خلل آسکتا ہے، لوگ اپنی مرضی سے ادھر ادھر بھٹکنے کے عادی بن سکتے ہیں۔ جب کہ ایسی صورت صرف اس وقت پیش آسکتی ہے جب ملکی قوانین کی تدوین کی صورت میں علماء کسی مشکل سے دوچار ہو جائیں تو اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکیں کیونکہ اصل چیز امام کا قول نہیں اصل چیز وہ نص ہے جس کی روشنی میں یہ قول متشکل ہوا ہے، یعنی منصوص چیز جو آئمہ اربعہ کرام کی عملی تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوئی۔ آئمہ اربعہ نے بے پناہ تحقیق و جستجو کے بعد قرآن و حدیث سے مسائل مستنبط کیے ہیں اس لیے یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ کسی مسئلے پر اگر احناف کے ہاں کوئی دلیل یا سند نہیں تو دوسرے مذاہب سے اسے لینا درست ہوگا، بشرطیکہ وہ وہاں بہتر صورت میں موجود ہو ۔‘‘

جبکہ محدث عصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس اللہ سرہ العزیز کے جانشین مولانا مفتی احمد الرحمانؒ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے بارے میں حضرت بنوریؒ کے تاثرات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ نے ان کو فقہ میں خاص مقام عطا فرمایا تھا۔ مولانا بنوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ اس وقت پاکستان میں ان سے بڑا کوئی مفتی نہیں۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ میری نظر وں میں آج تک کوئی ایسا عالم نہیں گزرا جس نے فقہ کی کتاب شامی کا بالاستیعاب تین دفعہ اول سے آخر تک پڑھا اور ان کو اس کتاب پر مکمل عبور حاصل ہے، کسی مسئلے پر آپ کے فتوے کے بعد کسی دوسرے فتوے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔‘‘

اسی طرح مولانا جسٹس محمد تقی عثمانی کا ارشاد ہے کہ

’’مفتی محمود صاحبؒ مسائل کے سلسلے میں تنگ نظر نہیں تھے کہ اس میں کوئی لچک ہی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اتنے وسیع نظر تھے کہ حلال و حرام کی تمیز ختم کر دیں، درمیانی طور پر جتنی مسئلے میں گنجائش ہوتی رعایت فرماتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو فقہ میں بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا اور اہل فتویٰ کی حیثیت سے ان کی رائے کو مستند سمجھا جاتا تھا۔ مفتیان کرام میں ان کا ایک خاص مقام تھا اور وہ مجلس میں ہمیشہ اپنے علم اور فضل کی بنا پر بھاری پڑتے تھے اور ان کا انداز بیان بہت ہی زیادہ دلکش ہوتا تھا۔‘‘

بہرحال حضرت مفتی محمودؒ کے فتاویٰ کی اشاعت کا آغاز خوش آئند ہے اور ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جمعیت پبلی کیشز کو اس کے باقی حصوں کی بھی جلد از جلد اشاعت کی توفیق عطا فرمائیں اور اسے زیادہ سے زیادہ علماء کرام، طلبہ اور دینی کارکنوں کے لیے استفادہ اور ذہنی و فکری تربیت کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter