مولوی اور وکیل

   
تاریخ: 
۳ مئی ۲۰۱۶ء

۲، ۳، ۴ مئی کو کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص اور خیرپور میں مختلف دینی مدارس کی سالانہ تقریبات میں شرکت کا موقع ملا جس کی کچھ ضروری تفصیلات چند کالموں میں عرض کرنے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ سردست ایک محفل کا ذکر کر رہا ہوں جس کا اہتمام ہمارے پرانے دوست جناب محمد اسلم شیخ ایڈووکیٹ نے ۳ مئی کو سیشن کورٹ میرپور خاص کے بار ہال میں سرکردہ وکلاء کے ساتھ ایک نشست کی صورت میں کیا تھا۔ پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات حافظ محمد بلال فاروقی میرے رفیق سفر تھے، وکلاء کے ساتھ اس ملاقات و گفتگو میں جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محمد اسلم شیخ ایڈووکیٹ ہمارے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں، دینی جدوجہد اور تحریکات میں ہماری رفاقت گزشتہ چار عشروں سے چلی آرہی ہے، ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آپ حضرات کے ساتھ اس ملاقات کا موقع فراہم کیا ہے اور میں دل کی چند باتیں آپ کے سامنے عرض کرنے کے لیے اس سے فائدہ اٹھا رہا ہوں۔ شیخ صاحب محترم نے ابھی میرا تعارف کراتے ہوئے ایک لمبی چوڑی فہرست آپ کے سامنے ذکر کی ہے جسے میں ان کے حسن ظن اور حوصلہ افزائی پر محمول کرتے ہوئے یہ گزارش کر رہا ہوں کہ میں صرف ایک ’’مولوی‘‘ ہوں اس کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ اور آپ حضرات چونکہ وکیل ہیں اس لیے ’’مولوی‘‘ اور ’’وکیل‘‘ کے تعلقات کے بارے میں چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔

مولوی شریعت اسلامیہ کے علوم و قوانین کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ آپ حضرات آج کے رائج الوقت قوانین اور قانونی نظام کے نمائندہ ہیں۔ جب پاکستان قائم ہوا تھا اور یہ طے پایا تھا کہ مروجہ دستوری اور قانونی نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس میں ضروری اصلاحات کے ساتھ ملک میں شرعی احکام و قوانین کی عملداری کا اہتمام کیا جائے گا اور ملک کے تمام طبقات نے اس سے اتفاق کر لیا تھا تو یہ بات ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کر گئی تھی کہ مولوی اور وکیل مل بیٹھیں اور باہمی مشورہ و مفاہمت کے ساتھ اس قومی خواہش اور ایجنڈے کی تکمیل کی کوئی عملی صورت نکالیں۔ کیونکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مولوی دینی علوم اور شریعت کے قوانین کا علم تو رکھتا ہے مگر مروجہ قوانین اور قانونی نظام کا علم اس کے پاس نہیں ہے۔ جبکہ وکیل مروجہ قوانین اور قانونی نظام کا علم و تجربہ تو رکھتا ہے مگر شریعت کے قوانین و احکام اس کے علم کے دائرہ میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ مولوی اور وکیل دونوں مل کر اس ذمہ داری کو قبول کریں اور اس کے لیے کام کریں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے ملک میں دستور اور قانون و شریعت میں سے کسی کی حکمرانی ابھی تک عملاً قائم نہیں ہو سکی۔

اس کے برعکس ہمارے درمیان طبقاتی انا اور نفسیات کی جو خلیج حائل تھی وہ مزید گہری ہوتی چلی گئی اور ہم دونوں طبقے آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ میں اس پر قومی تاریخ کے دو اہم واقعات کی طرف آپ حضرات کو توجہ دلانا چاہوں گا جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مولوی اور وکیل کے درمیان طبقاتی انا اور نفسیاتی برتری کی کس قدر گہری خلیج حائل ہے۔

جس زمانے میں مالاکنڈ ڈویژن میں صوفی محمد صاحب کی تحریک نفاذ شریعت محمدیؐ کا زور و شور تھا اور وہ لاکھوں عوام کو سڑکوں پر لا کر صوبائی حکومت سے نفاذ شریعت کا ایک ریگولیشن حاصل کر چکے تھے، میں نے اس دور میں مالاکنڈ ڈویژن کا دورہ کر کے رپورٹ لکھی تھی جو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے عوامی مطالبہ پر جاری کیے جانے والے نفاذ شریعت ریگولیشن کا اردو ترجمہ میں نے جب پڑھا تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اس میں لفظی ہیر پھیر کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے تحریک نظام شریعت محمدیؐ کے ذمہ دار حضرات سے بات کی تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ یہ اصل انگریزی میں تھا اس لیے ہم پڑھ نہیں سکے اور ہمیں جب بتایا گیا کہ اس میں آپ کے سارے مطالبات شامل ہیں تو ہم نے اس پر دستخط کر دیے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو اپنے ماحول میں سمجھدار اور دین دوست وکلاء میسر نہیں تھے کہ آپ ان سے راہ نمائی حاصل کر لیتے؟ تو جواب ملا کہ ہم نے ان کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ ہائی کورٹ کے کسی وکیل اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران سے اس سلسلہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں تو انہوں نے ڈی آئی جی پولیس اور ہائی کورٹ کے ایک سینئر وکیل سے ملاقات کا اہتمام کر دیا۔ محترم وکیل صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ کے سامنے یہ ساری تحریک چل رہی تھی اور آپ بھی شریعت کے نفاذ سے دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ نے آگے بڑھ کر راہ نمائی کیوں نہیں کی اور اس میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم چند وکلاء تحریک کے قائدین سے ملے تھے اور اپنی خدمات پیش کی تھیں مگر ہمیں یہ کہا گیا کہ یہ علماء کرام کا کام ہے آپ حضرات کا نہیں، اس لیے ہم واپس آگئے۔ میں نے دیکھا کہ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے ان وکیل صاحب کی آنکھیں نم آلود ہوگئی تھیں۔

دوسری طرف کا حال بھی دیکھ لیجیے جو آزاد کشمیر کے سابق صدر و وزیر اعظم سردار محمد عبد القیوم خان مرحوم نے مجھے خود ذاتی طور پر بتایا کہ جب انہوں نے آزاد جموں و کشمیر میں سیشن جج اور شرعی قاضی پر مشتمل مشترکہ عدالتی نظام تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تاکہ جج صاحبان اور علماء کرام مل بیٹھ کر شریعت اور قانون کی روشنی میں مشترکہ طور پر مقدمات کے فیصلے کریں تو ریاستی سطح پر ایک بڑی مشترکہ میٹنگ میں جج صاحبان کی طرف سے یہاں تک کہہ دیا گیا کہ ہم مولوی کو اپنے ساتھ بٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اگر ایسا کیا گیا تو ہم سب مستعفی ہو جائیں گے۔سردار صاحب مرحوم نے کہا کہ میں چونکہ یہ فیصلہ کر چکا تھا اور اس کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھا تو میں نے صاف کہہ دیا کہ یہ نظام تو بہرحال نافذ ہوگا، جو ساتھ نہیں چلنا چاہتا ہے وہ ابھی اسی اجلاس میں استعفیٰ لکھ کر گھر واپس چلا جائے۔ چنانچہ استعفیٰ تو کسی نے نہیں دیا مگر شریعت اور مروجہ قانون کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ عدالتی نظام آج بھی آزاد کشمیر میں کام کر رہا ہے اور اس سے ریاست کے عوام مستفید ہو رہے ہیں۔ میری رائے میں ملک بھر کے وکلاء، جج صاحبان، علماء کرام اور دینی کارکنوں کو اس سسٹم کا مطالعہ اور اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

یہ دو واقعات میں نے یہ بتانے کے لیے عرض کیے ہیں کہ ہمارے درمیان طبقاتی منافرت اور انا کا یہ ماحول ابھی تک قائم ہے۔ اور میرے نزدیک ملک میں دستور و قانون اور شریعت کی حکمرانی کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے۔ اس لیے محترم وکلاء کے ساتھ آج کی اس ملاقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم دونوں کو اس کا احساس کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی طرف آگے بڑھنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے بغیر ہم ملک و قوم کو قانون و شریعت کی عملداری کے ٹریک پر نہیں لا سکتے۔ جبکہ اس سلسلہ میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ کرتے ہوئے ہم دونوں خدا، قوم اور تاریخ کے مجرم ہوں گے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۸ مئی ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter