غیر سودی نظام اور ہمارے معاشی ماہرین

   
مئی ۱۹۹۸ء

روزنامہ جنگ لاہور نے ۱۷ اپریل ۱۹۸۹ء کے شمارے میں خبر دی ہے کہ ملکی اور غیر ملکی بینکوں کے ماہرین نے مالیاتی اداروں اور بینکوں میں سود کا نظام ختم کرنے کو ناقابلِ عمل قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے بینکنگ سسٹم خطرہ میں پڑ جائے گا۔ خبر کے مطابق ایک غیر ملکی بینک کے سابق ایگزیکٹو نعیم خان نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں سود سے پاک کاروبار ممکن نہیں ہے اور غیر ملکی بینک نئے نظام میں آپریشن جاری نہیں رکھ سکیں گے۔

یہ خبر عین اس وقت سامنے آئی ہے جبکہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے وفاقی وزیر مذہبی امور راجہ محمد ظفر الحق کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جا چکی ہے جس میں غیر سودی معیشت کے ڈھانچے اور بینکاری نظام کا ایک قابل عمل خاکہ تجویز کیا گیا ہے، اور ملک کے دینی حلقوں کی طرف سے سودی نظام کے خاتمہ کے لیے حکومت پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، بلکہ بعض قریبی ذرائع کے مطابق حکومت اس سلسلہ میں پیشرفت کے امکانات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ ان حالات میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ماہرین کے حوالہ سے اس موقف کا اعادہ، کہ سود کے بغیر معاشی نظام کو چلانا ممکن نہیں ہے، اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ سود کے محافظ عناصر پوری طرح چوکس ہیں اور یہ ایسی پیشرفت کو سبوتاژ کر دینے کے لیے مستعد ہیں جو ملک میں سودی نظام کو کمزور کرنے کی کسی بھی درجہ میں باعث بن سکتی ہو۔

اس موقع پر کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر مسئلہ کے دو پہلوؤں پر ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں:

(۱) ایک یہ کہ عالمی سطح پر معاشی ماہرین سود کے نقصانات و مضرات بھگتنے کے بعد اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں ہیں اور اس سے نجات کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ چنانچہ پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ لکھنؤ کی ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۶ء کی اشاعت کے مطابق انڈیا کے ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر منظور عالم نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ عالمی بینک نے ۱۹۹۶ء۔۱۹۹۵ء کی رپورٹ میں واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ

’’دنیا میں امیری اور غریبی کے درمیان خلیج بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ سود ہے۔‘‘

جبکہ جریدہ ’’نیویارک‘‘ ۱۹۹۶ء کے پہلے شمارے میں کہا گیا ہے کہ

’’یورپ اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو جب ہی کم کیا جا سکتا ہے جب سود کی شرح کم سے کم سطح پر لائی جائے۔‘‘

اور اس سے کم سے کم شرح کو معاشیات کے عالمی شہرت یافتہ ماہر جے ایم کیس نے یوں بیان کیا ہے کہ

’’مکمل روزگار کے حصول کے لیے سود کی شرح کو صفر کرنا ہو گا۔‘‘

چنانچہ مغربی ممالک کے بہت سے بینک جن میں سٹی بینک، دی بینک آف آئرلینڈ، اور اے این جیڈ گریڈلیز بینک بھی شامل ہیں، سود سے پاک اسلامی نظامِ معیشت کو اسٹڈی کر رہے ہیں، اور ان میں سے کچھ بینکوں نے ’’اسلامک ونڈوز‘‘ کے نام سے غیر سودی بینکاری کے تجرباتی شعبے بھی قائم کر دیے ہیں۔ مگر ہمارے معاشی ماہرین ان عالمی تبدیلیوں پر نظر ڈالے بغیر آنکھیں بند کر کے وہی پرانا سبق دہراتے جا رہے ہیں کہ سود کے بغیر معاشی نظام کو چلانا ممکن نہیں ہے۔ کسی شاعر نے شاید اسی صورتحال کو یوں بیان کیا ہے کہ

؏ ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلمان ہو گیا

(۲) دوسری گزارش ہے کہ ہمارے ماہرینِ معیشت بنیادی طور پر اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ دنیا کے موجودہ اقتصادی نظام اور معاشی ڈھانچے کے فریم ورک میں رہتے ہوئے اسی میں اسلام کے غیر سودی نظام کو فٹ کرنا ہے اور فٹ نہیں ہو رہا۔ یہ سوچ قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ اسلام تو اس پورے معاشی ڈھانچے کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا، وہ اس کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کو کیسے قبول کرے گا؟ یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے موجودہ اقتصادی نظام میں غیر سودی معیشت کو فٹ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اسلامی نظامِ معیشت کوئی ’’سپیئر پارٹ‘‘ نہیں ہے جسے ہم کسی دوسری مشینری میں فٹ کر کے اس سے فائدہ حاصل کر سکیں، بلکہ یہ تو ایک مستقل اور متوازی سسٹم ہے اور اسے مکمل سسٹم کے طور پر اپنا کر ہی ہم اس کی برکات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

اس لیے ہم اپنے معاشی ماہرین سے گزارش کریں گے کہ وہ اگر غیر سودی نظام کی افادیت اور ضرورت سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں تو موجودہ عالمی نظامِ معیشت کے فریم ورک سے بالاتر ہو کر صورتحال کا جائزہ لیں اور اس ’’کنویں‘‘ سے باہر نکل کر حقائق کی وسیع دنیا کا مشاہدہ کریں، انہیں خودبخود اندازہ ہو جائے گا کہ سود نے نسلِ انسانی کو معاشی طور پر کن تباہ کاریوں سے دوچار کیا ہے اور انسانی معاشرہ کو تباہی کی اس دلدل سے نکالنے کے لیے غیر سودی معیشت کس قدر ضروری ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter