سینٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے چیئرمین سینیٹر حافظ حمد اللہ نے گزشتہ روز سینیٹر پروفیسر ساجد میر، سینیٹر ایم حمزہ اور دیگر سینیٹرز کے ایک وفد کے ہمراہ ننکانہ صاحب میں سکھوں کے گوردوارے کا دورہ کیا اور سکھ راہنماؤں کے ساتھ باہمی دلچسپی کے مختلف معاملات پر تبادلۂ خیالات کیا۔ سینٹ کی مذہبی امور کی قائمہ کمیٹی کی تو دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں رہنے والے تمام غیر مسلموں کے معاملات کی دیکھ بھال کرے، ان سے رابطہ رکھے اور متعلقہ امور میں ان سے مشاورت کا اہتمام کرے، جبکہ اس حوالہ سے میرا یہ ذاتی ذوق ہے کہ دیگر مذاہب کے بارے میں کتابی معلومات کے ساتھ ساتھ مشاہدات اور روابط کو بھی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ان کے حوالہ سے کوئی رائے قائم کرنے میں کوئی جھول نہ رہ جائے۔
اس سلسلہ میں اپنے بعض مشاہدات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا لیکن اس سے پہلے یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ بخاری شریف کی روایت میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہودیوں کے ایک ’’بیت المدراس‘‘ میں تشریف لے جانے اور ان سے گفتگو کا تذکرہ ملتا ہے، جبکہ تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں جب بیت المقدس فتح ہوا اور وہ اس کی چابیاں وصول کرنے کے لیے خود وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ یہودیوں کی قدیمی عبادت گاہ کو عیسائیوں نے قبضے کے بعد مسمار کر کے وہاں کوڑے کرکٹ کا ڈھیر لگا رکھا تھا جس کا باعث ان کی یہودیوں سے نفرت تھی۔ حضرت عمرؓ نے خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وہاں سے کوڑا کرکٹ اٹھایا اور اسے عبادت کے لیے صاف کیا۔ مگر جب نماز کا وقت آیا اور ساتھیوں نے حضرت عمرؓ سے وہاں نماز ادا کرنے کے لیے کہا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر میں نے یہاں نماز پڑھ لی تو تم لوگ اس پر قبضہ کر لوگے جبکہ یہ یہودیوں کی عبادت گاہ ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو حاصل سیاسی اور شہری حقوق میں ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ اور احترام بھی شامل ہے جو اسلام کی شاندار تعلیمات اور روایات کا روشن باب ہے۔
میں ایک دفعہ ننکانہ صاحب کسی پروگرام کے لیے گیا تو دوستوں سے خواہش کی کہ یہ گوردوارہ میں دیکھنا چاہتا ہوں، انہوں نے وہاں کے مذہبی راہنما سے رابطہ کیا انہوں نے بخوشی اجازت دی اور ہم چند دوستوں نے وہاں حاضری دے کر مختلف آثار کا مشاہدہ کیا۔ ۱۹۸۰ء کے دوران دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں علماء کرام کا ایک بڑا قافلہ دیوبند گیا تھا جس میں والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ بھی شامل تھے۔ میرا ویزا قافلہ کے ساتھ لگا تھا لیکن قافلہ کے ساتھ سفر کرنے کی بجائے یہ سارا سفر میں نے اکیلے کیا۔ جاتے ہوئے تو ایک عذر کی وجہ سے ایسا ہوا مگر واپسی پر میری افتاد طبع اور ذوق و مزاج نے مجھے تنہا سفر پر آمادہ کیا اور میں دہلی، سہارنپور، لدھیانہ، مظفر نگر اور امرتسر وغیرہ سے گھومتا ہوا وطن واپس آیا۔ جوانی کا زمانہ تھا اس لیے اتنا بڑا رسک لے لیا ورنہ اب سوچتا ہوں تو جھرجھری سی آجاتی ہے کہ یہ سارا سفر میں نے باقاعدہ اجازت نامہ کے بغیر کیسے کر لیا۔ بہرحال امرتسر میں جلیانوالہ باغ، مسجد خیر الدین اور سکھوں کا سب سے بڑا گوردوارہ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ دیکھنے کا شوق تھا جو میں نے اکیلے ہی پورا کیا البتہ لدھیانہ میں حضرت مولانا سعید الرحمان لدھیانویؒ اور حضرت مولانا محمد احمد لدھیانویؒ کا چند روز مہمان رہا اور انہوں نے مختلف مقامات کی خوب سیر کرائی۔
امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مسلمان صوفیاء کرام کے ساتھ اپنی روایتی عقیدت کے باعث سکھ راہنماؤں نے حضرت میاں میر ؒ سے اس کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی تھی جو انہوں نے قبول فرمائی اور لاہور سے تشریف لے جا کر اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ گولڈن ٹیمپل کی مرکزی عمارت تک جانے کے لیے پانی کے ایک تالاب میں سے گزرنا پڑا جس میں ٹخنوں تک پانی تھا، اس تالاب اور پانی کو سکھوں کے ہاں بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔ میں بھی اس میں سے ننگے پاؤں گزر کر عمارت میں پہنچا اور وہاں سکھوں کو عبادت کرتے دیکھا۔
برطانیہ کے شہر برمنگھم میں سوہو روڈ پر سکھوں کا ایک بڑا گوردوارہ ہے جو چوبیس گھنٹے آباد رہتا ہے اور وہاں لنگر بھی چلتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور لکھنو کے حضرت مولانا سید سلیمان الحسینی کے ساتھ وہاں جانے کا پروگرام بن گیا۔ ہمارے ساتھ چند اور ساتھی بھی تھے، وہاں پہنچے اور استقبالیہ پر اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے بہت احترام اور پروٹوکول کا مظاہرہ کیا اور گوردوارے کی شب و روز سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ اس کے مختلف حصوں کا دورہ کرایا۔ مگر عبادت گاہ کے مرکزی ہال میں داخل ہونے کے لیے دو شرطیں سامنے آگئیں ۔ایک یہ کہ ننگے پاؤں ہی اندر جا سکتے ہیں جسے ہم نے کوئی حرج نہ سمجھ کر قبول کر لیا مگر دوسری شرط ہمارے لیے قابل قبول نہیں تھی، وہ یہ کہ عبادت گاہ کے وسط میں ان کے کوئی گرو اپنی مذہبی کتاب ’’گروگرنتھ‘‘ مسلسل پڑھتے رہتے ہیں اور ہال میں کسی بھی طرف سے داخل ہونے والوں کو اس کتاب کو سجدہ کرنا ہوتا ہے جسے وہ ’’ماتھا ٹیکنا‘‘ کہتے ہیں۔ ہم نے انکار کر دیا کہ یہ ہم نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ اس کے بغیر آپ ہال میں داخل نہیں ہو سکتے۔ دونوں طرف سے اصرار جاری تھا جس پر گوردوارہ کی پانچ رکنی کمیٹی کا جسے وہ ’’پنج پیارے‘‘ کہتے ہیں باقاعدہ اجلاس ہوا اور تھوڑی دیر غور و خوض کے بعد انہوں نے یہ کہہ کر اجازت دے دی کہ آپ حضرات معزز مہمان ہیں اس لیے آپ کو خالی واپس بھیجنے کو جی نہیں چاہتا ورنہ ہمارے ہاں اس کے بغیر ہال میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، آپ اگر ماتھا ٹیکنا نہیں چاہتے تو آپ کی مرضی ہے۔ چنانچہ ہم ماتھا ٹیکے بغیر اندر گئے اور کچھ دیر اندر رہ کر وہاں کا ماحول دیکھا۔
امریکہ کے ایک سفر میں حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ رفاقت تھی اور ہم دونوں شکاگو میں چنیوٹ کے ایک تاجر دوست ریاض وڑائچ صاحب مرحوم کے مہمان تھے۔ شکاگو میں مرزا بہاء اللہ شیرازی کے پیروکار ’’بہائیوں‘‘ کا بہت بڑا مرکز ہے جسے دیکھنے اور وہاں کی شب و روز کی سرگرمیاں معلوم کرنے کا مجھے تجسس تھا۔ مولانا چنیوٹیؒ سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ چھوڑو وہاں کون ہمیں اندر جانے دے گا (کون وڑن دیسی؟)۔ میں نے اصرار کیا تو آمادہ ہوگئے اور ہم اپنے میزبان ریاض وڑائچ صاحب کے ہمراہ وہاں جا پہنچے۔ منتظمین نے ہمیں پہچان لیا اور بڑے احترام کے ساتھ اپنے مرکز کا وزٹ کرایا۔ بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں موجود سب مذاہب برحق ہیں اور وہ سب کے جامع ہیں۔ اس کے اظہار کے لیے انہوں نے شکاگو کے اس مرکز کے مین ہال میں، جو بہت بڑا ہال ہے، ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کی عبادت گاہوں کا الگ الگ ماحول بنا رکھا ہے۔ ایک کونے میں مسجد ہے، دوسرے میں چرچ ہے، تیسرے میں مندر ہے اور چوتھے کونے میں یہودیوں کا سینی گاگ ہے جبکہ ہال کے وسط میں گوردوارہ اور بدھوں کی عبادت گاہ ہے اور ہر عبادت گاہ کو اس کا پورا ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ مسجد اس کونے میں ہے جدھر مکہ مکرمہ ہے، اس میں صفیں بچھی ہوئی ہیں، محراب ہے اور اس میں منبر ہے۔ مسجد کے ایک کونے کی الماری میں قرآن کریم کے چند نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ مرکز کے منتظمین کا کہنا تھا کہ ہر مذہب والے کو اپنی عبادت گاہ میں آنے اور اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے اور بہت سے لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ایک چھت کے نیچے مسجد، مندر اور چرچ کو دیکھ کر آپ کو کیسا لگا؟ میں نے کہا کہ مسجد اور چرچ تو آپ نے ایک چھت کے نیچے اور ایک چار دیواری کے اندر بنا دیے ہیں لیکن ایک خدا اور تین خداؤں کو کیسے جمع کر لیا ہے؟ مسکرا کر بولے کہ چھوڑیں یہ فلسفہ کی باتیں ہیں۔ میں نے کہا کہ فلسفہ کی نہیں بلکہ یہ عقیدہ اور ایمان کی بات ہے۔
ایک مرتبہ امریکہ کی ریاست الاباما کے شہر برمنگھم میں اپنے گکھڑ کے دوست افتخار رانا کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا انہوں نے بتایا کہ اس علاقہ میں اب بھی سیاہ فام عیسائیوں کے چرچ الگ ہیں اور گوروں کے چرچ الگ ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے چرچ میں نہیں جا سکتے۔ مجھے یقین نہ آیا اس لیے کہ امریکہ میں گوروں اور کالوں کا یہ فرق صدیوں سے چلا آرہا تھا اور ہر شعبے میں تھا حتیٰ کہ کالوں کے سکول، ہسپتال اور ریسٹورنٹ تک الگ ہوتے تھے۔ مگر سیاہ فام امریکی راہنما مارٹن لوتھرکنگ کی تحریک کے نتیجے میں صدر جان ایف کینیڈی نے اپنے دور میں قانوناً یہ فرق ختم کر دیا تھا اور کالوں کو برابر کے شہری حقوق دے دیے تھے۔ لیکن جب افتخار رانا نے بتایا کہ عبادت خانوں میں یہ فرق ابھی تک موجود ہے تو میں نے اصرار کیا کہ یہ فرق میں خود دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے آپ کو اتوار تک یہاں رکنا پڑے گا اس لیے کہ عیسائی عبادت گاہوں کی سرگرمیاں اتوار کے روز ہی ہوتی ہیں۔ میں رک گیا اور اتوار کو افتخار رانا کے ہمراہ برمنگھم الاباما میں کالوں اور گوروں کے الگ الگ عبادت خانوں کا مشاہدہ کیا، انہیں عبادت کرتے دیکھا اور کالوں کے چرچ کے چیف پادری سے، جن کا نام کیمبل تھا، مختلف معاملات پر گفتگو بھی کی۔
حافظ حمد اللہ صاحب کے دورۂ ننکانہ صاحب کی خبر پڑھ کر یہ چند مشاہدات ذہن کی اسکرین پر ابھر آئے جنہیں میں نے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مختلف مذاہب کے ماحول میں اسلام کی دعوت اور تعلیمات کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کے رویہ اور طرز عمل کی بھی صحیح نمائندگی کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔