ملکی صورتحال پر مغرب میں مقیم پاکستانیوں کی تشویش

   
۱۲ جون ۲۰۰۶ء

6 جون کو جب مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری اور مولانا عبد الحلیم لکھنوی کے ہمراہ فینس بری پارک کے علاقہ میں مولانا عتیق الرحمان سنبھلی کے گھر پہنچا تو ابتدائی مرحلے میں ملاقات کے سلسلہ میں مایوسی ہوئی کہ بار بار بیل بجانے کے باوجود اندر سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔ مولانا سنبھلی ان دنوں گھر میں اکیلے رہتے ہیں، اہلیہ محترمہ انڈیا گئی ہوئی ہیں۔ مولانا کی سماعت کام نہیں کرتی اور اگر کان سے آلۂ سماعت اترا ہوا ہو تو نہ بیل کی آواز سنتے ہیں اور نہ ہی فون کی گھنٹی انہیں متوجہ کر پاتی ہے، اس لیے بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ ہم تھوڑی دیر کی کوشش کے بعد واپسی کے لیے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے کہ مولانا نے ہمیں دیکھ لیا، وہ ڈاک چیک کرنے کے لیے نیچے اتر رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر بولے کہ میں تو صبح سے آپ کے انتظار میں تھا۔

مولانا عتیق الرحمان سنبھلی مولانا محمد منظور نعمانیؒ کے فرزند اکبر ہیں اور جنوبی ایشیا کی سطح پر بڑے علماء اور اہل دانش میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ایک مدت تک ماہنامہ الفرقان لکھنؤ کے مدیر رہے، اب بھی اس میں مسلسل لکھتے ہیں جبکہ ادارت کی ذمہ داری ان کے فاضل بھانجے مولانا محمد یحیٰی نعمانی نباہ رہے ہیں۔ مولانا سنبھلی گزشتہ ربع صدی سے لندن میں قیام پذیر ہیں اور علمی و دینی کاموں میں علالت اور بڑھاپے کے باوجود مصروف رہتے ہیں۔ میں ان کی خدمت میں حاضری کا اہتمام کرتا ہوں اور ملاقات و زیارت کے علاوہ مختلف امور میں استفادہ اور رہنمائی کا فائدہ اٹھاتا ہوں۔ ورلڈ اسلامک فورم کی فکری نشست میں سرسری ملاقات ہوگئی تھی مگر اصل ملاقات باقی تھی اس لیے حاضری ہوئی۔ البتہ یہ ملاقات تشنہ رہی اس لیے کہ وہ اپنے ایک قریبی دوست ڈاکٹر خالد کی اہلیہ کی وفات پر جنازے کے لیے جانے والے تھے۔ ڈاکٹر خالد کے ساتھ میرا تعلق بھی رہا ہے اور وہ مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم آف کندیاں شریف کے خصوصی متعلقین میں سے ہیں مگر سفر کے آخری دن کی طے شدہ مصروفیات کے باعث جنازہ میں شریک نہ ہو سکا، اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

جب مولانا سنبھلی کے ساتھ مولانا محمد عیسٰی منصوری کے ہمراہ ملاقات ہوتی ہے تو بہت سے معاملات پر گفتگو ہوتی ہے اور مولانا موصوف نے کئی سوالات ہمارے مضامین اور ماہنامہ الشریعہ کی پالیسی کے بارے میں بھی سنبھال رکھتے ہوتے ہیں جن کا مجھے بھی انتظار ہوتا ہے۔ مگر اس بار ایک تو مولانا منصوری ساتھ نہ تھے اس لیے کہ وہ ایک روز قبل مولانا سید سلمان الحسینی ندوی کے ہمراہ ایک تعلیمی کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکی جا چکے تھے اور دوسرا خود مولانا سنبھلی کو جنازے کے لیے جلدی روانہ ہونا تھا اس لیے سرسری ملاقات اور ایک دو مختصر باتوں کے بعد ہم ان سے رخصت ہوگئے۔

نارتھ لندن میں ’’کیئر لنک‘‘ کے نام سے ہمارے چند دوست ایک سماجی ادارہ چلا رہے ہیں، ان میں سے رفعت لودھی اور فیض اللہ خان کا تعلق پاکستان سے ہے جبکہ سلمان خان کا تعلق انڈیا سے ہے۔ ان کے ساتھ ملاقات اور دفتر میں حاضری کا پروگرام طے تھا۔ رفعت لودھی نے مجھے اور مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری کو مولانا سنبھلی کے گھر سے وصول کیا اور اس کے بعد دو تین گھنٹے ہم نے ’’کیئر لنک‘‘ کے دفتر میں گزارے۔ رفعت لودھی اور فیض اللہ خان کا تعلق ڈاکٹر میر معظم علی علویؒ کی تحریک سے بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کا تعلق تھانہ بھون کے علاقہ سے تھا، علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے، تحریک پاکستان میں سرگرمی سے حصہ لیا اور اس کے بعد پاکستان میں خلافت اسلامیہ کے احیا و قیام کے لیے مسلسل آواز اٹھاتے رہے۔ راسخ العقیدہ اور باعمل مسلمان تھے، دل میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی تڑپ رکھتے تھے اور اس کا مسلسل اظہار کرتے رہتے تھے، خلافت کے نظام اور اس کے نفاذ کی جدوجہد کے لیے اپنا ایک مستقل فلسفہ رکھتے تھے اور مختلف لیکچروں کی صورت میں اپنے ہم خیال حضرات کو اس کی تعلیم و تربیت دیتے تھے، میری ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور میں ان کے جذبۂ عمل سے ہمیشہ متاثر ہوا، ان کے لیکچروں کو جب کتابی شکل میں مرتب کیا گیا تو انہوں نے مجھے ان پر نظرثانی کے لیے کہا، میں نے نظرثانی کے ساتھ ساتھ اس پر مختصر مقدمہ بھی لکھا۔ ڈاکٹر صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو نظر و فکر کی فضا میں محو پرواز رہتے ہیں مگر آج کی بے رحم عملی دنیا کے پاس ان کی باتیں سننے کا وقت نہیں ہے۔ لاہور میں ان کی نمائندگی ہمارے محترم دوست مولانا خورشید احمد گنگوہی کرتے ہیں اور انہی کے لہجے میں خلافت کی صدا لگاتے رہتے ہیں۔ رفعت لودھی اور فیض اللہ خان ڈاکٹر صاحب مرحوم کے رفقاء میں سے ہیں، ان کے ساتھ جب بھی ملاقات ہوتی ہے عالم اسلام میں خلافت کے احیا کے امکانات پر گفتگو ہوتی ہے اور میں اس جذبۂ صادق میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہتا ہوں۔ مگر اس دفعہ بات چیت کا موضوع پاکستان میں عوام کو درپیش مسائل تھے اور عام آدمی کی زندگی گفتگو کا عنوان تھی۔

مغرب میں مقیم بہت سے مخلص پاکستانیوں کی طرح یہ دوست بھی اس بات پر سخت پریشان ہیں کہ پاکستان میں امارت بھی بڑھتی جا رہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی غربت میں بھی پیہم اضافہ ہو رہا ہے۔ عام آدمی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، علاج کی سہولتیں غریب آدمی کے لیے ناپید ہیں، سڑکوں اور راستوں کا برا حال ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور عام آدمی کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان حضرات کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے ہم کام کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں مشورہ دیں۔ میں نے گزارش کی کہ مجموعی صورتحال کی تبدیلی کے لیے تو اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے اور قومی سطح پر محنت درکار ہے۔ کیونکہ جب تک موجودہ نوآبادیاتی معاشی اور معاشی ڈھانچہ مسلط ہے صورتحال میں اجتماعی اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ اصلاح کی ہر کوشش کی راہ میں یہ ڈھانچہ رکاوٹ بن جاتا ہے، اس نظام میں ہمیشہ یہی ہوگا کہ قومی آمدنی میں اضافے اور قومی خزانے کے بھرے جانے کی خوشخبریاں روزانہ اخبارات کی زینت بنتی رہیں گی لیکن عام آدمی تک اس کا کوئی اثر اور فائدہ نہیں پہنچے گا، وہ بدستور غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستا رہے گا۔ قومی خزانہ اور دولت صرف چند خاندانوں اور طبقات تک محدود رہے گی، اس کے اثرات بھی انہی تک رہیں گے اور ان میں سے جو زیادہ طاقتور ہوگا وہ دولت اور اس کے اثرات بھی زیادہ سمیٹے گا۔ غریب اور متوسط درجے کے افراد کا کام محنت کرنا اور بالادست طبقات کی خوشحالی میں مزید اضافے کے لیے ٹیکس دینا ہی رہے گا۔ اس لیے اجتماعی محنت اور قومی جدوجہد کے بغیر مجموعی اصلاح کبھی نہیں ہو سکے گی۔

البتہ نچلی سطح پر کسی علاقہ کے لوگوں کے لیے بہتری کی جدوجہد کی جائے تو کچھ لوگوں کو فائدہ ہوگا اور ان کی مشکلات میں ضرور کمی ہو جائے گی۔ اس لیے خوشحال ممالک میں رہنے والے پاکستانی اگر اپنے اپنے علاقوں میں منظم طور پر تھوڑا بہت رفاہی کام کرتے رہیں تو اس سے نہ صرف یہ کہ بہت سے لوگوں کو فائدہ ہوگا بلکہ یہ جدوجہد ان ہزاروں این جی اوز کی سرگرمیوں کو بھی بیلنس کرے گی جو صحت و تعلیم اور دیگر عوامی ضروریات کے حوالے سے پورے ملک میں جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ یہ این جی اوز عام لوگوں کی تھوڑی بہت خدمت کرتی ہیں لیکن ان میں سے اکثر اس امداد کی آڑ میں اس مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بھی سرگرم عمل رہتی ہیں جو اس معاشرہ میں اسلامی اور مشرقی اقدار کو کمزور کرنے اور مغرب کے فلسفہ و تہذیب کے اثرات کو پھیلانے کے لیے طے کیا گیا ہے۔ اور بہت سی امدادی اور رفاہی این جی اوز کا اصل ایجنڈا وہی ہے۔

میں نے گزارش کی کہ پاکستان میں نچلی سطح پر رفاہی اور تعلیمی سرگرمیوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے، اس سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا اور بہت سے غریب افراد اور خاندانوں کے لیے سانس لینا آسان ہو جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی رفاہی اور تعلیمی سرگرمیوں کی آڑ میں عام مسلمانوں کو ان کے عقیدہ و ایمان اور تہذیب و ثقافت سے محروم کر دینے والی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے اگر مغربی ممالک میں مقیم پاکستانی اس سلسلہ میں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں رفاہی کام کریں اور خود اس کی نگرانی کریں تاکہ نہ تو ان کی رقم غلط جگہ صرف ہو اور نہ ہی ان کی محنت سے بے دینی پھیلانے کا ایجنڈا رکھنے والی این جی اوز فائدہ اٹھا سکیں۔

رفعت لودھی اور فیض اللہ خان نے میری باتوں سے اتفاق کیا بلکہ فیض اللہ خان نے، جو لندن کے ایک علاقہ کے منتخب کونسلر بھی ہیں اور ان باتوں کا عملی تجربہ رکھتے ہیں، میرے موقف کی تائید کی۔ ان حضرات سے اس سلسلہ میں بہت سے امور پر مشورہ ہوا اور طے پایا کہ وہ دو تین ماہ تک لاہور آئیں گے تو اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مزید مشاورت ہوگی اور عملی پروگرام کے لیے پیشرفت کا طریق کار طے ہوگا۔ ’’کیئرلنک‘‘ کے دفتر میں دو تین گھنٹے گزارنے کے بعد مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری نے مجھے وکٹوریہ ریلوے اسٹیشن سے کراؤلی کے لیے رخصت کیا۔ کراؤلی گیٹ وک ایئرپورٹ کے قریب ہے اور وہاں کی جامع مسجد قوۃ الاسلام کے خطیب مولانا قاری عبد الرشید رحمانی ہیں جن کا تعلق اچھڑیاں ہزارہ سے ہے، وہ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزارویؒ کے پوتے ہیں، اور میرے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔ عصر کی نماز کے بعد ان کی مسجد میں مختصر بیان ہوا، وہاں ان کے ساتھ بنوری ٹاؤن کے ایک فاضل مولانا عزیز الرحمان بھی ہیں جن کا تعلق مردان سے ہے، رات وہاں بسر کی، احباب کے ساتھ گپ شپ ہوئی۔ بدھ کو صبح گیارہ بجے گیٹ وک سے اتحاد ایئرویز کی پرواز سے روانہ ہوا، رات ابوظہبی ایئرپورٹ پر چار پانچ گھنٹے کا وقفہ تھا جو ایئرپورٹ کے ڈیوٹی فری شاپس کے علاقہ میں ’’ونڈو شاپنگ‘‘ میں گزارا اور اڑھائی بجے کے لگ بھگ ابوظہبی ایئرپورٹ سے اتحاد ایئرویز کے ذریعے روانہ ہو کر صبح سوا چھ بجے لاہور پہنچ گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter