اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا مالیاتی کمیشن

   
مارچ ۲۰۰۰ء

روزنامہ نوائے وقت کے مدیر محترم نے ۲۵ جنوری ۲۰۰۰ء کے ایک ادارتی شذرہ میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کی ہدایت پر ملک کے مالیاتی نظام کو سودی اثرات سے نجات دلانے اور اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جس مالیاتی کمیشن کا اعلان کیا ہے اس کے اکثر ارکان ایسے ہیں جو سودی نظام کے حق میں دلائل دیتے آ رہے ہیں، اس لیے ان سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرنے کے لیے کوئی مثبت اور مؤثر پیشرفت کر سکیں گے۔

وفاقی شرعی عدالت نے کچھ عرصہ قبل متعدد شہریوں کی درخواست پر ملک میں رائج تمام سودی قوانین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ ان قوانین کو ایک مقررہ مدت کے اندر ختم کر دیا جائے اور ملک میں غیر سودی مالیاتی نظام رائج کیا جائے۔ حکومت نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس پر سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے طویل سماعت کے بعد وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو بحال رکھا، اور حکومتی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ سودی قوانین کو ختم کیا جائے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان اعلیٰ اختیاراتی مالیاتی کمیشن تشکیل دے جو ملک کے مالیاتی نظام کو غیر سودی بنیادوں پر ازسرنو تشکیل دینے کے لیے تجاویز و سفارشات مرتب کرے۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے بینک کے سابق گورنر ایم آئی حنفی کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا ہے جس میں ممتاز عالم دین مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی بھی شامل ہیں۔

نوائے وقت کے مدیر محترم نے اسی کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں ایک دو افراد کے سوا باقی ارکان وہی ہیں جو اب تک سودی نظام کی حمایت کرتے رہے ہیں اور اس کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں، اس لیے غیر سودی مالیاتی نظام کی تشکیل کے لیے اس کمیشن کا قیام بجائے خود محلِ نظر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ روزنامہ نوائے وقت نے اس بات کی طرف بروقت توجہ دلائی ہے۔ اور اس سلسلہ میں نہ صرف حکومت کو نوٹس لے کر کمیشن کی تشکیلِ نو کرنی چاہیے، بلکہ ملک کی دینی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں تاکہ ملک کے مالیاتی نظام کو اسلامی احکام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے صحیح اور نظریاتی مسلمانوں پر مشتمل مؤثر کمیشن قائم ہو سکے۔

   
2016ء سے
Flag Counter