افغانستان کے بڑے شہروں پر طالبان کا کنٹرول ختم ہونے سے بعض حلقوں میں افسوس و حسرت کا یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ مدتوں بعد ایک نظریاتی اسلامی ریاست کا عملی نقشہ سامنے آیا تھا مگر اب اس کا جاری رہنا مشکل نظر آرہا ہے۔ پھر خدا جانے کب ایسے امکانات پیدا ہوں گے کہ ہماری آنکھیں خدا کی زمین پر خدا کے احکام کو نافذ ہوتا دیکھ سکیں گی۔ مجھ سے بھی کچھ دوستوں نے اس سلسلہ میں بات کی ہے مگر میں نے ان سے عرض کیا ہے کہ مایوس ہونے کی بات نہیں ہے، مشکلات آتی رہتی ہیں اور نظریاتی تحریکوں کو مدوجزر کے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اس لیے وقتی حالات سے حتمی نتیجہ اخذ کر لینا اور مایوسی کا شکار ہو جانا درست عمل نہیں ہے۔
اول تو یہ بات ہی محلِ نظر ہے کہ بڑے شہروں میں کنٹرول نہ رہنے سے طالبان کا وجود ختم ہوگیا ہے، کیونکہ طالبان نے بڑے شہروں کو خود خالی کیا ہے اور اپنی فورسز کو وہ ان پہاڑوں پر لے گئے ہیں جن پہاڑوں میں رہتے ہوئے افغانوں نے روسی استعمار کے خلاف دس سال تک جنگ لڑی تھی اور بالآخر اسے افغانستان چھوڑ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اسی طرح مستقبل قریب کا نقشہ بھی یہی نظر آرہا ہے کہ طالبان ان پہاڑوں پر مورچہ زن ہو کر امریکی اتحاد کی فوجوں اور ان کی حمایت سے بننے والی کابل حکومت کے خلاف گوریلا جنگ لڑیں گے، افغان قوم کی روایات کے مطابق جلد یا بدیر امریکی اتحاد کی فوجوں کو افغانستان چھوڑ دینے پر مجبور کر دیں گے، اور روس کے بعد امریکی پشت پناہی سے قائم ہونے والی کابل حکومت کے لیے بھی اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
لیکن اگر خدانخواستہ طالبان کا وجود ختم بھی ہوگیا اور وہ افغانستان کا کنٹرول دوبارہ حاصل نہ کر سکے تو بھی تاریخ میں ان کا یہ کردار کم نہیں ہے کہ انہوں نے ساری دنیا کی مخالفت اور دشمنی کے باوجود افغانستان میں اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ اور اس کی برکات کا عملی نمونہ آج کے دور میں دنیا کو دکھا دیا۔ اور شرعی قوانین کے ذریعہ ایک تباہ شدہ معاشرہ میں مکمل امن قائم کر کے ثابت کر دیا ہے کہ آج بھی انسانی سوسائٹی کو امن قرآن و سنت کے فطری قوانین کے ذریعہ ہی مل سکتا ہے۔ اس لیے اگر خدانخواستہ طالبان اپنی حکومت کا تسلسل قائم نہ رکھ سکے تو بھی اس دور میں مکمل شرعی نظام کے نفاذ کا آغاز اور اس کا عملی نقشہ پیش کرنا ان کا وہ روشن کارنامہ ہے جو دنیا میں کسی بھی اسلامی حکومت کے قیام کے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گا، اور اس کے آغاز کا کریڈٹ ہمارے دور کے حوالہ سے طالبان کے نام پر تاریخ کے ریکارڈ میں درج ہو چکا ہے۔
باقی رہی بات ایک اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد اس کے ختم ہونے کی تو اس سے قبل کئی بار ایسا ہو چکا ہے۔ اندلس میں صدیوں تک اسلامی حکومت رہی ہے جو آج موجود نہیں ہے۔ شہدائے بالا کوٹ نے ۱۸۳۰ء میں پشاور میں اسلامی حکومت قائم کی تھی جو ایک سال بھی نہ چل سکی مگر ان کا مشن بدستور زندہ ہے اور طالبان کی یہ حکومت بھی اسی مشن کا تسلسل ہے۔ اس طرح کے سانحات تاریخ میں کئی بار ہوئے ہیں مگر اسلام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا، وہ نہ صرف موجود ہے بلکہ فطری انداز میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اسے قیامت تک زندہ رہنا ہے، زندہ جسم میں زخم لگتے ہیں اور مندمل ہو جاتے ہیں، گھاؤ لگتے ہیں اور بھر جاتے ہیں، بسا اوقات اعضا بھی ٹوٹ جاتے ہیں مگر جسم کی زندگی اور نشوونما کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اس پس منظر میں اٹھارہویں صدی عیسوی کے دوران جنوبی ہند میں قائم ہونے والی ایک اسلامی ریاست کا ذکر کرنا چاہوں گا جو ۱۷۶۱ء میں قائم ہوئی اور ۱۷۹۹ء میں سلطان ٹیپوؒ کی شہادت کے ساتھ ختم ہو گئی۔ لیکن چالیس سال سے بھی کم عرصہ قائم رہنے والی اس اسلامی ریاست نے برصغیر کے مسلمانوں کو زندہ رہنے اور آزادی کے حصول کے لیے لڑنے مرنے کا حوصلہ بخشا۔ آج ہم آزاد ہیں اور پاکستان کے نام سے ایک اسلامی ریاست کا پرچم دنیا میں لہرائے ہوئے ہیں تو اس کے پیچھے ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ کا چالیس سالہ شاندار دور اور سلطان ٹیپوؒ اور ان کے رفقاء کی قربانیاں بھی تاریخی پس منظر کے طور پر کارفرما نظر آرہی ہیں۔
سلطان ٹیپوؒ کا تعلق ایک عرب خاندان سے تھا، اس خاندان کے ایک بزرگ حسن بن یحیٰیؒ پندرہویں صدی عیسوی کے ساتویں عشرے میں خلافت عثمانیہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے گورنر رہے ہیں، ان کے خاندان کے کچھ لوگ تلاشِ روزگار میں بغداد، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے پنجاب میں آ بسے اور ایک عرصہ پنجاب میں گزارنے کے بعد جنوبی ہند کی طرف نکل گئے۔ سلطان ٹیپوؒ کے دادا فتح محمد مغلیہ دور میں سپاہیانہ خدمات سرانجام دیتے رہے جبکہ والد حیدر علی میسور کی ریاست میں راجہ کرشنا راج کی فوج میں ایک عام سپاہی کے طور پر بھرتی ہوئے اور خداداد صلاحیتوں اور نمایاں خدمات کی وجہ سے سپہ سالار کے منصب تک پہنچ گئے۔ ۱۷۶۱ء میں میسور کی ریاست راجہ کرشنا راج کے ساتھ اردگرد کے راجاؤں کی مسلسل کشمکش اور جنگوں کی وجہ سے صرف ۳۳ گاؤں تک محدود رہ گئی اور راجہ کے لیے اس کو باقی رکھنا بھی مشکل ہوگیا تو سپہ سالار حیدر علی نے ریاست پر قبضہ کر لیا اور ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ کے نام سے مستقل حکومت قائم کر لی۔ سلطان حیدر علی اور اس کے فرزند سلطان ٹیپو نے تھوڑے عرصہ میں ہی اس سلطنت کا دائرہ اس قدر وسیع کر لیا کہ اس کی سرحد شمال میں دریائے کرشنا اور جنوب میں کیرالہ تک پھیل گئی جبکہ اس کا رقبہ اس دور میں اَسی ہزار مربع میل بتایا جاتا ہے۔
یہ وہ دور تھا جب دہلی کی مغلیہ سلطنت کمزور پڑ چکی تھی اور اس پر قبضہ کرنے کے لیے ایک طرف سے انگریز آگے بڑھ رہے تھے جو ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہیدؒ کو شکست دے کر اپنی حکومت کو مستحکم کر چکے تھے جبکہ دوسری طرف سے مرہٹوں کی طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اس دور میں حیدر آباد بھی ایک طاقتور ریاست سمجھی جاتی تھی مگر اسے انگریزوں نے اپنے گماشتوں کے ذریعہ قابو میں رکھا ہوا تھا چنانچہ اس نے ہمیشہ اس خطہ میں انگریزوں کا ہی ساتھ دیا۔ حیدر علیؒ کی قائم کردہ یہ نئی ریاست ان سب طاقتوں کو کھٹک رہی تھی اور ان سب نے باری باری اور پھر متحد ہو کر اس سلطنت کو ختم کرنے کی کوششیں کی مگر حیدر علیؒ نے انتہائی حوصلہ اور تدبر کے ساتھ ان سب قوتوں کا مقابلہ کیا اور سلطنت خداداد کا وجود نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس کی وسعت، ترقی اور استحکام میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
۱۷۶۷ء میں انگریزوں، مرہٹوں، حیدر آباد، اور تامل ناڈو کی ریاست ارکاٹ کے نواب محمد علی کی متحدہ فوجوں نے جنرل سمتھ کی قیادت میں سلطنت خداداد پر دھاوا بول دیا۔ دو سال لڑائی جاری رہی جس میں حیدر علیؒ کو فتح ہوئی اور متحدہ محاذ کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ۱۷۸۰ء میں دوسری جنگ ہوئی اس میں بھی حیدر علیؒ نے کامیابی حاصل کی اور ۱۷۸۲ء میں حیدر علیؒ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان فتح علی ٹیپوؒ تخت نشین ہوا تو یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ انگریز، مرہٹے اور ان کے ساتھ حیدر آباد اور ارکاٹ کی مسلم ریاستیں اپنے پڑوس میں ایک نئی اسلامی ریاست کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسے ہر قیمت پر ختم کر دینا چاہتی ہیں۔ سلطان ٹیپوؒ ایک نیک دل، عالم، بہادر اور حوصلہ مند حکمران تھا جس نے تخت سنبھالتے ہی اپنے پہلے اعلان میں اس بات کا حلف اٹھایا کہ
’’انگریزوں کو اس ملک سے باہر نکالنے کے لیے، جو ہمارے حقیقی دشمن ہیں، پورے ہندوستان کے لوگوں کو متحد کروں گا۔‘‘
اس نے سلطنت میں اسلامی احکام پر عمل کا اہتمام کیا، قاضی مقرر کیے، قرآن کریم کی تعلیم کا اہتمام کیا اور دینی شعائر و اقدار کی ترویج کی طرف خصوصی توجہ دی۔ اس کی دینداری کا عالم یہ تھا کہ جب اس نے شاہی محل کے ساتھ ’’مسجد اعلیٰ‘‘ کے نام سے نئی مسجد بنوائی تو اس کے افتتاح کے موقع پر اعلان کیا کہ میری خواہش ہے کہ وہ بزرگ پہلی نماز پڑھا کر مسجد کا افتتاح کریں جو صاحب ترتیب ہوں یعنی بالغ ہونے کے بعد ان کی کوئی نماز قضا نہ ہوئی ہو۔ یہ اعلان سن کر کسی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی تو بالآخر سلطان ٹیپوؒ نے یہ کہتے ہوئے خود آگے بڑھ کر نماز پڑھائی کہ ’’بحمد اللہ میں صاحبِ ترتیب ہوں‘‘۔
سلطان ٹیپوؒ کے بارے میں ان کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ قدرتی طور پر ان کی داڑھی نہیں تھی اس لیے ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے انہیں عالم نہیں سمجھا جاتا ورنہ وہ پختہ عالم دین اور انتہائی نیک و متقی شخصیت کے حامل تھے۔ سلطان ٹیپوؒ نے انگریزوں کو ملک سے نکالنے کو زندگی کا سب سے بڑا مشن قرار دیا اور دہلی کے مغل حکمرانوں کے علاوہ حیدرآباد دکن کے نظام سے بھی بار بار رابطہ قائم کر کے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اسے اپنا حریف نہ سمجھیں اور ساتھ دیں تاکہ سب مل جل کر انگریزوں سے ہندوستان کو خالی کرا سکیں۔ لیکن حیدرآباد دکن کے مسلمان حکمرانوں نے اس بات پر کبھی توجہ نہ دی حتیٰ کہ ایک موقع پر سلطان ٹیپوؒ کی طرف سے آپس میں رشتہ داریاں قائم کرنے کی تجویز بھی مسترد کر دی اور ہمیشہ انگریزوں کا ساتھ دیا۔
سلطان ٹیپوؒ نے اپنی ریاست میں انگریزوں کے ساتھ تجارت کو ممنوع قرار دیا اور غیر ملکی مصنوعات پر پابندی لگا کر ریاست میں ہتھیار سازی، گھڑی سازی، برتن سازی، اور قینچی سازی کے بڑے بڑے کارخانے بنوائے اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے اقدامات کیے۔ خود سلطان ٹیپوؒ غیر ملکی مصنوعات کے استعمال سے گریز کرتا تھا اور اس نے ہمیشہ دیسی کپڑا پہنا۔ سلطان ٹیپوؒ نے خلافت عثمانیہ کے سلطان سلیم کو دو بار وفد بھیج کر پیشکش کی کہ انگریزوں سے خلافت عثمانیہ اور ہندوستان دنوں کو خطرہ ہے اس لیے اگر خلیفہ عثمانی عدن کی بندرگاہ سلطان ٹیپوؒ کو کرایہ پر دے دے تو انگریزوں کے خلاف جنگی محاذ کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ سلطان سلیم نے خلافت کی طرف سے سلطان ٹیپوؒ کی بادشاہت کی توثیق تو کر دی مگر انگریزوں کے خلاف اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا بلکہ سلطان ٹیپوؒ کو مشورہ دیا کہ وہ انگریزوں سے دشمنی ترک کر کے ان سے دوستی کر لے۔ سلطان ٹیپوؒ نے افغانستان کے حکمران زمان شاہ سے رابطہ کیا کہ وہ اگر ادھر سے یلغار کرے تو سلطان ٹیپوؒ جنوب سے پیشرفت کرے گا اور دونوں مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکال دیں گے۔ زمان شاہ جو احمد شاہ ابدالیؒ کا پوتا تھا اس نے سلطان ٹیپوؒ کی یہ پیشکش قبول کر لی اور تیس ہزار سے زائد فوج لے کر کابل سے چل پڑا مگر انگریزوں نے ایران کے بادشاہ کو کسی طرح ورغلا کر افغانستان پر اس سے حملہ کرا دیا اور شیعہ سنی کشمکش کو ابھار کر ہرات کے گورنر کو زمان شاہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا جس کی وجہ سے زمان شاہ سلطان ٹیپوؒ کی مدد کے لیے نہ پہنچ سکا اور اسے راستہ سے واپس جانا پڑا۔
خلافت عثمانیہ کو سلطان ٹیپوؒ نے باہمی معاہدہ کی تحریری پیشکش کی جس کے اہم نکات یہ ہیں:
- عدن کی بندرگاہ سلطان ٹیپوؒ کو کرایہ پر دی جائے گی۔
- انگریزوں کے خلاف خلافت عثمانیہ کے فوجی تعاون کے اخراجات سلطان ٹیپوؒ برداشت کرے گا۔
- خلافت عثمانیہ کو انگریزوں کے خلاف تعاون کی ضرورت پڑنے پر سلطان ٹیپوؒ اپنے خرچہ پر فوجی تعاون کرے گا۔
مگر سلطان ٹیپوؒ کی یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں اور انگریزوں کے خلاف اسے جنگ نہ صرف یہ کہ تنہا لڑنا پڑی بلکہ پڑوس کی دو مسلم ریاستوں حیدر آباد اور ارکاٹ نے انگریزوں کے ساتھ متحدہ محاذ میں شامل ہو کر سلطان ٹیپوؒ کا مقابلہ کیا۔ سلطان ٹیپوؒ پورے شعور کے ساتھ انگریزوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک بڑا خطرہ سمجھتا تھا اور اس نے ایک جنگ کے موقع پر انگریز جنرل میکلوڈ کو اپنے خط میں لکھا کہ
’’مستند کتابوں سے ظاہر ہے کہ آپ جو اپنے آپ کو مسیح علیہ السلام کا پیروکار کہتے ہو صحیح نہیں ہے۔ یہ دعویٰ آپ کا غلط ہے کیونکہ اصلی انجیل میں تثلیث کی پرستش کی ہدایت نہیں ہے، یہ تو صرف مشرکین کا رویہ ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صرف ایک خدا کی عبادت کا حکم دیا تھا، تم لوگوں نے انجیل کی تعلیم کے خلاف شراب پینا، خنزیر کا گوشت کھانا اور سود کھانا شروع کر دیا ہے اور ہر وہ کام جو نہ صرف مذہبی بلکہ انسانی نقطۂ نظر سے بھی ممنوع ہے اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر حضرت مسیح علیہ السلام اور تمام برگزیدہ لوگ تم سے نفرت و کراہت کرتے ہیں اس لیے تم سے لڑنا واجب ہے۔‘‘
اس کیفیت میں انگریزوں نے حیدر آباد، مرہٹوں اور ارکاٹ کو ساتھ ملا کر متحدہ محاذ بنا لیا اور ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ انگریز گورنر جنرل لاڈ ویلزلی نے سلطان کو دھمکی دی کہ اس نے برطانیہ کے دشمن فرانسیسیوں کو فوج میں بھرتی کیا ہوا ہے وہ انہیں فورًا نکال کر انگریزوں کو بھرتی کرے اور بنگلور کی بندرگاہ انگریزوں کے لیے خالی کر دے ورنہ اس پر حملہ کر دیا جائے گا۔ اور اس خط کے ساتھ نوٹس یہ تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس خط کا جواب دیا جائے۔ سلطان نے یہ دھمکی مسترد کر دی جس پر انگریزوں کے متحدہ محاذ نے میسور پر حملہ کر دیا۔ سلطان ٹیپوؒ کا وزیر میر صادق انگریزوں سے ملا ہوا تھا اس نے جنگ کی ساری منصوبہ بندی دشمن کو بتا دی اور دشمن کے کمانڈروں کو اندر کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس کے باوجود انگریزی فوجوں کی یلغار سلطان ٹیپوؒ کے آہنی عزم کے سامنے کئی روز رکی رہی۔ ایک روز سلطان ٹیپوؒ قلعہ سے باہر نکل کر انگریزی فوجوں سے براہ راست جنگ میں مصروف تھا کہ اچانک دشمنوں کا زیادہ ہجوم دیکھ کر اس نے واپس قلعہ میں جانا چاہا، میر صادق یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے سلطان کو آتا دیکھ کر قلعہ کا دروازہ بند کرا دیا جس سے سلطان ٹیپوؒ دشمنوں کے نرغے میں پھنس گیا۔
میر صادق کو تو اسی وقت سلطان ٹیپوؒ کے ایک وفادار سپاہی احمد خان نے یہ کہہ کر تلوار کے ایک ہی وار سے جہنم رسید کر دیا کہ ’’سلطان کو دشمنوں کے حوالے کر کے خود بچ کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘ جبکہ سلطان ٹیپوؒ نے آخری دم تک مقابلہ کیا اور آخری لمحات میں جب اس کے ایک خادم راجہ خان نے سلطان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے خود کو دشمن کے حوالہ کر دے تو سلطانؒ نے پلٹ کر غصہ سے کہا کہ
’’میرے نزدیک شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘
اور اس طرح سلطان ٹیپوؒ نے بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے ۴ مئی ۱۸۹۹ء کو جام شہادت نوش کیا۔ سلطان کی لاش پر کھڑے ہو کر انگریز کمانڈر فرطِ مسرت سے چیخ اٹھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘ اور اس طرح سلطان ٹیپوؒ کے ساتھ ہی اس کی اسلامی ریاست بھی دنیا کے نقشہ سے معدوم ہو گئی۔