دینی جدوجہد: بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟

   
۲۷ نومبر ۲۰۰۹ء

قومی خود مختاری کے تحفظ کے لیے عوامی جدوجہد اور تحریک کی ضرورت ملک کے ہر حصے میں اور ہر سطح پر محسوس کی جا رہی ہے اور اس کا مختلف ذرائع سے اظہار بھی ہو رہا ہے، مگر ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟“ کے نکتے پر گیئر پھنسا ہوا ہے۔ جناب عبد الوحید اشرفی نے ایک کالم میں یہ گھنٹی مجھے پکڑانے کی کوشش کی ہے اور میرے دو عزیز بھائیوں مولانا عبد الحق خان بشیر اور مولانا قاری حماد الزہراوی نے بھی گزشتہ روز ایک ملاقات میں اشرفی صاحب کی تائید کرتے ہوئے مجھ سے یہی تقاضا کیا ہے۔ اس حوالے سے اپنے موقف اور پروگرام کے بارے میں تو ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے کالم میں تفصیل کے ساتھ کچھ عرض کروں گا، سرِدست اس سلسلے میں ملک کی عمومی فضا اور مختلف حلقوں کے جذبات کے تناظر میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے آپریشن تھیٹر میں کسی مریض کا کوئی خطرناک آپریشن کرنے سے قبل ڈاکٹر صاحبان انجکشن لگا کر اس کا جسم کا وہ حصہ سن کر دیتے ہیں اور پھر آلات جراحی سنبھال کر اپنا کام شروع کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے ”علاج“ کا زعم اور دعویٰ لے کر آنے والی استعماری قوتوں نے بھرپور اور گہری پلاننگ کے ساتھ ہمارے قومی وجود کو پہلے پوری طرح ”سن“ کرنے کا اہتمام کیا ہے اور پھر آپریشن شروع کیا ہے۔ بسا اوقات مریض ہوش میں ہوتا ہے، دیکھ رہا ہوتا ہے، تبصرے بھی کرتا ہے اور مشورے بھی دیتا ہے، مگر جسم کے اس حصے میں جس کا آپریشن ہو رہا ہوتا ہے، اسے نہ تو وہ حرکت دے سکتا ہے اور نہ ہی اسے تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ ہماری صورت حال بھی قومی سطح پر اسی طرح کی ہے کہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، مگر بے حس و حرکت پڑے ہیں اور خود کو حرکت کی پوزیشن میں نہیں پا رہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کو ایک اور انداز میں بیان فرمایا کہ ”تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دنیا کی اقوام تم پر حملہ آور ہونے کے لیے ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں گی جیسے تیار دستر خوان پر میزبان مہمانوں کو کھانا شروع کرنے کی دعوت دیتا ہے۔“ گویا تم مسلمان دنیا بھر کی اقوام کے لیے تر نوالہ ہو گے، جہاں جس کا جی چاہے گا اٹھا کر منہ میں ڈال لے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایسا ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ہوگا؟ فرمایا: بالکل نہیں، بلکہ ”تم دنیا میں اس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہو گے۔“

جیسا کہ اس وقت ایک امریکی تھنک ٹینک کی تازہ ترین سروے رپورٹ کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب ستاون کروڑ ہے اور وہ دنیا کی کل آبادی کا چوتھائی حصہ ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تعداد میں اس قدر کثیر ہونے کے باوجود اس طرح بے وزن ہو گے جیسے سیلاب کی سطح پر جھاگ اور خس و خاشاک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ تم میں ایک بیماری ”وہن“ پیدا ہو جائے گی، جس کا مطلب بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا کہ ”حب الدنيا و كراھيۃ الموت“ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔

ہماری قومی پوزیشن کو آپ کسی بھی تعبیر کی صورت میں بیان کریں، مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ ہماری ہر چیز داؤ پر لگ چکی ہے۔ ایمان و عقیدہ، تہذیب و ثقافت، حمیت و غیرت اور سالمیت و خود مختاری سمیت ہر چیز کو نیلامی کے لیے پیش کیا جا چکا ہے، مگر ہم ہر سطح پر ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم“ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

البتہ نچلی سطح پر احساس کسی نہ کسی درجہ میں بہرحال پایا جاتا ہے اور یہ سوچ موجود ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیے۔ اس کے لیے مختلف حلقوں میں کام ہو رہا ہے اور پیشرفت کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ ماہ رواں (نومبر ۲۰۰۹ء) کے دوران اس حوالے سے ہونے والی چند کوششوں کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں، تاکہ احباب کو کسی درجہ میں یہ تسلی رہے کہ میدان بالکل خالی نہیں ہے اور تھوڑی بہت حرکت بہرحال جاری ہے، جس کو آگے بڑھانے کے لیے سنجیدہ دوستوں کی توجہات اور بزرگوں کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ یہ مساعی وہ ہیں جن میں بذات خود میں شریک ہوں اور مسلسل کوشش میں ہوں کہ معاملات کسی صحیح رخ پر آگے بڑھیں اور ہم اس سلسلے میں اپنی ملی و دینی ذمہ داریوں کی صحیح اور بروقت ادائیگی کی کوئی صورت نکال سکیں۔

  • ۱۲ نومبر کو عالمی مجلس احرار اسلام کے دفتر لاہور میں متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے زیر اہتمام کنونشن ہوا، جس کی صدارت امیرِ احرار پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری نے کی۔ اس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ تحریک انصاف اور خاکسار تحریک کے راہ نماؤں نے بھی خطاب کیا اور سابق صدر محمد رفیق تارڑ بھی مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے اور اس دینی جدوجہد کے ساتھ ہم آہنگی اور یکجہتی کا اظہار کیا۔
  • ۱۹ نومبر کو جمعیت علماء اسلام (س) پنجاب کے سیکریٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی کی دعوت پر مسجد کبریٰ سمن آباد، لاہور میں دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی نصف درجن سے زائد جماعتوں کا صوبائی سطح پر مشترکہ اجلاس ہوا، جس میں قومی خود مختاری کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں مسلکی طور پر درپیش مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ قومی سطح پر دیوبندی جماعتوں اور حلقوں کے مشترکہ اجلاس کے لیے جماعتوں کے مرکزی قائدین سے گزارش کی جائے گی اور صوبائی سطح پر ہر جماعت ایک مشاورتی بورڈ کی صورت میں باہمی مشاورت کے ساتھ کام کرنے کا اہتمام کرے گی۔
  • ۲۱ نومبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں شہری سطح پر مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کا مشترکہ اجلاس راقم الحروف کی دعوت پر مولانا خالد حسن مجددی کے زیرِ صدارت منعقد ہوا، جس میں تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی ۔ اس موقع پر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی کے راہ نماؤں کی سوچ میں مکمل ہم آہنگی اور یکسانیت پائی گئی اور سب نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ قومی خود مختاری اور دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف عوامی جذبات کے اظہار کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مرکزی انجمن تاجران گوجرانوالہ کے نمائندوں نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ عید الاضحیٰ کے خطبات میں خطباء کرام ان تینوں مسائل پر اظہارِ خیال کریں گے اور عید کے بعد ان امور پر ایک بھرپور مشترکہ احتجاجی کنونشن شہری سطح پر منعقد کیا جائے گا۔
  • ۲۵ نومبر کو منصورہ لاہور میں منعقد ہونے والے ”ملی مجلس شرعی" کے اجلاس کا ایجنڈا بھی یہی تھا۔ ”ملی مجلس شرعی“ کے بارے میں قارئین کو اس سے قبل ایک موقع پر بتا چکا ہوں کہ یہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کا ایک مشترکہ علمی و فکری فورم ہے، جو قومی و دینی معاملات میں مشترکہ موقف کے اظہار اور رائے عامہ کی علمی و فکری راہ نمائی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ یہ فورم تشکیل دینے میں راقم الحروف کے علاوہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ، مولانا مفتی محمد خان قادری، حافظ عبد الرحمٰن مدنی، ڈاکٹر محمد امین اور حافظ عاکف سعید شامل تھے، اس کے کنوینر ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمیؒ تھے اور جس روز ان کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، اس روز بھی شام کو ان کے ہاں ہمارا اجلاس ہونے والا تھا۔ اب ”ملی مجلس شرعی“ کے کنوینر مولانا مفتی محمد خان قادری ہیں، جو بریلوی مکتب فکر کے سرکردہ علماء کرام میں شمار ہوتے ہیں اور مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، ڈاکٹر محمد امین ، حافظ عاکف سعید، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور راقم الحروف ان کے شریکِ کار ہیں۔

    گزشتہ شب منصورہ میں ہونے والے اجلاس میں ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ قومی خود مختاری کی بحالی اور احترام کے حوالے سے عوامی جذبات کو ایک منظم جدوجہد کی شکل دینے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟ وفاق المدارس العربیہ اور پاکستان شریعت کونسل کی طرح ملی مجلس شرعی کی مشکل بھی یہی ہے کہ قومی مسائل اور عوامی جذبات سے لاتعلق رہنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے، مگر اپنے داخلی نظم کے حوالے سے یہ محض علمی و فکری فورم ہیں اور اپنے علمی و فکری کام کو کسی تحریک کی شکل دینا بھی ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان تینوں فورموں پر جب بھی ملی مسائل، امت کی زبوں حالی اور پاکستان کی سالمیت و خود مختاری کے بارے میں بات ہوتی ہے تو تان اسی نکتے پر جا کر ٹوٹتی ہے کہ ملک میں جو سیاسی دینی جماعتیں اور تحریکی قوتیں ہیں انہیں متوجہ کیا جائے، ان کے قائدین سے درخواست کی جائے اور انہیں کسی طرح متحرک کرنے کی کوشش کی جائے۔

  • اس دوران پاکستان شریعت کونسل نے بھی ۵ نومبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دستور کی اسلامی دفعات کے تحفظ کے عنوان پر کنونشن منعقد کیا، جس کی صدارت صوبائی امیر مولانا عبد الحق خان بشیر نے کی اور امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمٰن درخواستی بھی مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے۔ اس کنونشن میں ایک یادداشت کی منظوری دی گئی جو پارلیمنٹ کے مرکزی حضرات کو بھجوائی گئی ہے اور زیرِ نظر کالم میں قارئین کی خدمت میں بھی پیش کی جا چکی ہے۔

یہ جتنی سرگرمیاں میں نے بیان کی ہیں، صرف ایک ماہ کے دوران کی ہیں اور ان سب میں راقم الحروف بھی بحمد اللہ تعالیٰ ایک متحرک کردار کے طور پر شریک ہے۔ اس لیے جہاں تک کچھ نہ کچھ کرنے کا تعلق ہے، اس سے ہم غافل نہیں ہیں۔ البتہ جو ہونا چاہیے وہ فی الواقع نہیں ہو رہا اور اس کے نہ ہونے یا نہ ہو سکنے کے اسباب و عوامل کے تفصیلی جائزہ کی ضرورت ہے، جو ان شاء اللہ تعالیٰ اگلی صحبت میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter