روزنامہ جنگ لاہور ۹ اپریل ۱۹۹۷ء کے مطابق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن بیگم عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے جنگ پینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ عورت کو طلاق کا حق دیا جائے، اور طلاق کی صورت میں جائیداد مرد اور عورت میں برابر تقسیم کرنے کا قانون بنایا جائے۔ انٹرویو کے مطابق عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ پرانے خیالات کی مالک ہیں، لیکن مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں اور ترقی کو روکنے کے حق میں نہیں ہیں۔
بیگم عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ پاکستان کے ایک معروف سیاستدان ملک غلام جیلانی مرحوم کی بیٹی ہیں، اور مسٹر جہانگیر ایڈووکیٹ کی اہلیہ ہیں جن کے بارے میں خود انہیں یہ بات تسلیم ہے کہ وہ قادیانیوں کے لاہوری گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بقول ایک اچھے مسلمان ہیں۔ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ ایک عرصہ سے انسانی حقوق کے تحفظ کے نام سے متحرک ہیں اور پاکستان میں مذہبی حوالے سے نافذ قوانین کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر ان کے خاتمہ کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں، جن میں
- قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی آئینی ترمیم،
- تحفظ ناموسِ رسالتؐ کا قانون،
- حدود آرڈیننس،
- اور جداگانہ انتخابات کا قانون
بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ وہ عملاً بھی ان مقاصد کے لیے ہر وقت سرگرم رہتی ہیں۔ چنانچہ توہینِ رسالتؐ کے ملزموں کی پشت پناہی اور ان کے بیرون ملک فرار اور صائمہ کیس جیسے مقدمات کی پیروی اور ان کی عالمی سطح پر تشہیر کا اہتمام ان کے خاص کارنامے ہیں، جن پر انہیں مغربی ممالک میں شہرت و عزت کے علاوہ وافر مقدار میں مالی معاونت اور سرپرستی بھی میسر آتی ہے۔
اس پس منظر میں بیگم عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کے مذکورہ بالا مطالبات کے مقصد کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ وہ نکاح و طلاق اور وراثت کے مسلّمہ اسلامی احکام و قوانین کو ہدف بنا کر اسلام کے خاندانی نظام کے خلاف مغرب کی ثقافتی یلغار کو آگے بڑھا رہی ہیں، اور اسلام کے خلاف نظریاتی اور ثقافتی جنگ میں مغرب کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ اس لیے ہم ملک کے دینی حلقوں، مذہبی جماعتوں، علماء کرام اور علمی مراکز سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ اس مہم اور مطالبات کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیں اور اس نظریاتی جنگ میں مؤثر اور متحرک کردار ادا کرنے کے لیے عملی پیشرفت کریں۔