(ربیع الاول کی بارہویں شب کو ’’سرور کائناتؐ اور اتحاد بین المسلمین‘‘ کے عنوان پر خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ہزاروں پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو پر کچھ عرض کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ آقائے نامدار امت مسلمہ کے اتحاد کا مرکزی نقطہ ہیں۔ حضورؐ کی ذات اقدس ہمیشہ مسلمانوں کی وحدت کا مرکز رہی ہے، آج بھی امت آپؐ کی ذات پر مجتمع ہے، اور قیامت تک آپؐ تمام مسلمانوں کی یکساں عقیدت و اطاعت کا مرکز رہیں گے۔ اس عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے میں وقت کے اختصار کے باعث صرف تین حوالوں سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
- اتحاد کا مطلب کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟
- مسلمانوں کو آپس میں متحد رکھنے کے لیے جناب نبی اکرمؐ نے جن سینکڑوں ارشادات گرامی میں تلقین فرمائی ہے ان میں سے چند ارشادات نبویؐ کا ذکر کروں گا۔
- توہین رسالتؐ کے اخباری خاکوں کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے اجتماعی طور پر جناب رسول اللہؐ کے ساتھ جس شدت سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا ہے اس سے رسول اکرمؐ کی ذات گرامی ایک بار پھر مسلمانوں کی وحدت و اجتماعیت کے مرکزی نکتے کے طور پر دنیا کے سامنے آئی ہے، اس بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا۔
اتحاد کا مطلب اور اس کے تقاضے
پہلی بات یہ کہ اتحاد کسے کہتے ہیں اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی قوم کے درمیان اختلافات پیدا نہ ہونے کو اتحاد کہا جاتا ہے۔ یعنی اتحاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ اول تو اختلاف پیدا نہ ہو اور اگر کسی مسئلے پر اختلاف پیدا ہو جائے تو یہ اتحاد ختم ہو جائے۔ میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔ کیونکہ اختلاف ایک فطری امر ہے، جہاں بھی انسان باہم اکٹھے ہوں گے ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوگا، یہ عقل و فطرت کا تقاضہ ہے اور اسلام اس کی نفی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عقل و فہم کے مختلف درجات سے نوازا ہے، مزاج الگ الگ ہیں، اور نفسیات میں بے پناہ تفاوت ہے، اس لیے اختلاف پیدا نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ اختلاف کو ختم ہو جانا چاہیے، اس لیے کہ اختلاف اگر پیدا ہوگا تو وہ باقی بھی رہے گا۔ ہمیں اس بات کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ اختلاف اور چیز ہے جبکہ تفرقہ اور چیز ہے۔ قرآن کریم نے اختلاف سے کسی جگہ بھی منع نہیں کیا البتہ تفرقہ سے منع کیا ہے۔ چنانچہ اتحاد بین المسلمین پر گفتگو کرتے ہوئے میں اس نکتہ کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں اور اس سلسلے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیسیوں ارشادات میں سے دو کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
بخاری شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسجد نبویؐ میں ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے جس میں وہ بلند آواز سے قراءت کر رہے تھے۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھی جو اس طرح نہیں تھی جس طرح حضرت عمرؓ نے جناب رسول اللہؐ سے پڑھی تھی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ چونکہ وہ میرے حساب سے قرآن کریم کی آیت غلط پڑھ رہا تھا اس لیے مجھے سخت غصہ آیا، قریب تھا کہ میں نماز کے دوران ہی اسے دبوچ لیتا مگر میں نے صبر کیا اور اس کے نماز مکمل کرنے کا انتظار کیا۔ جونہی اس نے نماز مکمل کی میں نے اس کے گلے میں چادر ڈالی اور کھینچتا ہوا اسے جناب رسول اللہؐ کے پاس لے گیا کہ یا رسول اللہ! یہ شخص نماز میں قرآن کریم غلط پڑھ رہا تھا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ پہلے اس کی گردن تو چھوڑو، میں نے اسے چھوڑ دیا تو آپؐ نے اس سے فرمایا کہ وہ آیت جس طرح تم پڑھ رہے تھے اب پڑھ کر سناؤ۔ اس نے سنا دی۔ پھر مجھے فرمایا کہ جس طرح تمہیں یاد ہے تم سناؤ۔ میں نے بھی سنا دی۔ اس پر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اس نے بھی ٹھیک پڑھا ہے اور تم نے بھی درست پڑھا ہے۔
یہ دراصل قراءتوں کا اختلاف تھا۔ کسی بھی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کا تلفظ اور لہجہ علاقوں اور قوموں کے فرق سے بدل جاتا ہے لیکن معنیٰ ایک ہی رہتا ہے۔ لفظ بھی بنیادی طور پر وہی ہوتا ہے لیکن لہجہ اور تلفظ بدل جاتا ہے اور بعض اوقات سپیلنگ بھی بدل جاتے ہیں۔ میں مثال کے طور پر پنجابی کے ایک لفظ کا حوالہ دوں گا کہ ہمارے ہاں کسی کام کی کیفیت پوچھنے کے لیے ’’کیویں‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ لیکن اس لفظ کے مختلف تلفظ میں کہیں یہ لفظ کیویں ہے، کہیں کداں ہے، کہیں کیکن ہے، کہیں کنجو ہے، اور کسی علاقے میں اسے کیاں کے تلفظ کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ یعنی لفظ اور معنٰی ایک ہی ہے لیکن تلفظ اور ادائیگی مختلف ہے۔ یہ زبان پر علاقائی اثرات ہوتے ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
چنانچہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم جب نازل ہوا تو اسے قریش کے لہجے اور تلفظ میں پڑھنے کی پابندی تھی۔ آپؐ نے بارگاہ ایزدی میں خود درخواست کی کہ ایک ہی لہجے اور تلفظ کا سب عربوں کو پابند بنانے سے بہت سے عرب قبائل کو قرآن کریم پڑھنے میں دقت پیش آسکتی ہے اس لیے اس معاملے میں سہولت پیدا کی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری استدعا پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سات مختلف لہجوں اور قراءتوں میں پڑھنے کی اجازت دے دی تاکہ تمام لہجوں اور قراءتوں کے ساتھ لوگ آسانی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کر سکیں۔ اب یہ اختلاف ایسا ہے جو آنحضرتؐ نے خود مانگ کر لیا ہے اس لیے کہ یہ فطری ضرورت تھا۔
دوسرا واقعہ بھی بخاری شریف میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ کا عام طور پر معمول یہ تھا کہ ہر نماز کے لیے مستقل الگ وضو فرماتے تھے، لیکن حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے ایک ہی وضو کے ساتھ پورے دن کی نمازیں پڑھ ڈالیں۔ حضرت عمرؓ نے اس بارے میں دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے آج ایسا کام کیا ہے جو اس سے پہلے آپ نہیں کیا کرتے تھے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ہر نماز کے لیے الگ وضو کرنا اگرچہ بہت اجر و ثواب کی بات ہے لیکن اس کی پابندی سے بہت سے لوگوں کو دقت ہوگی۔ اس لیے حضورؐ نے ایک وضو کے ساتھ کئی نمازیں ادا کر کے اسے بھی سنت میں شامل فرما لیا تاکہ کسی کو ایسا کرتے ہوئے کوئی الجھن نہ ہو۔ یہ صرف ایک مثال میں نے ذکر کی ہے اس طرح کی بیسیوں بلکہ سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ ایک کام کو جناب رسول اللہؐ نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے انجام دیا تاکہ طریقوں میں تنوع ہو اور لوگوں کو اپنی سہولت کے مطابق ان میں سے کوئی طریقہ اختیار کرنے میں یہ پریشانی نہ ہو کہ حضورؐ نے تو ایسا نہیں کیا تھا۔
اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ اسلام نے اختلاف کی نفی نہیں کی بلکہ اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا احترام کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔ البتہ اسلام نے اختلاف کی حدود کا تعین کیا ہے اور ہر اختلاف کو اس کے دائرے میں رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ اختلاف کی حدود میں پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ جہاں اختلاف کی گنجائش ہو وہاں اختلاف کیا جائے اور جہاں اختلاف کی گنجائش نہ ہو وہاں اختلاف کرنے سے گریز کیا جائے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے بریرہؓ کے ایک واقعہ کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اپنی باندی بریرہؓ کو آزاد کر دیا تو وہ ایک صحابی مغیثؓ کے نکاح میں تھیں۔ آزاد ہونے کے بعد شرعی طور پر بریرہؓ کو یہ حق حاصل ہوگیا تھا کہ وہ اگر مغیثؓ کے نکاح میں نہ رہنا چاہے تو اس سے علیحدگی اختیار کر لے۔ بریرہؓ نے ایسا ہی کیا اور مغیثؓ سے نکاح ختم کر لیا۔ اس پر مغیثؓ کو پریشانی ہوئی اور اس نے مختلف اطراف سے بریرہؓ کو واپسی پر آمادہ کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں حتیٰ کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق مغیثؓ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتے رہتے تھے، آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ کوئی ہے جو بریرہؓ کو منا لائے؟ حضورؐ نے یہ صورتحال دیکھ کر خود بریرہؓ سے بات کی اور اس بارے میں اس سے پوچھا۔ بریرہؓ نے جواب دیا کہ یہ میرا شرعی حق تھا جو میں نے استعمال کیا ہے کیونکہ میں مغیثؓ کے نکاح میں نہیں رہنا چاہتی۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم اپنا یہ فیصلہ واپس نہیں لے سکتیں؟ اس نے بڑے ادب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ ہے؟ بڑی سمجھدار خاتون تھی، اور کیسے نہ ہوتی کہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں رہ رہی تھی۔ میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ اس نے یہ سوال کر کے ایک حدِ فاصل قائم کر دی کہ جناب نبی اکرمؐ کے کسی حکم کو نہ ماننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، البتہ مشورہ کی صورت میں اختیار باقی رہتا ہے۔ جب حضورؐ نے فرمایا کہ میں حکم نہیں دے رہا بلکہ مشورہ دے رہا ہوں تو اس نے بے ساختہ کہا کہ میں اپنے فیصلہ پر قائم ہوں اور مجھے مغیثؓ کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر جگہ اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتی اور اختلاف وہیں کیا جا سکتا ہے جہاں اس کی گنجائش ہو۔ مثلاً قرآن کریم کے کسی حکم کو سمجھنے اور اس کا مصداق طے کرنے میں تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن نفس حکم سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد اور عمل کا مفہوم و منشا متعین کرنے میں تو اختلاف کی گنجائش ہے لیکن ارشاد و عمل سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا اختلاف کی حدود میں پہلی بات یہ ضروری ہے کہ اس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ کہاں اختلاف کی گنجائش ہے اور کہاں نہیں ہے۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ضروری ہے کہ ہر اختلاف کو اپنی سطح پر اور اپنے درجہ میں رکھا جائے۔ ہمارے ہاں اختلاف پر ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی کا جو رجحان زور پکڑ گیا ہے یہ درست نہیں ہے۔ ہر اختلاف کفر و اسلام کا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر اختلاف حلال و حرام کا ہوتا ہے۔ بعض جگہ صرف اولیٰ و غیر اولیٰ اور ترجیحات کا اختلاف ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں فتویٰ بازی ہر اختلاف کے حوالے سے یکساں ہوتی ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس رجحان پر قابو پانا وحدت امت کے لیے آج کے دور کا سب سے بڑا تقاضہ ہے۔ اس سلسلہ میں جناب نبی اکرمؐ کے ایک ارشاد گرامی کا حوالہ دوں گا جس میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے کسی مسلمان کو کافر کہا اگر وہ کافر نہ ہو تو کفر کا فتویٰ کافر کہنے والے پر واپس لوٹ آئے گا۔ اور جس شخص نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی ہے جبکہ وہ لعنت کا مستحق نہیں تو یہ لعنت بھیجنے والے پر واپس آئے گی۔ یہی فتوے ہمارے ہاں سب سے بڑے فتوے شمار ہوتے ہیں جن کی اہمیت اور نزاکت جناب نبی اکرمؐ نے ان ارشادات گرامی میں بیان فرمائی ہے۔ اگر اختلافات کی حدود کو قائم رکھا جائے اور بلاوجہ فتویٰ بازی سے گریز کر کے ہر اختلاف کو اس کی سطح پر اور اس کے دائرے میں محدود رکھا جائے تو یہ اختلاف امت کے اتحاد میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ یہ اختلافات نہ صرف فطرت کا تقاضہ اور رحمت ہیں بلکہ ہماری معاشرتی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔
وحدت امت کے لیے آنحضرتؐ کے ارشادات
اس کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب رسول اللہؐ نے اپنے بہت سے ارشادات میں ہمیں باہمی وحدت برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے اور اس کے تقاضوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کر رہا ہوں۔
حجۃ الوداع کے تاریخی خطبے میں جناب رسالت مآبؐ نے دور جاہلیت کے خاتمے کا اعلان کر کے اسلام اور روشنی کے دور کا آغاز کیا اور یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ ’’کل امر الجاہلیۃ تحت موضوع قدمی‘‘ کہ جاہلیت کی تمام اقدار آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ ان میں شرکت و بدعت، نسل پرستی، زبان و رنگ کا امتیاز، بدکاری، شراب، جوا، سود، کہانت و نجوم، ناچ گانا، عریانی، اور باہمی قتل و قتال کی جاہلی اقدار شامل تھیں جنہیں جناب رسول اللہؐ نے تئیس سالہ محنت کے ساتھ ختم کیا اور ان جاہلی اقدار سے پاک اسلامی معاشرے کا آغاز فرمایا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج یہ تمام اقدار ایک ایک کر کے پھر ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان روایات کا ابوجہل، ابولہب، نضر بن حارث، اور دیگر کافر سرداروں کے حوالہ سے ذکر کیا جاتا ہے تو وہ جاہلی اقدار کہلاتی ہیں جبکہ وہی اقدار ہماری سوسائٹی کا حصہ بنتی ہیں تو تمدن، سولائزیشن، ترقی، یا آرٹ کا عنوان اختیار کر لیتی ہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرتؐ نے اپنے خطبے میں ہمیں اس بات کی تلقین بھی فرمائی تھی کہ میرے بعد کفر و جاہلیت کے دور کی طرف واپس نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانا اور باہمی قتل و قتال کسی بھی عنوان سے ہو، اسے جناب رسول اللہؐ نے کفر و جاہلیت سے تعبیر کیا ہے جبکہ ایک حدیث میں اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک صورت قرار دیا ہے۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے چار باتوں کا سوال کیا، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے تین چیزیں عطا فرمائیں لیکن ایک نہیں دی۔ میں نے سوال کیا کہ میری امت پر مجموعی طور پر پہلی امتوں جیسا عذاب نازل نہ ہو، یہ بات اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی۔ میں نے عرض کیا کہ میری امت یکبارگی گمراہی کا شکار نہ ہو، یہ بات بھی قبول کر لی گئی۔ میں نے گزارش کی کہ میری امت ساری کی ساری یکبارگی تباہ نہ ہو، یہ بات بھی قبول ہو گئی۔ میں نے عرض کیا کہ میری امت آپس میں نہ لڑے تو یہ بات اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں فرمائی۔ جبکہ ایک اور حدیث میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میری امت پر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا تو اس کی عملی صورتیں تین ہوں گی۔ ایک یہ کہ میری امت کے لوگ آپس میں لڑیں گے اور ایک دوسرے کا خون بہائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ امت کے شریر لوگوں کو ان پر مسلط کر دیں گے۔ اور تیسرا یہ کہ امت کے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
ایک حدیث میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ یعنی آنکھ کو تکلیف ہو تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے اور اگر پاؤں کو کو درد تو جسم کے سارے اعضا اسے محسوس کرتے ہیں۔ ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس لیے کوئی مسلمان نہ اپنے دوسرے بھائی پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے ظلم کے لیے کسی دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔
ان ارشادات نبویؐ کی روشنی میں دیکھا جائے تو امت کے موجودہ افتراق کے اسباب کو تلاش کرنا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔ آج کے دور کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم امت کے افتراق کے اصل اسباب کو تلاش کریں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جناب رسول اللہؐ نے ہمیں اسی کی تلقین فرمائی ہے اور اس حوالے سے ہماری یہی دینی و ملی ذمہ داری ہے۔
توہین رسالت کے خاکے اور امت مسلمہ کا اجتماعی رد عمل
اس کے بعد میں گفتگو کے آخری نکتے کی طرف آتا ہوں کہ ہماری تمام تر خرابیوں، کمزوریوں، اور بد اعمالیوں کے باوجود توہین رسالتؐ کے خلاف عالم اسلام کے حالیہ اجتماعی احتجاج سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کا مرکزی نکتہ آج بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ یہ بات جہاں حضورؐ کی کا اعجاز اور اسلام کی صداقت کا اظہار ہے وہاں اس بات کی بھی علامت ہے کہ مسلمانوں کے ایمان کا کنکشن آج بھی قائم ہے۔ یہ کنکشن درست ہے اور اس میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔ البتہ ہمارے ’’سیٹوں‘‘ میں کمزوری ہے، اگر ہم اپنے اپنے سیٹ ٹھیک کر لیں اور ان کی خرابیوں کو دور کر لیں تو حضورؐ کی عقیدت کا کنکشن آج بھی ’’اسٹیبل‘‘ ہے اور اس کی برکتیں اور بہاریں بدستور تازہ ہیں۔
یورپ کے بعض اخبارات نے تو یقیناً یہ کارروائی شر کے خیال سے کی ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں سے خیر کا یہ پہلو نکال دیا ہے کہ حضرت محمدؐ کے ساتھ مسلمانان عالم کی بے لچک کمٹمنٹ کا ایک بار پھر اظہار ہوگیا ہے اور مغرب کو اس تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ اس نے گزشتہ تین صدیوں کے درمیان مسلمانوں کی کمٹمنٹ کے مراکز تبدیل کرنے کی جو محنت کی تھی وہ رائیگاں جا رہی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی کمٹمنٹس کی ترجیحات میں آج بھی سرفہرست اسلام اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، باقی تمام کمٹمنٹس کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔ یہ حضورؐ کی ذات گرامی، سیرت مبارکہ، اور تعلیمات کا وہ اعجاز ہے جس کا مشاہدہ ہم جیسے گئے گزرے مسلمان بھی کر رہے ہیں اور ساری دنیا اس منظر کو دیکھ رہی ہے۔ اس لیے ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آج کے دور میں ہمارے لیے یہی پیغام ہے کہ اپنی اصل کی طرف واپس پلٹیں اور آپؐ کی سیرت و اسوۂ حسنہ سے روشنی حاصل کر کے اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگیوں کا جزو بنا لیں۔