روزنامہ نیشن لندن نے ۴ جون ۱۹۹۸ء کی اشاعت میں خبر دی ہے کہ ۲۸ مئی کو جب پاکستان ایٹمی دھماکوں کے مراحل سے گزر رہا تھا، ایک پاکستانی نوجوان نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کے جی ایچ کیو پینٹاگون کا انٹرنیٹ سسٹم جام کر دیا، اور انٹرنیٹ پر امریکی حکام کو پیغام دیا کہ وہ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت بند کر دیں ورنہ وہ کمپیوٹر ہیکنگ کے ذریعے نیویارک کا سب سے بڑا ٹیلی فون ایکسچینج، جو بیس لاکھ سے زائد ٹیلی فونوں کو کنٹرول کرتا ہے، جام کر دے گا۔
خبر کے مطابق کمپیوٹر سسٹم جام ہونے کی وجہ سے ایٹمی دھماکوں کے بارے میں صحیح اور بروقت معلومات حاصل کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی اور اعلیٰ حکام کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن کو جب یہ صورتحال معلوم ہوئی تو انہوں نے متعلقہ حکام کو یہ کہہ کر ڈانٹ پلائی کہ تم لوگ خود کو سپر پاور کہتے ہو مگر تیسری دنیا کے ایک نوجوان نے تمہارا سسٹم جام کر کے تمہاری ناکامی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔
یہ خبر جہاں ایک محب وطن پاکستانی نوجوان کی ملی حمیت اور قومی غیرت کی غمازی کرتی ہے، وہاں اس حقیقت کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ ذہانت اور محنت میں ملتِ اسلامیہ بالخصوص پاکستان کے نوجوان کسی سے کم نہیں ہیں۔ اور اگر انہیں موقع میسر آئے تو وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے اور اسے مہارت کے ساتھ استعمال کرنے میں نہ صرف ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکتے ہیں بلکہ انہیں زچ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ذہانت، محنت اور مہارت کی کبھی کمی نہیں رہی، لیکن کسی مسلمان ملک نے اس صلاحیت کو منصوبہ بندی اور ملی ترجیحات کے ساتھ منظم کرنے کی آج تک ضرورت محسوس نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مواقع نہ ملنے، وسائل میسر نہ آنے، اور حوصلہ افزائی نہ ہونے کے بعد اعلیٰ سطح کی ذہانت یا تو ملک بدر ہونے پر مجبور ہو جاتی ہے، اور یا پھر بیوروکریسی کی فائلوں کے انبار کے نیچے دب کر اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں دولت اور سرمائے کے بڑے بڑے ذخیرے تجوریوں میں بند رکھنے والوں میں بھی ابھی تک یہ ذوق پیدا نہیں ہو سکا کہ وہ قومی زندگی کے کسی شعبے میں اعلیٰ ذہانت کی تلاش اور اس کے صحیح استعمال کی منصوبہ بندی کے لیے چار پیسے خرچ کر سکیں، ورنہ حکومتوں کی بے توجہی کا خلا کسی حد تک اس طرح بھی پُر کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال اس خبر سے خوشی ہوئی ہے اور حوصلہ ملا ہے کہ تمام تر ناقدری اور حوصلہ شکنی کے باوجود ذہانت کو آگے آنے کا راستہ بالآخر مل ہی جاتا ہے بشرطیکہ اس کے ساتھ خلوص اور ملی حمیت بھی شامل ہو جائے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے نوجوانوں کی حفاظت فرمائیں اور انہیں ملتِ اسلامیہ اور پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی صلاحیتوں، ذہانت اور مہارت کو منظم طریقے سے کام میں لانے کی توفیق اور مواقع سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔