ان دنوں پارلیمنٹ میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ ’’پندرہویں آئینی ترمیم‘‘ پر بحث جاری ہے اور قومی اسمبلی اس سرکاری بل پر غور کر رہی ہے جس کے تحت قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لا قرار دیا جا رہا ہے۔ اس بل میں ’’امر بالمعروف‘‘ کا نظام قائم کرنے اور آئینی ترمیم کا طریق کار آسان بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو بعض ایسے اختیارات دینے کی شقیں بھی شامل ہیں جو ملک کے سیاسی حلقوں میں متنازعہ حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ جبکہ حکومتی حلقے اسے پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک یہ بل پارلیمنٹ سے کسی نہ کسی شکل میں منظور ہو چکا ہو۔
جہاں تک دستور میں قرآن و سنت کو سپریم لا قرار دینے کا مسئلہ ہے ملک کے دینی حلقوں کا یہ دیرینہ مطالبہ چلا آ رہا ہے۔ اور جب سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی امتیازی اور بالاتر حیثیت ختم کر کے اسے دستور کی دوسری دفعات کے ساتھ مساوی قرار دیا ہے، اس وقت سے اس ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ دستورِ پاکستان میں قرآن و سنت کے سپریم لا ہونے کا صراحت کے ساتھ اعلان کیا جائے، تاکہ ان سے متصادم دستوری دفعات اور قوانین سے نجات حاصل کرنے کا کوئی عملی راستہ نکل سکے۔ لیکن حکومت نے اسے اختیارات میں اضافہ کی تجاویز کے ساتھ نتھی کر کے مسئلہ کو متنازعہ بنا دیا ہے اور بلاوجہ الجھن پیدا کر دی ہے۔ ورنہ اس کی بہتر صورت یہ تھی کہ پندرہویں آئینی ترمیم کا بل صرف قرآن و سنت کو سپریم لا قرار دینے تک محدود رکھا جاتا، اور اس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے تعین اور انہیں دور کرنے کی عملی تجاویز کے سلسلہ میں دستوری اداروں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کیا جاتا، یا ممتاز علماء کرام اور ماہرینِ قانون پر مشتمل کمیشن قائم کر کے اس کے ذریعے ضروری اختیارات کے تعین اور نشاندہی کی کوئی مناسب صورت اختیار کی جاتی۔
تاہم اصولی طور پر ہم قرآن و سنت کو سپریم لا قرار دینے کی دستوری تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں، اور اس کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اصل مسئلہ عملدرآمد کا ہے۔ کیونکہ قرآن و سنت کی بالادستی کا اصول تو قراردادِ مقاصد میں بھی تسلیم کیا گیا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارا مروجہ سسٹم اسے اپنے اوپر حاکم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جبکہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے واضح ہے۔ اس لیے بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ مروجہ سسٹم کو ہر معاملہ میں فیصلہ کن سمجھنے کا رویہ ترک کیا جائے، اور اسے قرآن و سنت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے خود کو اجتماعی طور پر تیار کیا جائے۔ ورنہ قراردادِ مقاصد کی طرح مجوزہ پندرہویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری سے بھی دستور میں ایک اور خوشنما شوپیس کے اضافے کے سوا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو گا۔
ہمارے نزدیک نفاذِ شریعت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ نوآبادیاتی سسٹم اور مروجہ عالمی نظام کا وہ فریم ورک ہے جس کی بنیاد آسمانی تعلیمات سے انحراف پر ہے، اور جس کے دائرے میں رہتے ہوئے دنیا کے کسی بھی ملک میں اسلامی نظام کا عملی نفاذ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اگر ہمارے حکمران واقعتاً اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں تو ملک کے داخلی نوآبادیاتی سسٹم اور دنیا کے مروجہ عالمی نظام کے بارے میں اپنا ذہن صاف کریں، اور ان کے فریم ورک میں اسلام کو فٹ کرنے کی فضول اور بے مقصد کوشش کرنے کی بجائے ان دونوں نظاموں کی بالادستی سے نجات حاصل کرنے کی راہ نکالیں، کیونکہ اس کے بغیر اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی کوئی صورت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو گی۔