سپریم کورٹ آف پاکستان کے ۱۲ ججوں نے ایک متفقہ فیصلہ کی رو سے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ تین سال کے اندر انتخابات کرا کے اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیں۔ روزنامہ جنگ لاہور ۱۳ مئی ۲۰۰۰ء کی رپورٹ کے مطابق عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے پاس ملک کے حالات کے پیشِ نظر اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا، اس لیے ان کا یہ اقدام نظریۂ ضرورت کے تحت درست ہے۔ اور اس فیصلہ کے ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ نے جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ضرورت کے مطابق ترامیم کرنے کا اختیار بھی دے دیا ہے۔
اس نوعیت کا فیصلہ اس سے قبل جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لاء دور میں بھی دیا گیا تھا، اور اسی فیصلہ کی رو سے جنرل ضیاء الحق مرحوم مسلسل گیارہ برس تک برسرِ اقتدار رہے تھے۔ اس لیے اس فیصلہ کے اسباب و عوامل اور محرکات کے حوالے سے کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ اس فیصلہ کی رو سے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کو جو آئینی اور انتظامی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے جنرل صاحب موصوف سے یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ بہت بڑی آزمائش ہے، ان کے کندھوں پر ملک کے مستقبل کے حوالے سے بہت نازک اور اہم ذمہ داری آن پڑی ہے، اور قوم کو ان سے بہت توقعات ہیں۔ لیکن ان کے اردگرد این جی اوز اور بین الاقوامی اداروں کے تربیت یافتہ مشیروں اور معاونین کا جو گھیرا قائم ہو چکا ہے وہ عوام کی نظروں میں ان کے ایجنڈے اور ترجیحات کو مشکوک بنا رہا ہے۔
اس لیے وہ اپنے اختیارات، دستوری پوزیشن اور ایجنڈا کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی ٹیم پر نظرثانی کریں۔ اور ایسے باصلاحیت، محبِ وطن اور اسلام کے ساتھ شعوری وابستگی رکھنے والے افراد کی ٹیم منظم کریں جو ملک کے نظام کو بہتر بنانے اور کرپشن سے پاک سوسائٹی قائم کرنے کے لیے ان کے عزائم میں ان کی معاون ثابت ہوں۔ ورنہ بین الاقوامی اداروں کے بھیجے ہوئے اور این جی اوز کے تیار کیے ہوئے لوگ تو اپنے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھائیں گے، اور اس کے لیے جنرل پرویز مشرف کا کندھا استعمال کر کے وہی حالات دوبارہ پیدا کریں گے جو سابقہ حکومتوں کی ناکامی اور ملک میں افراتفری اور عدمِ استحکام کے فروغ کا کئی بار باعث بن چکے ہیں۔