شہیدِ حریت مولانا سید شمس الدین شہیدؒ

   
۱۹ مارچ ۱۹۸۲ء

مولانا سید شمس الدین شہیدؒ بلوچستان کے نامور سپوت اور تحریکِ ولی اللہی کے ایک جرأت مند رہنما تھے جنہوں نے ۲۹ سالہ مختصر زندگی میں قومی و دینی جدوجہد کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے بلوچستان کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کیا اور قومی منظر پر عزیمت و استقامت کا عنوان بن کر ابھرے۔

سید شمس الدین شہیدؒ کی ولادت بلوچستان کے مقام ژوب میں ۲۱ جمادی الاول ۱۳۶۴ھ کو ہوئی۔ آپ کے والد مکرم مولانا سید محمد زاہد مدظلہ بلوچستان کے بزرگ علماء میں شمار ہوتے ہیں اور ژوب کی مکی مسجد میں خطابت و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

سید شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ اس کے بعد میٹرک کیا۔ اور پھر والد مکرم کے حکم پر دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مدرسہ مخزن العلوم خانپور میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اور ۱۹۶۹ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کر کے سندِ فراغت حاصل کی۔

شہیدؒ کے اساتذہ میں حضرت العلوم مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی، حضرت مولانا عبد الحق اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر جیسے اکابر علماء شامل ہیں۔ جن کی سرپرستی اور تلمذ میں سید شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دینی تعلیم مکمل کی۔

دورانِ تعلیم جمعیۃ طلباء اسلام سے تعلق رہا۔ کچھ عرصہ بلوچستان شاخ کے صدر بھی رہے۔ طالب علمی کے دور میں ہی تنظیمی ذوق اور سیاسی ذہن واضح تھا اور تحریکِ ولی اللہیؒ کے اس قافلہ کے ساتھ والہانہ عقیدت اور پرجوش وابستگی رکھتے تھے جس نے شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ، امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ، شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ التفسیر مولانا احمد علی صاحب لاہوری رحمۃ اللہ علیہ اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کی سرکردگی میں مختلف مراحل میں دینی و قومی تحریکات میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اور اب بھی یہ قافلہ اسلامی نظام کے نفاذ اور عوامی حقوق کی بازیابی کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تعلیم سے فراغت پاتے ہی جب ۱۹۷۰ء کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو سید شمس الدینؒ پیچھے نہ رہ سکے، اور جمعیۃ علماء اسلام کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں علاقہ کی ایک سرکردہ شخصیت کو شکست فاش دیتے ہوئے اسمبلی میں پہنچ گئے۔

شہیدؒ کی سیاسی زندگی کا عرصہ تین سوا تین سال سے زیادہ نہیں ہے لیکن اس مختصر ترین سیاسی زندگی میں انہوں نے اصول پرستی، استقامت، ایثار اور حب الوطنی کی جو روایات چھوڑی ہیں وہ نفسانفسی اور مصلحت پرستی کے اس دور میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

اسلام کے ساتھ سید شمس الدین شہیدؒ کے والہانہ اور پرجوش تعلق کا مظاہرہ بلوچستان کے رہنماؤں نے ــ سے پہلے سبی دربار میں دیکھا جہاں گورنر ۔۔۔ اور سب لوگ دربار کی گہماگہمی میں مصروف تھے کہ سب روایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک طرف سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ دربار کے شرکاء نے غور سے دیکھا کہ یہ بلوچستان اسمبلی کے نو منتخب رکن مولوی سید شمس الدینؒ ہیں جو نماز کا وقت ہونے پر سب درباری شرکاء کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دے رہے ہیں۔ اذان مکمل کر کے سید شمس الدینؒ گورنر کی طرف آئے اور کہا کہ جناب نماز کا وقت ہے، اذان میں نے دے دی ہے، آپ صوبہ کے سربراہ ہیں، اسلامی روایات کے مطابق امامت کے فرائض آپ سرانجام دیں گے، گورنر نے معذرت کی، اور لوگوں نے محسوس کر لیا کہ یہ پرجوش نوجوان بڑے سے بڑے اجتماع میں اپنے نظریہ اور عقیدہ کی بات کہنے کا حوصلہ اور منوانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سید شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ بلوچستان میں جمعیۃ اور نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کی مشترکہ وزارت کے قیام کے بعد صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے اور جمعیۃ علماء اسلام کے صوبائی امیر چنے گئے، جو ۲۷ برس کے ایک نوجوان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی آزمائش بھی تھی۔ اور شہیدؒ نے جہد و عمل کے ساتھ ثابت کر دیا کہ وہ اس آزمائش پر پورے اترے ہیں۔

شہیدؒ کی دینی حمیت کا دوسرا مظاہرہ بلوچستان کے عوام نے اس وقت دیکھا جب ژوب میں منکرینِ ختمِ نبوت کی طرف سے قرآن پاک کے تحریف شدہ نسخوں کی تقسیم پر عوامی ردعمل اور مزاحمت کی قیادت انہوں نے سنبھال لی۔ پھر ان کی قیادت میں تحریک چلی، مظاہرے ہوئے، ہڑتالیں ہوئیں، بھوک ہڑتال ہوئی، گرفتاریاں ہوئیں، خود سید شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ ایک عرصہ تک میوند میں محصور اور نظربند رہے، اور بالآخر تحریک اپنے تمام مطالبات کی تکمیل پر منتج ہوئی۔

گرفتاری اور نظربندی کے اس دور میں انہیں وزارت اعلیٰ تک کی پیشکش ہوئی، سادہ چیک پیش کر کے لالچ کے جال میں الجھانے کی کوشش ہوئی، لیکن کوئی حربہ انہیں راہِ حق سے نہ ہٹا سکا۔ اس دوران شہیدؒ کے والد مولانا سید محمد زاہد مدظلہ کو صوبہ کی مقتدر ترین شخصیت نے بلایا اور کہا کہ اگر آپ کا بیٹا ختمِ نبوت کے تحفظ کی بات میں نرمی پیدا کر لے تو اسے رہا کیا جا سکتا ہے، ورنہ اس کی جان کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس کے جواب میں جرأت مند بیٹے کے حوصلہ مند باپ نے کہا کہ گورنر صاحب! یہ عقیدہ کا مسئلہ ہے، میں ختمِ نبوت کے عقیدہ پر ایک شمس الدین رحمۃ اللہ نہیں اس جیسے دس بیٹے قربان کر سکتا ہوں۔

اور پھر باپ بیٹے اور ان کے رفقاء کی اس استقامت کے سامنے حکومتِ وقت کو سپرانداز ہونا پڑا۔ سید شمس الدین شہیدؒ صوبائی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر اور نیپ جمعیۃ مخلوط پارلیمانی پارٹی کے رکن تھے، لیکن یہ دونوں حیثیتیں ان کے جذبۂ اظہارِ حق کی راہ میں حائل نہ ہو سکیں، اور جہاں بھی حق کے اظہار کی نوعیت آئی پارلیمانی مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر انہوں نے کلمۂ حق بلند کیا۔

۱۱ جنوری ۱۹۷۳ء کو انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں شراب کو ممنوع قرار دینے کے مطالبہ پر مشتمل قرارداد پیش کی اور اس پر تقریر کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

’’افسوس کہ آج ہمارا یہ خطہ جس میں مسلمان بستے ہیں اس میں ہمارا قانون، ہمارا آئین اور ہمارا دن بھر کا اٹھنا بیٹھنا سب وہی ہے جو انگریز ہمارے اوپر مسلط کر گئے تھے۔ ہم آج بھی انہیں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں، ہم نے اپنے دین کو ترک کر دیا، اپنے قانون کو ترک کر دیا، اپنے نبیؐ کے نقشِ قدم پر چلنا ترک کر دیا، ہم نے سب کچھ فراموش کر دیا۔‘‘

اپنی اسی تقریر میں سید شمس الدینؒ نے یہ بھی کہا:

’’جب ایک سرمایہ دار اپنے سرمائے کے نشے میں مست ہو کر شراب پینے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اسے غریب بچوں کی ان ایڑیوں کا فکر نہیں ہوتا جو بھوک کی وجہ سے زمین پر رگڑ رگڑ کر خون بہاتی ہیں۔ تو آج میں آپ لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ جو غریب اور غریب پروری کے نعرے لگاتے ہیں اور عوام عوام کی رٹ لگاتے ہیں، اگر آپ کو ان سے ہمدردی ہے، اگر آپ ان کے استحصال کو ختم کرنے میں مخلص ہیں، تو یہ ایک بہت بڑا فلسفہ ہے، اسلامی فلسفہ، آپ اس پر عمل پیرا ہوں۔ وہ فلسفہ کیا ہے اور کیا ہو سکتا ہے؟

اگر آج آپ نے اس حضرت سرمایہ دار کی شراب کی بوتل توڑ دی اور اس کو رات کو شراب پیتے وقت شراب نہ مل سکی، اور اس سے وہ تڑپا، تو اسے یہ پتہ چلے گا کہ غریب کے بچے اور غریب عوام جو بھوک سے تڑپتے ہیں ان کی حالت کیا ہوتی ہے۔ آج اگر مجھے نشے کی ایک زائد خوراک نہ ملی تو میں ایسا تڑپ رہا ہوں، تو ان غریب عوام کی کیا حالت ہو سکتی ہے؟‘‘

سید شمس الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ قومی سیاست کے اتار چڑھاؤ اور بلوچستان کی علاقائی و جغرافیائی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ اور انہوں نے اپنی تقاریر اور خطبات میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان کے عوام کی حب الوطنی پر اعتماد کیا جائے اور ان کے حقوق و مسائل کے حل کی طرف توجہ دی جائے۔

۲۰ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو لاہور کے ایک ہوٹل میں جمعیۃ طلباء اسلام کے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ

’’بلوچستان پاکستان کا ایک اہم حصہ ہے جسے قدرت نے معدنی دولت سے مالامال کر رکھا ہے۔ اور اس کا ساحل گرم پانی کی وجہ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے عالمی طاقتیں للچائی ہوئی نگاہوں سے اس قیمتی خطہ کو دیکھ رہی ہیں اور یہ خطہ بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہو چکا ہے۔‘‘

اسی موقع پر لاہور میں ایک اور تقریب سے خطاب کے دوران بلوچستان میں بھٹو حکومت کی فوج کشی کا ذکر کرتے ہوئے شہیدؒ نے کہا کہ

’’یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں پنجاب اور بلوچستان کے عوام کے درمیان نفرت کا بیج بو کر علیحدگی کا ذہن پیدا کیا جائے، اور بلوچستان کو زبردستی ملک سے الگ کر کے سامراجی طاقتوں کی جھولی میں ڈال دیا جائے۔ لیکن میں واشگاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم ملک سے الگ نہیں ہوں گے، بلکہ اگر ہمیں زبردستی ملک سے الگ کرنے کوشش کی گئی تو ہم ایسا کرنے والی طاقت کو ملک سے بھگا کر دم لیں گے۔‘‘

سید شمس الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ اسلامی نظام کی جدوجہد، ملکی سالمیت کے تحفظ، قومی وحدت کی بقاء، اور عوامی حقوق کی پاسداری کی اسی شاہراہ پر پوری عزیمت و استقامت کے ساتھ گامزن تھے کہ ۱۳ مارچ ۱۹۷۴ء کوئٹہ سے ژوب جاتے ہوئے ’’خل گئی‘‘ کے مقام پر ایک بدبخت قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔

سید شمس الدینؒ کے المناک قتل پر شہیدؒ کے قائدین، قومی پریس، سیاسی رہنماؤں اور معاصرین نے اپنے غم اور صدمہ کا اظہار کیا، مگر ان میں ممتاز مسلم لیگی رہنما خواجہ محمد صفدر کا یہ خراج عقیدت بلاشبہ محبِ وطن حلقوں کے دلوں کی آواز تھا کہ

’’سید شمس الدین شہیدؒ اپنی گہری اسلام دوستی اور جمہوریت نواز ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے حالیہ بحران میں پاکستان کی سالمیت اور اتحاد کے عظیم داعی تھے۔ اور ان کی وحشتناک موت سے بلوچستان میں بالخصوص پاکستان کے اتحاد اور سالمیت پر ایمان رکھنے والے حلقوں میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔‘‘

اس موقع پر اس دکھ اور افسوس کا اظہار نامناسب نہیں ہو گا کہ ’’پاکستان کی سالمیت اور اتحاد کے اس عظیم داعی‘‘ کے قتل کو آٹھ برس گزر چکے ہیں مگر آج تک نہ قاتل گرفتار ہوا ہے اور نہ ہی مقدمہ قتل میں کوئی پیشرفت ہوئی ہے۔ کیا حکومت سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ سید شمس الدینؒ کے قاتل اور اس کے پشت پناہوں کو بے نقاب کر کے انہیں قرار واقعی سزا دینے میں کچھ دلچسپی لے گی؟

   
2016ء سے
Flag Counter