۱۹۷۴ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کی بات ہے، میں اس وقت کل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت ضلع گوجرانوالہ کا رابطہ سیکرٹری تھا، اور مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ چونکہ تحریک کا مرکز تھی، اس لیے تحریک کے تنظیمی اور دفتری معاملات کا انچارج بھی تھا۔ ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں تحریک کے جلسے کا پروگرام تھا جس میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت کے لیے اے سی صاحب (اسسٹنٹ کمشنر) کو درخواست دے رکھی تھی۔ راقم الحروف تحریکِ ختمِ نبوت کے ایک اور راہنما کے ساتھ اے سی گوجرانوالہ سے ملا کہ وہ اجازت دے دیں۔ انہوں نے حالات کی خرابی اور جھگڑے کے خدشے کے عنوان سے ٹال مٹول کرنا چاہی، میرے ساتھ جانے والے دوست نے اچانک ان سے کہہ دیا کہ آپ قادیانی تو نہیں ہیں؟ اے سی کچھ گھبرا سا گیا اور یہ کہہ کر منظوری کے دستخط کر دیے کہ مولوی صاحب! اتنا بڑا الزام مجھ پر نہ لگائیں اور جائیں جا کر جلسہ کریں۔
اے سی کے دفتر سے باہر نکلے تو مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ اس کے بغیر وہ اجازت نہ دیتا۔ اس وقت تو میں نے بھی محسوس نہ کیا کہ ہم جس کام کے لیے گئے تھے وہ ہو گیا تھا، لیکن بعد میں یہ بات آہستہ آہستہ کھلتی چلی گئی کہ ہم بسا اوقات اپنا کام نکلوانے کے لیے یا کوئی غصہ نکالنے کے لیے بھی کسی اچھے بھلے مسلمان کو قادیانی کہہ دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اس کے بعد تحریکی زندگی میں بہت سے مراحل ایسے آئے کہ اچھے خاصے بزرگوں کی طرف سے بھی اسی قسم کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرنا پڑا۔
پنجاب کے سابق آئی جی پولیس احمد نسیم چودھری گکھڑ کے رہنے والے ہیں اور میرے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے قرآن کریم کی ابتدائی تعلیم ہمارے گھر میں ہماری والدہ محترمہ سے حاصل کی ہے اور والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے خاص عقیدت مندوں میں سے ہیں۔ ایک زمانے میں وہ ضلع جھنگ کے ایس ایس پی (سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس) تھے۔ ایک روز حضرت مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی گوجرانوالہ میرے پاس تشریف لائے اور باتوں باتوں میں فرمایا کہ ہمارے ضلع کا ایس ایس پی مرزائی ہے۔ میں نے چونک کر دریافت کیا کہ کیا ضلع جھنگ کا ایس ایس پی تبدیل ہو گیا ہے؟ فرمایا کہ نہیں، وہی احمد نسیم ہے۔ میں نے حیرت سے کہا کہ حضرت! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ فرمانے لگے کہ میں نے تحقیق کر لی ہے، وہ قادیانی ہے اور اس کا نام بھی قادیانیوں والا ہے۔ مجھے سخت غصہ آیا، میں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ اسے نہیں، مجھے قادیانی کہہ رہے ہیں۔ مولانا چنیوٹیؒ بھی چونکے اور فرمایا، کیا تم اسے جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ میرا دوست ہے، بھائی ہے، کلاس فیلو ہے اور حضرت والد صاحب کے شاگردوں میں سے ہے۔ پھر میں نے مولانا چنیوٹی کو احمد نسیم چودھری کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتایا تو بڑے پریشان ہوئے اور میری بات سن کر الجھن میں پڑ گئے۔ فرمانے لگے کہ مجھے اس کے ایک ڈی ایس پی نے بڑے وثوق کے ساتھ بتایا ہے کہ وہ قادیانی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اس بات کی تحقیق کریں کہ اس ڈی ایس پی نے ایسا کیوں کہا ہے؟ کچھ دنوں بعد مولانا چنیوٹیؒ نے خود مجھے بتایا کہ تمہاری بات ٹھیک ہے۔ اس ڈی ایس پی کا کوئی کام ایس ایس پی نے نہیں کیا تھا تو اس نے غصہ نکالنے کے لیے اس عنوان سے مجھے استعمال کرنا چاہا، مگر تم نے اچھا کیا کہ مجھے بروقت آگاہ کر دیا اور میں اس سے بچ گیا۔ اس کے بعد میری درخواست پر احمد نسیم چودھری اور مولانا چنیوٹیؒ کی باہم ملاقات ہوئی اور پھر ان کے درمیان بہت اچھے دوستانہ مراسم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
مولانا چنیوٹیؒ چونکہ اس محاذ کے جرنیل تھے اور ان کی بات کو اس حوالے سے سند سمجھا جاتا تھا، اس لیے بعض لوگ مولانا موصوف کی اس پوزیشن سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ناروا کوشش کرتے تھے۔ اسی سلسلے کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ مولانا چنیوٹیؒ کہیں جاتے ہوئے میرے پاس گوجرانوالہ میں رکے اور بریف کیس سے ایک فائل نکال کر مجھے دکھائی کہ گکھڑ کا ایک شخص غالباً بحرین کے پاکستانی سفارت خانے میں افسر ہے جس کے بارے میں وہاں سے بعض پاکستانیوں کے خطوط آئے ہیں جن کی ساہیوال کے ایک بڑے دینی جامعہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ وہ شخص قادیانی ہے اور بحرین کے پاکستانیوں کو تنگ کر رہا ہے۔ چونکہ وہ گکھڑ کا رہنے والا ہے اس لیے تمہارے ساتھ مشورہ کے لیے آیا ہوں۔ میں نے نام پوچھا تو بتایا کہ اس کا نام شعبان اپل ہے۔ میرے دونوں ہاتھ بے ساختہ کانوں تک چلے گئے کہ اس کا معاملہ بھی احمد نسیم چودھری کی طرح کا تھا، وہ ہمارا پڑوسی تھا اور ہمارا بچپن اکٹھے گزرا۔ میں نے لکھنا پڑھنا اس کی ہمشیرہ سے سیکھا اور اس نے قرآن کریم میری والدہ مرحومہ سے پڑھا۔ اس کی والدہ اور میری والدہ آپس میں سہیلیاں بنی ہوئی تھیں اور ہم اس کی والدہ کو خالہ جی کہا کرتے تھے۔ آج بھی ان کی یاد آتی ہے تو اس دور کی حسین یادیں دل میں گدگدی کرنے لگتی ہیں۔ میں نے وہ فائل ایک نظر دیکھی اور یہ کہہ کر مولانا چنیوٹیؒ کو واپس کر دی کہ اس نے کسی کا کام نہیں کیا ہوگا اور اس نے بدلہ لینے کے لیے یہ حرکت کر دی ہے۔ مولانا چنیوٹی بھی فرمانے لگے کہ اچھا ہوا میں نے تم سے پوچھ لیا ورنہ میں بحرین کی حکومت اور پاکستان کی حکومت دونوں کو باضابطہ خط لکھنے والا تھا کہ اس افسر کو بحرین کے پاکستانی سفارت خانے سے واپس کیا جائے۔
بعض واقعات تو اس سے بھی زیادہ خوفناک ہیں جو میرے حافظے میں محفوظ ہیں مگر ایک اور واقعہ عرض کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک دفعہ گوجرانوالہ میں عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کے دفتر میں سرکردہ علماء کرام کا ڈویژنل سطح پر اجلاس تھا۔ اس میں ضلع سیالکوٹ کے ایک محترم بزرگ نے بڑے وثوق کے ساتھ اپنے خطاب میں کہا کہ پنجاب کا سیکرٹری تعلیم قادیانی ہے، اس کے بارے میں آواز اٹھانی چاہیے۔ اجلاس کے بعد میں نے ان سے علیحدگی میں پوچھا کہ کیا آپ کو یقین ہے اور آپ نے تحقیق کر لی ہے؟ انہوں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ہاں وہ بہت پکا قادیانی ہے۔ ضیاء الحق مرحوم کا دورِ حکومت تھا اور ان کے ایک مشیر کے ساتھ، جو تعلیم کے شعبہ ہی کے مشیر تھے، میری علیک سلیک تھی۔ کچھ دنوں کے بعد میرا اسلام آباد جانے کا پروگرام بن گیا اور میں نے طے کیا کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے اس مشیر سے اس سلسلے میں خود بات کروں گا۔ ان دنوں میرے ایک پرانے دوست پروفیسر افتخار احمد بھٹہ وفاقی وزارتِ تعلیم میں افسر تھے۔ پہلے میں نے ان سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا اور خیال کیا کہ انہیں بھی ملاقات میں ساتھ لے جاؤں گا۔ انہوں نے میری بات سنی تو فرمایا کہ تم نے بہت اچھا کیا کہ مجھ سے بات کر لی ورنہ بہت گڑبڑ ہو جاتی، اس لیے کہ جن صاحب کے پاس تم یہ شکایت لے کر جا رہے ہو، یہ ان صاحب کے داماد ہیں جن کی شکایت کرنے آئے ہو اور دونوں میں سے کوئی بھی قادیانی نہیں ہے۔ میرے کچھ اور کام بھی تھے مگر پروفیسر افتخار احمد بھٹہ کی یہ بات سن کر میں اتنا کنفیوژ ہوا کہ میں نے سرے سے ان مشیر صاحب سے ملاقات کا ارادہ ہی ترک کر دیا اور واپس گوجرانوالہ چلا آیا۔